تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-02-2014

اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے!

امریکہ میں اب کے ایسی سردی پڑی ہے کہ گرم دِماغ امریکیوں کے جذبے بھی سَرد پڑ چلے ہیں۔ اگر آپ کو جذبوں کے سَرد پڑنے کا یقین نہیں آرہا تو ذرا اندازہ لگائیے کہ لوگ آزادی جیسی نعمت کو بھی داؤ پر لگاکر دوبارہ غلامی کو گلے لگا رہے ہیں۔ نیو یارک کی ایک جیل سے کسی قیدی نے بھاگنے کا سوچا اور بھاگ بھی گیا۔ وہ آزادی کے لیے، کھلی فضا میں سانس لینے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ مگر یہ کیا؟ جیل سے نکلتے ہی اُسے اندازہ ہوگیا کہ سارا سُکون، ساری راحت تو جیل میں رہ گئی؟ سَردی اِس قدر تھی کہ اُس قیدی کے لیے چلنا بھی دوبھر ہو گیا۔ ایک پل ضائع کئے بغیر وہ دوبارہ جیل کی حدود میں داخل ہوگیا۔ 
ہم بھی 66 سال سے اِسی کیفیت کے دائرے میں جی رہے ہیں۔ غلامی کی چاردیواری میں ہمیں سُکون ملتا ہے، راحت محسوس ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ غلامی میں کھانا پینا میسر ہے، بوریا بستر دستیاب ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ غلامی کی حدود سے باہر، آزادی کا موسم غیرمعمولی شِدّت کا حامل ہے۔ ہڈیوں میں پیوست ہو جانے والی سَردی یا دِل و دِماغ کو پگھلا دینے والی گرمی سے پُرسکون غلامی بہتر ہے۔ 
اور اِس راحت بخش غلامی کی قیمت؟ 
تھوڑی سی ضمیر فروشی اور ذرا سی بے حِسی۔ اور کیا! 
اب آپ سوچیں گے جب ضمیر ہی نہ رہا تو کیا رہ گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب اور کچھ نہ بچا ہو تو ضمیر کا کیا اچار ڈالیں گے؟ اور یوں بھی آزادی اور غلامی میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا معاملہ درپیش ہو تو غلامی جیت جایا کرتی ہے۔ بعض اقوام آزادی کو بہت اہمیت دیتی ہیں وہ پھر اُسے ہر قیمت پر برقرار رکھتی ہیں، مگر اس کی قیمت دوسری یعنی کمزور اقوام کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اِس زاویے سے دیکھیے تو آزادی بھی غلامی ہی کی ایک شکل ہے۔ آزادی پر سب کچھ لُٹانے کے لیے ہر وقت تیار رہنے والی اقوام بالآخر آزادی کی غلام ہوکر رہ جاتی ہیں! ''مقامِ شُکر‘‘ ہے کہ ہمارے ''رہبرانِ مِلّت‘‘ کو یہ نُکتہ بہت پہلے سُوجھ گیا تھا۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ مکمل آزادی کو گلے لگانے کی صورت میں بہت کچھ چلا جائے گا اِس لیے اُنہوں نے قوم کو مُشکلات سے دوچار نہیں ہونے دیا! 
اپنے ماحول پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے۔ بہت سے لوگ غلط کام بھی بہت سُکون سے کرتے دکھائی دیں گے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر آپ زیادہ حیران ہوں گے تو لوگ آپ کو دیکھ کر حیران ہوں گے۔ بات یہ ہے کہ اُصول، ضمیر، غیرت، احساس ... یہ سب کچھ ایک خاص مقام تک ساتھ دینے والی خصوصیات ہیں۔ بہت سے ''عقل مند‘‘ جب دیکھتے ہیں کہ اِن ''اوصافِ حمیدہ‘‘ کے ساتھ جینا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ اگر اِس پوری مشق کا حاصل دُودھ کا حصول ہے تو پھر نہر کھودنے کی زحمت کیوں گوارا کی جائے۔ ''سیانے‘‘ بھی سمجھاتے ہیں کہ تھوڑی سی سودے بازی کیجیے، دُودھ کی نہر آپ کے پیروں کے نیچے بہنے لگے گی! اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اوّل اوّل تھوڑی سی اُلجھن ہوتی ہے۔ غیرت ویرت اور ضمیر ومیر کو لپیٹ کر ایک طرف رکھنا پڑتا ہے۔ اور جب بے حِسی اور بے ضمیری کو اپنالیا تو دِل میں چُبھنے والے کانٹے پُھول بن کر پُورے وجود کو سہلانے لگتے ہیں! ایسی حالت میں آپ پریشان ہوتے ہیں کہ ضمیر و غیرت کے لیے کوئی الجھن باقی رہتی ہے۔ یعنی ع 
دونوں طرف ہے آگ ''سَراسَر بُجھی‘‘ ہوئی! 
اللہ اُنہیں سلامت رکھے اور ''جزائے خیر‘‘ عطا فرمائے جو اب تک عقل کے تقاضوں کے مطابق کام کرتے آئے ہیں۔ عقل کیا کہتی ہے؟ یہی کہ جس میں طاقت ہو اُس کے سامنے زانوئے احترام تہہ کرنا چاہیے۔ بلکہ موقع اور گنجائش ہو تو کبھی کبھی سجدہ ریز بھی ہو رہنا چاہیے۔ پاکستان قائم ہوا تو ہمارے پالیسی میکرز نے بھی عقل کو گلے لگالیا۔ علامہ اقبالؔ نے عشق کو عقل پر ترجیح دینا تعلیم کیا تھا۔ اُن کی بات غلط نہیں تھی۔ انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے اور پاکستان کو منصۂ شہود پر لانے کی تحریک کے دوران ہم نے عشق ہی کو تو گلے لگایا تھا۔ عشق نے کام کر دکھایا۔ ملک بن گیا تو عشق کا کام بھی ختم ہوگیا۔ اِس کے بعد عقل کی منزل تھی۔ مُلک چلانے والوں نے عالمگیر زمینی حقائق پر نظر ڈالی اور عشق کے بطن سے ہویدا ہونے والی آزادی کے پہلو بہ پہلو عقل کی غلامی اختیار کی! 
1950ء کے عشرے میں ہم نے طے کرلیا کہ آزادی پر غلامی کو ترجیح دینا ہے۔ اشتراکیت کو اسلام کے لیے خطرہ گردانتے ہوئے ہم نے مذہب کے علم بردار مغرب کو گلے لگالیا۔ مغرب کا سب سے بڑا مظہر امریکہ تھا۔ فطری سی بات تھی کہ امریکہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا تھا، سو کیا۔ 
آزادی پر غلامی کو ترجیح دینے کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے وہ نکلا۔ کوئلے کی دلالی میں ہاتھ پیر ہی نہیں، مُنہ بھی کالا ہوا کرتا ہے۔ اور ہوا۔ مگر اِس کالک کو بھی یارانِ وطن نے ہنس ہنس کر برداشت کیا کیونکہ کوئلے کے ڈھیر میں کہیں کہیں ڈالر کے چمکتے پتھر بھی تھے! اور ویسے بھی کوئلے کی دلالی میں اگر کالک آئی بھی تو عوام کے حصے میں آئی۔ پالیسیاں بنانے والوں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں اور سَر کڑاہی میں! 
ہم نے آزادی آگ اور خون کا دریا پار کرکے حاصل کی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ آزادی کے حصول ہی کے لیے نہیں بلکہ اُسے برقرار رکھنے کے لیے آگ اور خون کے دریا عبور کرنے پڑتے ہیں۔ گویا بہ قولِ جگرؔ مُراد آبادی ع 
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے 
جنہیں سوچنے کی توفیق ملی تھی اُنہوں نے سوچا کہ اب ایسا بھی کیا ہے کہ آزادی کی قیمت ادا کرتے کرتے بندگانِ خدا خود ہی بازار سے ناپید ہوجائیں۔ یعنی ابتدائی مرحلے ہی میں طے کرلیا گیا کہ آگ کے دریا کو ''بائی پاس‘‘ کرتے ہوئے خُشکی کے راستے آگے بڑھنا ہے! آزادی بہت بڑی نعمت سہی مگر جی کا جنجال کون پالے اور قومی غیرت وغیرہ کے بکھیڑے میں کون پڑے؟ ؎ 
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے؟ 
ذوقِ نَظّارۂ جمال کہاں! 
گویا پہلے مرحلے میں طے کرلیا گیا کہ قوم کو اُلجھن میں نہیں ڈالنا اور آسانی تلاش کرنی ہے۔ سوچنے والوں نے شاید یہ سوچا ہو کہ ہر قوم زیادہ سے زیادہ سختی زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے کے لیے برداشت کرتی ہے تو پھر ریڈی میڈ آسانیاں حاصل کرنے میں کیا ہرج ہے؟ اب اگر اِس مقصد کے حصول کی چوکھٹ پر آزادی قربان ہوتی ہے تو ہو جائے۔ آگ اور خون کے دریا سے گزر کر آزادی کی قیمت تو ہم ادا کر ہی چکے تھے۔ اب مرحلہ تھا آزادی کو کیش کرانے کا! اِس ماحول میں یاروں نے آزادی کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا کہ کبھی ضرورت پڑی تو بہ رُوئے کار بھی لائیں گے۔ پھر تو یہ عالم تھا کہ جس طرف سے مال آئے اُسی طرف مُنہ رکھنا ہے! گویا بہ قولِ فیضؔ ع 
جو آئے، آئے کہ ہم دِل کُشادہ رکھتے ہیں! 
اب حالت یہ ہے کہ کوئی آزادی کی بات کرتا ہے تو ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہم کیا اور ہماری آزادی کیا۔ ع 
دِل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اَچّھا ہے! 
قوم بھی عقل مند نکلی ہے۔ آزادی کی غلامی اختیار کرنے پر اِس نے آزادی کو اپنے ''فکر و نظر‘‘ کا اسیر بنانے کو ترجیح دی ہے! ایک زمانہ تھا جب دِل میں کچھ چُبھن سی رہا کرتی تھی۔اب خیر سے یہ دَھڑکا بھی نہیں۔ راوی چَین ہی چَین لکھتا ہے۔اسیری یوں راس آئی ہے کہ اب رہائی کا تصور دِلوں کو دہلا دیتا ہے۔ ؎ 
اِتنے مانوس صَیّاد سے ہوگئے 
اب رہائی ملے گی تو مَر جائیں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved