ریاست کو مذہب سے الگ کرنے کی بحث تو اپنے اپنے وقت کے ''بقراط‘‘ صرف چند صدیوں سے پیش کر رہے ہیں لیکن میرے آقا سیّدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے زمانوں کی خبر دیتے ہوئے کتنی وضاحت سے مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اس فتنے کی نشاندہی کر دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یاد رکھو اسلام کی چَکی چل چُکی ہے، اب تم (اللہ کی) کتاب کے ساتھ چلو، وہ جہاں بھی لے جائے، یاد رکھو، ایسا وقت آئے گا جب کتاب اور حکومت جدا ہو جائیں گے، اس موقع پر تم کتاب سے جدا نہ ہونا۔ یاد رکھو، تم پر ایسے امیر آئیںگے جو اپنے لیے ایسے فیصلے کریںگے جو وہ تمہارے لیے نہیں کریں گے، اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمہیں قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں گمراہ کر دیں گے‘‘۔ صحابہ نے عرض کیا! ''ایسے میں ہم کیا کریں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ''ویسا ہی کرو جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کیا تھا، انہیں آریوں سے چیر دیا گیا اور لکڑی کی سولی پہ لٹکایا گیا، اللہ کی اطاعت میں جان دینا اس کی نافرمانی سے بہتر ہے‘‘ (مجمع الزوائد، کتاب الخلافہ، حدیث 9153)۔ حکومت سے کتاب کی علیحدگی کا تصور اس سیکولر جمہوری ریاست کا شاخسانہ ہے جو جنگِ عظیم اوّل کے بعد مسلم دنیا کو طاقت کے زور پر پچاس سے زائد قومی ریاستوں میں تقسیم کر کے مستحکم کیا گیا۔ خلافت عثمانیہ اور اس کے نافذ کردہ اسلامی قوانین جنہیں ''مجلہ احکام العدلیہ‘‘ کہتے ہیں، دونوں کا خاتمہ اتا ترک کے ہاتھوں ہوا اور پھر اس کے بعد یہ امت جتنی بھی قومی ریاستوں میں تقسیم ہوئی اس پر سیکولر ڈکٹیٹروں اور مطلق العنان آمروں کا اقتدار ایسی افواج کے ذریعے قائم کیا گیا جن کی تربیت صرف اور صرف مادرِ وطن کے دفاع کے لیے اور اس کے تحفظ کے نظریے کے ساتھ کی جاتی تھی۔ جس امت میں صدیوں سے یہ تصور راسخ تھا کہ جان صرف اور صرف اللہ کی راہ میں دی جاتی ہے اور اس کا اجر بھی صرف اور صرف اللہ ہی کے ہاں سے ملتا ہے، اس کی قومی ریاستوں میں ایسے تصورات مغربی افواج کی طرح راسخ کیے گئے کہ زمین کا دفاع اور پھر اس کے نتیجے میں وکٹوریہ کراس کی صورت میں دنیا میں ہی اجر، نیک نامی، سرفرازی اور شہرت! پوری مسلم تاریخ میں اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کو بے غرض اور جہاد کو خالصتاً اللہ کے ہاں قبولیت کے لیے خالص رکھا گیا تھا۔ اس تصور کو اقبال نے کس خوبصورتی سے بیان کیا ''نہ مالِ غنیمت‘ نہ کشورکشائی‘‘۔
یہی تصور تھا کہ جب ایران فتح ہوا اور دجلہ و فرات کی زرخیز زمینیں قبضے میں آئیں تو کچھ اصحاب نے سیّدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ان زمینوں کو مالِ غنیمت تصور کرتے ہوئے جنگ جیتنے والے غازیوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہ بحث طویل ہوئی تو ایسے میں تاریخ سیّدنا عمرؓ کی ایک دعا کی گواہی دیتی ہے۔ آپ نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! اگر میں سچا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ یہ زمین اللہ کی ملکیت ہے اور ان لوگوں میں تقسیم نہیں ہو سکتی تو انہیں موت دے اور اگر یہ لوگ سچے ہیں تو مجھے موت عطا فرما دے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ تمام اصحاب‘ جو جہاد جیتنے کی سرفرازی میں زمین و جائداد کو غنیمت کے طور پر اپنا انعام سمجھتے تھے‘ سب کے سب انتقال کر گئے۔ لیکن موجودہ سیکولر جمہوری ریاست نے تصورِ آخرت کو دنیا سے نکال کر تمام انعام و اکرام اسی دنیا میں عطا کرنے کا ایسا تصور قائم کیا کہ حکومت، علاقہ، اقتدار اور غلبہ ہی ان افواج کا قبلہ وکعبہ بن گیا۔ اس کے بعد دنیا میں کوئی بھی ملک لے لیں‘ جہاں مسلمان بستے تھے‘ وہاں ان سیکولر افواج نے سیکولر ڈکٹیٹروں کے لیے راہ ہموار کی اور ان کو مسند اقتدار پر بٹھایا۔ مصر میں جمال عبدالناصر، انوارالسادات اور حسنی مبارک، شام میں حافظ الاسد اور بشارالاسد، ایران میں رضا شاہ پہلوی، عراق میں احمد حسن البکر اور صدام حسین، لیبیا میں معمر قذافی، تیونس میں زین العابدین علی، یہ سب وہ تھے جو کتاب کو حکومت سے دور رکھنے کے قائل تھے اور انہوں نے اپنے اقتدار کے دوران کتاب کو درس گاہوں، تفسیروں اور فقہ کے ماہر علما تک محدود کر دیا۔ دوسری قسم ان قبائل پر مشتمل تھی جو اپنے قبیلے کی حکومت چاہتے تھے، اپنی نسل کی بالاتری سے باقی قوم پر اقتدار چاہتے تھے۔ ان میں جزیرہ نمائے عرب کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستیں اور خود آلِ سعود شامل تھے۔ ان افراد اور قبیلوں نے بھی ایک قبیلے اور ایک نسل کی بادشاہتیں قطر، متحدہ عرب امارات، مسقط، کویت، بحرین میں قائم کیں۔ یہاں بھی کتاب کو امورِ مملکت سے دور رکھا گیا۔ ایک دو ممالک میں صرف سزائوں اور تعزیرات کا کچھ حصہ کسی نے نافذکر کے دنیاکو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم نے کتاب کو سیاست اور حکومت کا رہنما بنایا ہوا ہے۔ ایسے تمام سیکولر ڈکٹیٹر میرے ملک پاکستان میں بھی آئے۔۔۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف۔۔۔ان میں ضیاالحق کو لوگ اسلام سے نتھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن وہ تاریخ میں عالمی طاقتوں کا ایک جال تھا جو روس کے خلاف جنگ کے لیے ضروری تھا۔ اگر پرویز مشرف 1977ء میں ا قتدار سنبھالتا تو وہ ایک مسلمان جہادی ہوتا اور اگر ضیاالحق 1999ء میں اقتدار پر قبضہ کرتا تو وہ ایک سیکولر اور جہاد دشمن حکمران ہوتا، دونوں کا کتاب سے دور کا بھی واسط نہ تھا، دونوں علاقائی برتری، زمینی تحفظ اور عالمی برادری میں اپنے مقام اور اس سرزمین کی سرفرازی کے لیے وہ سب کچھ کرتے رہے جو عالمی برادری بہتر سمجھتی تھی، لیکن ہمارے دانشوروں اور میڈیا کا کمال یہ ہے کہ ان تمام ڈکٹیٹروں، مطلق العنان آمروں اور ظالم سربراہوں کو مسلمان ڈکٹیٹر کہا جاتا ہے۔ کوئی ہٹلر، مسولینی اور جنرل فرانکو کو عیسائی ڈکٹیٹر نہیں کہتا۔ کوئی فلپائن کے ظالم اور کرپٹ مارکوس کو رومن کیتھو لک ڈکٹیٹر نہیں پکارتا، کوئی چلّی کے پنوشے کا مذہب نہیں بتاتا، کوئی چین کے چیانگ کائی شیک اور ویت نام کے پال پوٹ کو اس کے مذہب کے نام سے نہیں یاد کرتا۔ دنیا کے ہر ڈکٹیٹر نے‘ خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، اپنے مذہب کی کتاب کو اقتدار سے دور رکھا، یہ سب کے سب سیکولر تھے لیکن کوئی اس بنیاد پر انہیں یا سیکولرازم کے پورے نظریے کو قابل نفرت نہیں بتاتا۔
سیکولرازم کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنے ارد گرد ایسے صاحبانِ علم و دانش پیدا کر لیتا ہے جو پکارتے پھرتے ہیں کہ مذہب تو صرف اخلاقیات بہتر بنانے کا نام ہے، اس کے لیے قوت نافذہ کی کیا ضرورت ہے۔ میرے ملک کی مثال اکثر زور شور سے دی جاتی ہے، کہا جاتا ہے ہم چور ہیں، بددیانت ہیں، ان پڑھ اور جاہل ہیں، لوگوں کے حق غصب کرتے ہیں، فحش مواد دیکھنے میں ہمارا پہلا نمبر ہے، ہم پر اسلام کا قانون کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ پہلے معاشرہ ٹھیک کرو پھر قوانین نافذ کرو۔ یہ منطق صرف اسلام کے قوانین پر کیوں لا گو کی جاتی ہے، دنیا کے کسی اور قانون پر کیوں لاگو نہیں ہوتی؟ ان کی بات مان لی جائے تو پھر دنیا میں سب قوانین اور ریاست کی مشینری ختم کر دی جائے۔ پہلے بددیانتی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے لوگوں کو قائل کیا جائے پھر قانون نافذ کیا جائے، پہلے ڈاکوئوں‘ غنڈوں، لٹیروں کا اخلاق درست کیا جائے پھر تعزیرات پاکستان نافذ کی جائیں۔ پہلے لوگوں کو یہ ترغیب دی جائے کہ فحش مواد دیکھنے سے نفسیاتی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں، آدمی میں ہیجان بڑھتا ہے، وہ جنسی جرائم کا شکار ہوتا ہے اور اس وقت تک تمام فحش مواد پھیلنے دیا جائے، پھر جب لوگ اس بات کے قائل ہو جائیں کہ فحش برائی ہے تو پھر ان تمام سائٹس اور مواد پر پابندی لگا دی جائے۔ جب لوگوں کو ٹریفک کے قوانین یاد ہو جائیں اور وہ اس بات پر راضی ہو جائیں کہ اب اشارہ نہیں توڑنا، تیز رفتاری نہیں کرنی تو پھر ٹریفک کے قانون لاگوکیے جائیں۔ ان کی یہ ساری منطق سیکولر قوانین کے لیے نہیں۔ مغربی سیکولر قوانین کے لیے تو وہ قانون کی حکمرانی کے خوبصورت تصور کی بات کرتے ہیں لیکن جب میرا اللہ کہتا ہے کہ جو کچھ کتاب میں ہے اسے نافذ کرو تو ان کو لوگوں کی تربیت یاد آ جاتی ہے، معاشرہ تیار کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ سچ کہا تھا میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میرے بعد ایسے حاکم آئیںگے جو میری ہدایات پر نہیں چلیں گے اور میری سنت پر کاربند نہیں ہوں گے اور ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل انسانوں کے بدن میں شیطان کے دل ہوںگے‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الامارہ) یہی ہیں وہ لوگ جو کتاب کو حکومت سے الگ کرتے ہیں، سیکولر ڈکٹیٹر یا جمہوری حکمران۔