تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     14-02-2014

دہشت گردوں کی یلغار

گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے یوں تو پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، لیکن صوبہ پختون خوا ان حملوں کا خصوصی نشانہ ہے۔ دہشت گردی کی تازہ ترین واردات میں پشاور کے نواح میں واقع ایک علاقے بڈھ بیر میں دہشت گردوں نے ایک پولیس اہلکار کے گھر کو پہلے دستی بموں سے نشانہ بنایا اور پھر گھر میں گھس کر 9 افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ پشاور میں دہشت گردی کی یہ بہیمانہ واردات 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل شہر میں واقع ایک سینما میں عین شو کے دوران پہلے دستی بموں سے حملہ اور اس کے بعد ہال میں موجود افراد پر فائرنگ کی گئی۔ اس کے نتیجے میں 13 افراد کی جانیں گئیں اور متعدد زخمی ہوئے۔ پشاور ہی میں ایک اور سینما پر 2 فروری کو حملہ کیا گیا تھا‘ جس میں متعدد افراد شہید ہو گئے تھے۔ اس سے اگلے دن یعنی تین فروری کو پشاور کے ایک بارونق علاقے قصہ خوانی بازار سے ملحق کوچہ رسالدار میں ایک ہوٹل پر ایک خود کش حملہ کیا گیا، جس میں 9 افراد شہید اور 50 زخمی ہوئے۔
پشاور کے علاوہ قبائلی علاقے میں بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کی دو وارداتوں میں ایک افسر اور چھ فوجی زخمی ہو گئے۔ ایک واردات میں فوجی قافلے میں شامل ایک ٹرک کو سڑک کے کنارے نصب بم سے نشانہ بنایا گیا۔ دوسری واردات میں دہشت گردوں نے ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کر کے ایک فوجی افسر کو زخمی کر دیا۔ اسی قسم کے ایک اور واقعہ میں مسلح افراد نے ضلع ہنگو میں تین سکول ٹیچرز کو اس وقت فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا جب وہ سکول میں اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد واپس گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ دہشت گردی کی ان بڑھتی ہوئی وارداتوں کا سلسلہ صرف پشاور یا قبائلی علاقوں تک ہی محدود نہیں، ملک کے دوسرے حصے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میںکراچی کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے‘ جہاں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس کے جوانوں اور افسروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ستمبر میں شروع ہونے والے اس آپریشن میں اب تک پولیس کے 80 جوان اور افسر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ لیکن دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں صرف پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہی شامل نہیں بلکہ 8 فروری کو کراچی کے علاقہ بلدیہ ٹائون میں ایک روحانی رہنما کے آستانے پر مسلح حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے پورے ملک میں اپنی یلغار کا آغاز کر دیا ہے۔ اس واردات میں 8 افراد شہید ہوئے‘ جن میں ایک کمسن بچی بھی شامل تھی۔ دہشت گردی کی ان پے در پے وارداتوں کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب دہشت گرد صرف پولیس اور سکیورٹی فورسز کے ارکان ہی کو نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ ایسے مقامات پر بھی حملے کر رہے ہیں جہاں عام شہری تفریح کیلئے یا اپنے عقائد کی بنا پر جمع ہوتے ہیں۔ اس کا واحد مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا اور انہیں ان کے عقائد کی بنا پر قتل کرنا ہے۔ لگتا ہے کراچی کے بلدیہ ٹائون میں آستانے پر حملہ اسی منصوبے کے تحت کیا گیا۔ بلوچستان کے ضلع کوہلو میں ایک روحانی بزرگ ''مست توکلی‘‘ کے مزار کو نذر آتش کرنے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی کڑی محسوس ہوتی ہے۔ پشاور سمیت کراچی میں دہشت گردی کی اب تک جتنی بھی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ ان سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اگر ان کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کا ہاتھ نہیں تو کون سی دوسری دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو ان کی ذمہ دار ہیں۔ اگرچہ بلدیہ ٹائون میں آستانے پر حملہ کی واردات کا جائزہ لینے والی پولیس ٹیم کا دعویٰ ہے کہ اس میں جس منصوبہ بندی اور مہارت سے کام لیا گیا، وہ ٹی ٹی پی کے طریقہ کار (Modus Operandi) سے قریبی مماثلت رکھتی ہے۔
دہشت گردی کے اس طویل سلسلے سے جہاں ایک طرف عوام سخت سراسیمہ ہیں، وہاں ان کارروائیوں نے حکومت اور خاص طور پر حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی چار رکنی کمیٹی کو بھی کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے کیونکہ اب تک ان کے حوالے سے جو خبریں عوام تک پہنچ رہی تھیں، ان میں ''سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ کا مژدہ سنایا جا رہا تھا‘ لیکن اب وزیر اعظم نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے دہشت گردی ختم کرنا ہو گی۔ وزیر اعظم اس سے قبل بھی اعلان کر چکے ہیں کہ دہشت گردی اور 
مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اگر دہشت گردی کے یہ واقعات نہ رکے اور پبلک مقامات پر بھی عوام دہشت گردی کا شکار بنتے رہے، تو خدشہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی کوششوں کے پیچھے عوامی تائید بتدریج معدوم ہوتی چلی جائے گی۔ موجودہ حکومت نے مذاکرات کے حق میں سیاسی پارٹیوں سے مینڈیٹ اس یقین دہانی کی بنیاد پر حاصل کیا تھا کہ طالبان بھی مذاکرات پر آمادہ ہیں‘ اس کا اظہار طالبان کی طرف سے بھی مختلف مواقع پر ہوتا رہا ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی اس خون آمیز لہر نے ملک کو ایک ایسے مرحلے پر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جب حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قیام امن کی خاطر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس عمل کو شروع ہوئے دو ہفتے سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک سب سے پہلا اور سب سے زیادہ ضروری قدم یعنی فائر بندی پر فیصلہ نہیں ہو سکا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اگر اسی طرف دھماکے ہوتے رہے اور لاشیں گرتی رہیں تو امن مذاکرات کا کیا فائدہ؟
دوسری طرف پشاور اور خیبر پختون خوا کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کی موجودگی میں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں صوبہ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کو امید تھی کہ طالبان کی طرف جھکائو کی وجہ سے عمران خان دہشت گردی کی روک تھام میں کامیاب ہو جائیں گے‘ لیکن پی ٹی آئی کے برسر اقتدار آنے سے دہشت گردی کی وارداتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
2013ء کے انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں یک دم اضافے کا جو رجحان پیدا ہوا تھا، وہ بدستور جاری ہے۔ دہشت گردی کی اس لہر نے یہ مفروضہ بھی غلط ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان میں امریکی موجودگی اور ڈرون حملوں کے خلاف ردِعمل کا نتیجہ ہے۔ جہاں تک افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کا تعلق ہے، تو اس کی اور نیٹو افواج کی تعداد اب افغانستان میں ایک تہائی رہ گئی ہے۔ پورے ملک میں دفاع اور سلامتی کی ذمہ داری افغان نیشنل آرمی اور افغان پولیس کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب افغانستان کے محاذ جنگ سے جو خبریں آتی ہیں ان میں امریکی اور نیٹو افواج کے سپاہیوں کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی بجائے، افغان فوج اور پولیس یا شہری آبادی کی ہلاکت کی خبریں زیادہ ہیں کیونکہ اب طالبان کا مقابلہ امریکیوں سے نہیں بلکہ افغان فوج سے ہو رہا ہے۔
اگر پاکستان میں دہشت گردی، افغانستان میں امریکیوں کی موجودگی کی وجہ سے تھی تو نئی صورتحال میں پاکستان کے اندر دہشت گردی میں کمی آنی چاہیے جبکہ اس کے برعکس اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح ڈرون حملے تقریباًَ تین ماہ سے رْکے ہوئے ہیں، لیکن طالبان نے دہشت گردی کو بریک نہیں لگائی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا تعلق نہ تو افغانستان میں امریکی موجودگی سے ہے اور نہ ہی یہ ڈرون حملوں کا ردِعمل ہے۔ اس کے محرکات کچھ اور ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان محرکات کا پتہ چلائے اور پھر اسے بنیاد بنا کر ایک موثر کائونٹر ٹیررازم (Counter Terrorism) حکمتِ عملی کی تشکیل کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved