برطانوی اخبار ''گارڈین‘‘ نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ انٹرویو کا خلاصہ بھی شامل ہے۔ یوں تو شہباز شریف کی ساری باتیں ہی سچائی اور حقائق پر مبنی ہیں‘ لیکن ایک سچائی ایسی ہے‘ جس میں پورے برصغیر بلکہ دنیا کے امن کو لاحق خطرے کی بے باکی سے نشاندہی کی گئی۔ شہباز شریف نے انتباہ کیا کہ ''دونوں ملکوں کی سکیورٹی ایجنسیاں‘ پاک بھارت ٹریڈ کے منصوبوں میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ''دونوں طرف کی سکیورٹی ایجنسیوں کو حقیقتاً سمجھ لینا چاہیے کہ آج کی دنیا میں سکیورٹی کے تصور کا انحصار‘ معاشی سکیورٹی پر ہے۔ اگر معاشی سکیورٹی نہ ہو‘ تو پھر عمومی سکیورٹی بھی نہیں ہوتی‘‘۔ بھارت اور خصوصاً پاکستان میں سیاستدان عام طور سے اس حساس موضوع پر کھل کر بات نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے‘ ردعمل دیکھ کر شہباز شریف کو وضاحت کرنا پڑ جائے‘ لیکن ہر باخبر شہری اس سچائی کو اچھی طرح سمجھتا ہے‘ جو شہباز شریف نے بیان کی۔ پاک بھارت کشیدگی کا جو زہریلا پودا تنازعہ کشمیر سے پھوٹا تھا‘ اب اس کی جڑیں دوطرفہ تعلقات کے ہر حصے میں پھیل چکی ہیں۔ دونوں ملکوں کی سیاست پر تنازعہ کشمیر کے سائے گہراتے گہراتے‘ کئی عشروں سے اندھیرے اور دھندلکے کی درمیانی کیفیت میں ڈوبے ہیں۔ جیسے ہی دونوں حکومتیں دھندلکے سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں‘ اندھیرے کی لہریں بلند ہونے لگتی ہیں۔ بارہا ایسا ہوا کہ اچھے تعلقات کی امیدیں روشن ہوتی ہیں اور اچانک غیرمتوقع صورتحال پیدا ہوتی ہے اور خوشگوار تعلقات کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھوں میں بندوقیں آ جاتی ہیں۔
جب بھی ہم اچانک پیدا ہونے والی غیرمعمولی صورتحال سے باہر نکلے اور عقل و فہم پر چھائے ہوئے گہرے بادل چھٹنے لگے‘ تو وہی حقیقت سامنے آئی جسے شہباز شریف نے ''دونوں طرف کی سکیورٹی ایجنسیوں‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اس تلخ سچائی کے برملا اعتراف سے گریز کرتی ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں جب بھی کشیدگی ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش ہونے لگتی ہے‘ ان دیکھے ہاتھ حرکت میں آ کر کہیں نہ کہیں بھس میں چنگاری سے‘ آگ بھڑکا دیتے ہیں‘ جسے بجھانے اور اس کی پیدا کردہ تپش سے نکلنے کے لئے برسوں کوششیں ہوتی ہیں اور جیسے ہی کامیابی کی جھلک دکھائی دیتی ہے‘ کہیں نہ کہیں پھر چنگاری بھڑکا دی جاتی ہے اور امن کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ اس کی نمایاں مثالیں 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی اور 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات ہیں۔ ان دونوں میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ 2007ء میں پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بڑے اچھے ماحول میں اہم مذاکرات کے لئے دہلی جانے والے تھے۔ اس دورے میں وہ روایتی کشیدگی کا ماحول ختم کر کے‘ ایسے سمجھوتوں پر دستخط کرنے والے تھے‘ جو آگے چل کر خوشگوار تعلقات کی بنیادیں فراہم کرتے۔ ان میں ایٹمی خطرے کو کم کرنے کا معاہدہ بھی شامل تھا۔ ان کے دورے سے صرف ایک دن پہلے دہلی سے لاہور آنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کو بموں سے اڑا دیا گیا۔ اس سانحے میں 68 مسافر ہلاک ہوئے۔ ان میں گاڑی کی حفاظت پر مامور بھارتی سکیورٹی گارڈ بھی شامل تھے۔ پاک بھارت تعلقات میں تلخی ختم کرنے کے لئے انتہائی پیچیدہ رابطوں کے بعد جو اچھا ماحول پیدا کیا گیا تھا‘ وہ اس ایک دھماکے سے ختم ہو گیا اور روایتی الزام تراشی اور کشیدگی حاوی آ گئی۔
آصف زرداری کی سربراہی میں قائم ہونے والی نئی جمہوری حکومت نے 2008ء میں بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے جرات مندانہ فیصلے کئے۔ لیکن وہ اپنی اور امن دشمن قوتوں کی طاقتوں کا اندازہ نہ کر سکے۔ حالانکہ عسکری مراکز سے انہیں کھلے اشارے بھی دیئے گئے تھے۔ جب انہوں نے بھارت کے ساتھ امن کی بنیادیں فراہم کرنے کی خاطر سمجھوتوں کی طرف پیش قدمی شروع کی اور اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دہلی گئے‘ تو ممبئی کے واقعات رونما ہو گئے۔ یہ اتنے ہولناک تھے کہ ان کے اثرات پوری دنیا نے محسوس کئے۔ ان واقعات میں بھارتیوں کے علاوہ غیرملکی شہری بھی ہلاک ہوئے۔ جن میں اسرائیل اور امریکہ کے باشندے شامل تھے۔ ان واقعات کی میڈیا کوریج نے پوری دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا گیا اور آئی ایس آئی کا نام لے کر الزام لگایا گیا کہ دہشت گردی کی یہ سازش پاکستان میں تیار ہوئی تھی۔ 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کی طرح ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کی ٹائمنگ بھی پاکستان کے وزیر خارجہ کے دورہ دہلی سے جڑی ہوئی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ خورشید قصوری کے دہلی پہنچنے سے کچھ ہی پہلے سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکے ہوئے اور ممبئی میں دہشت گردی اس وقت ہوئی جب شاہ محمود قریشی دہلی میں موجود تھے۔ ظاہر ہے‘ ممبئی بھارتی معیشت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ وہاں ہونے والے دھماکوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر طرف اشتعال پھیل گیا اور شاہ محمود قریشی کو اس غضبناک ماحول میں دورے کا باقی وقت جس طرح دہلی میں گزارنا پڑا‘ اس کی کیفیت وہی بیان کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں میں امن بحال کرنے کی جوکوششیں ہو رہی تھیں‘ وہ تاج محل ہوٹل کے شعلوں کی نذر ہو گئیں اور بہت دنوں کے لئے امن کا نام لینا بھی مشکل ہو گیا۔ ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔
پاک بھارت تاریخ میں ایسے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ میں صرف دو بڑے واقعات کا مزید ذکر کروں گا۔ ایک 1999ء میں کارگل کا سانحہ‘ جسے وزیر اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کی سازش قرار دیا تھا اور اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔ حقیقت اس سے کچھ زیادہ تلخ تھی۔ چھرا پاکستان اور بھارت کے ایک ارب 40 کروڑ عوام کی پیٹھ میں گھونپا گیا تھا‘ جن کے مستقبل کا ایک طویل عرصہ‘ امن سے محروم کر دیا گیا۔ ورنہ نواز شریف اور واجپائی نے تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لئے نہ صرف بنیادی امور طے کر لئے تھے بلکہ ٹائم ٹیبل بھی تیار کر لیا گیا تھا۔ جس کے تحت مقررہ وقت کے اندر بھارت‘ پاکستان اور کشمیری عوام کی باہمی رضامندی سے ایک مرحلہ وار حل پر سمجھوتہ ہونے والا تھا۔ امن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی اس واردات کو برصغیر کے عوام کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ دوسرا واقعہ 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا ہے۔ اس وقت بھی تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لئے پیش رفت ہو رہی تھی کہ اچانک بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا واقعہ ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں دونوں ایٹمی ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ اگر اس وقت طاقتور بیرونی ملک درمیان میں نہ آتے‘ تو جنگ یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ ظاہر ہے یہ بھی کسی ایجنسی کا کارنامہ تھا۔ شہباز شریف نے اپنے انٹرویو میں کوئی حوالہ دیئے بغیر جس حقیقت کا اظہار کیا ہے‘ درحقیقت وہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ امن کی ہر کوشش کے دوران جنگو ں اور دہشت گردیوں کے واقعات‘ پاک بھارت تعلقات کے راستے میں ایک بہت بڑی دیوار بن کر حائل ہو چکے ہیں۔ نواز شریف گزشتہ انتخابی مہم میں بڑی جرات مندی سے اس ارادے کا اظہار کرتے رہے کہ اگر وہ جیت گئے‘ تو دونوں ملکوں میں بحالی امن کو پہلی ترجیح دیں گے۔ انہوں نے آتے ہی اس سمت میں پیش قدمی بھی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ بطور وزیر اعظم ان کے حلف وفاداری کے موقع پر یہ خبریں شائع ہوئیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ بطور مہمان اس تقریب میں شرکت کریں گے۔ یا تو یہ خبریں غلط تھیں۔ یا پھر نواز شریف کو پہلے ہی قدم پر محسوس کرا دیا گیا کہ جس راستے پر چلنے کا اعلان کر کے‘ انہوں نے عوام کا مینڈیٹ حاصل کیا ہے‘ اس پر چلنا اتنا آسان نہیں۔ نواز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امن کی امیدیں کافی روشن ہونے لگی تھیں۔ آج چند ہی ماہ کے بعد صورتحال بری طرح بدل چکی ہے۔ پاکستان میں انتہاپسندی نقطہ عروج پر ہے۔ تمام علمائے کرام کی مشاورت‘ منشاء اور رضامندی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو آئین نافذ کیا گیا‘ اسے ایک بار پھر متنازعہ بنانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ دہشت گرد طاقتیں‘ پاکستان کے آئین کو مسترد کرتی ہیں۔ جمہوری نظام کی مخالفت میں بھی شدت پیدا ہو رہی ہے۔ عملاً ہم اپنے ملک کے اندر ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں کوئی ہمارا ساتھی نہیں۔ دوست ممالک‘ حکومتی اعلانات پر کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرے گی‘ یقین کرنے کو تیار نہیں۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں‘ طالبان کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگی ہیں اور ہم ایک ایسی انتہا کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ پاکستان کو بڑھتی ہوئی تاریکیوں سے صرف عوام بچا سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ آزادی کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔