تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-02-2014

ایک کتاب‘ ایک رسالہ‘ ایک غزل

شہاب نامہ کی حقیقت 
ناول ''آدھی روٹی کافی ہے‘‘ اور کئی دیگر تصنیفات کے خالق عرفان احمد خان کی یہ تازہ کتاب منصۂ شہود پر آئی ہے جس کا ذیلی عنوان ہے ''وہ ماسک جسے پاکستانی بیوروکریسی نے اپنا مکروہ اور داغدار چہرہ چھپانے کے لیے استعمال کیا‘‘۔ کتاب کا اکتساب اس طرح سے ہے: 
مسعود کھدر پوش کے نام 
جو پاکستانی بیوروکریسی کی کوئلے کی کان میں سے نکلنے والے چند نایاب ہیروں میں سے ایک تھا۔ اگر ان کی ''ہاری رپورٹ‘‘ پر عمل ہو جاتا تو آج پاکستان جاگیرداری کے چنگل سے آزاد ہوتا۔ 
سب سے پہلے ابتدائیہ کے عنوان سے ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی نہایت عمدہ تحریر ہے‘ جس کے بعد احمد بشیر‘ جمیل احمد عدیل‘ مشفق خواجہ اور مصنف کے مضامین ہیں جبکہ آخر میں مصنف نے شہاب نامہ کی حقیقت کے عنوان سے اس کتاب کا جائزہ لیا ہے۔ 
ان میں سب سے زیادہ دلچسپ محاکمہ وہ ہے جو جمیل احمد عدیل کے قلم سے ہے‘ مشفق خواجہ کی تحریر اتنی سنجیدہ ہے کہ وہ ان کی تحریر لگتی ہی نہیں۔ مصنف نے کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے کم و بیش اس کا خلاصہ ہی پیش کیا ہے اور ع 
عیبِ مَے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو 
کے مصداق مصنف نے جہاں قدرت اللہ شہاب پر تنقید و تنقیص کے تیر چلائے ہیں‘ وہاں ان کے پلس پوائنٹ بتانے سے بھی گریز نہیں کیا ہے‘ جس سے ان کی تحریر متوازن تو ہو گئی لیکن دھماکہ خیز ہونے سے رہ گئی ہے جو عرفان احمد خاں کا خاصہ ہے‘ جبکہ ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کی طرف سے شہاب کو ولی اللہ ثابت کرنے کی کوششیں بھی اب کوئی راز کی بات نہیں رہی۔ ٹی اینڈ ٹی پبلشرز لاہور کی جانب سے چھاپی گئی اس دلچسپ کتاب کی قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے۔ 
خبرنامۂ شب خون 
اسے باقاعدہ رسالہ تو نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم اس کے دلچسپ اور معلومات افزا مندرجات کو دیکھا جائے تو یہ کسی رسالے سے کم بھی نہیں ہوتا جو ممتاز نقاد‘ ادیب اور ہمارے ناراض دوست شمس الرحمن فاروقی الہ آباد سے شائع کرتے ہیں اور جس سے مرحوم ماہنامے ''شب خون‘‘ کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ اس رسالے کے ساتھ میرے جذباتی تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے میری غزلیں چھاپ چھاپ کر مجھے پورے بھارت بلکہ ساری ادبی دنیا میں شیطان کی طرح مشہور کردیا اور جس کی بندش ایک سانحہ سے کم نہیں تھی۔ اس خبرنامے کے مدیرانِ اعزازی کے طور پر فاروقی صاحب کی دخترانِ نیک اختر مہر افشاں فاروقی اور باراں فاروقی کے نام درج ہیں جبکہ اول الذکر خود ایک بہت عمدہ نقاد اور ایک غیر ملکی یونیورسٹی میں ادب پڑھاتی ہیں۔ 
اس دستاویز کا آغاز ایڈیٹر کے نام خطوط سے ہوتا ہے جن کی ایک ادبی اہمیت ہوتی ہے۔ زیرِ نظر شمارے کا پہلا خط جودھ پور سے حسن جمال کا ہے جس کا آغاز وہ بجا طور پر اس طرح سے کرتے ہیں کہ یہ خبرنامہ کیا ہے‘ کوزے میں سمندر ہے۔ ایسی حوالہ جاتی تحریریں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ یہ سراسر جناب شمس الرحمن فاروقی کا کارنامہ ہے۔ خدا ان کی عمر دراز کرے‘ آمین! چنانچہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا کہ ان میں سے اکثر خطوط بجائے خودتنقیدی مضامین کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں محض رسمی خطوط کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘ وگرنہ عام طور پر ایسی تحریریں خود مکتوب نگار ہی پڑھتے ہیں۔ 
باقاعدہ مضامین میں سب سے پہلے ''ڈیڑھ دن‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں انتقال کر جانے والے ایک معتبر بھارتی نقاد وارث علوی کو جاوید صدیقی نے یاد کیا ہے جس کے بعد شبرنواز کا اکرم نقاش سے 
مفصل انٹرویو ہے۔ پھر خالد محمود خاں نے ''اسلوبی اور لسانی معمولات‘‘ پر خامہ فرمائی کی ہے اور ''فکشن میں خطابیہ‘‘ کے عنوان سے مفصل جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد حال ہی میں انتقال کر جانے والے صاحبِ طرز شاعر محبوب خزاں پر محمد اظہار الحق کی تحریر ہے۔ اس کے بعد کمال احمد صدیقی پر شمس الرحمن فاروقی کی مختصر تحریر ہے اور اس کے بعد انہوں نے سکندر احمد کی یاد میں لکھا ہے۔ صبا اکرام نے رسالہ ''آئندہ‘‘ کراچی کے مدیر اور افسانہ نگار واجد محمود کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے جبکہ ندیم صدیقی نے احمد ہمیش اور شفیع عقیل کی یادوں کو تازہ کیا ہے اور عشرت ظفر اور حبیب ہاشمی نے مرحوم خواجہ جاوید اختر کو یاد کیا ہے۔ صدیق الرحمن نے جذبی کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ پھر لطف الرحمن کے لیے سلطان اختر کی رباعیات ہیں جبکہ وشواناتھ طائوس نے ایک فلم ڈائریکٹر کا احوال قلمبند کیا ہے۔ اشوک باجپئی نے چندی گڑھ ادب میلے کے حالات قلمبند کیے ہیں تو محمود شام نے بھی یہی موضوع منتخب کیا ہے۔ پھر عربی و فارسی کی سول امتحانات میں بحالی کے لیے ممتاز عالم رضوی کے مطالبات ہیں تو رحمن عباس نے معاصر ناولوں پر اظہارِ خیال کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ کیا اسے محض ایک خبرنامہ کہا جا سکتا ہے؟ 
غزل 
(لیاقت جعفری کے لیے )
بے مقصد و بے فائدہ زحمت ہی کیے جائیں 
لازم تو نہیں ہے کہ محبت ہی کیے جائیں 
اللہ کا گھر یوں تو ذرا دور تھا‘ لیکن 
آئے ہیں تو اس بُت کی شکایت ہی کیے جائیں 
یہ شوقِ ملاقات بھی خطروں سے ہے دوچار 
کافی ہے اگر اس کی حفاظت ہی کیے جائیں 
ٹھہریں تو ذرا جلسہ گہِ خواب کے باہر 
ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ شرکت ہی کیے جائیں 
آتے ہیں کئی اس کے علاوہ بھی ہمیں کام 
یہ کیا ہے کہ ہم آپ کی عزت ہی کیے جائیں 
یہ مقبرہ ہے میری محبت کا‘ اِدھر سے 
گزریں جو کبھی‘ اِس کی زیارت ہی کیے جائیں 
وعدوں پہ بھی جی سکتا ہوں‘ جھوٹے ہوں کہ سچے 
بے شک وہ میرے ساتھ سیاست ہی کیے جائیں 
کل تک جو رہا اپنے لیے باعثِ توقیر 
اس کام پہ اظہارِ ندامت ہی کیے جائیں 
جاتے ہیں سفر پر تو‘ ظفرؔ دل سے کسی طور 
اک مفت کے مہمان کو رخصت ہی کیے جائیں 
آج کا مطلع 
بھیک مطلوب ہے جس کو نہ صدا کرتا ہے 
اک گدا شہر میں ایسا بھی پھرا کرتا ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved