تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-02-2014

یہ مصنوعی سرحدیں ، یہ پاسپورٹ

پہلے میں آپ کو وہ حالات بتاتاہوں ، جن میں اُس سے میری ملاقات ہوئی تھی ۔ 
خوراک کا آخری نوالہ اور پانی کا آخری گھونٹ میں نگل چکا تھا۔ کم و بیش سترہ دفعہ میں نے خود سے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ کوہ پیمائی نہ کروں گا۔پاک چین سرحد پر واقع دنیا کی یہ دوسری بلند ترین چوٹی موسمِ سرما میں کبھی فتح نہ ہوئی تھی ۔یہی نہیں ، اس کا رخ کرنے والے ہر چار میں سے ایک شہسوارکو موت ہی نصیب ہوئی تھی ۔ یہ سب ہمیں معلوم تھا‘ پھر بھی مہم کو مزید دشوار اور سنسنی خیز بنانے کے لیے ہم نے پاکستان کی بجائے چینی سرزمین سے آغاز کیا تھا۔ دو ہفتے کے بعد صورتِ حال اب یہ تھی کہ میرے دونوں ساتھی مر چکے تھے ۔ میں تنہا تھااور کمپس (Compass)ٹوٹ چکی تھی ۔ گو کہ بلندیوں سے میں اتر آیا تھا لیکن سمت کا احساس نہ ہونے کے باعث دوگنا وقت میں بھی آبادی کی گرد کو چھو نہ سکا تھا۔ ایک لمحے کے لیے خود کو میری جگہ رکھیے اور بتائیے کہ ایسے ویرانے میں ایک ٹوٹا پھوٹا کمرہ اور اس سے جھانکتی ہوئی بڑھیا کو دیکھ کر ذہن میں پہلا خیال کیا آسکتاہے؟ یہی کہ پاگل پن کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی ۔
ایک لمحے کو جھلک دکھلا کے وہ خزاں رسیدہ چہرہ غائب ہو چکا تھا۔ میں نیم جاں تھا اور اس بھکاری کی مانند ، جسے انتخاب (Choose) کرنے کا اختیار نہ ہو۔ تو میں اندر جا گھسااور وہاں عالم ہی کچھ اور تھا۔ بوسیدہ اور تنگ عمارت محل میں ڈھل چکی تھی ۔ روشنیاں، انواع و اقسام کے کھانے ، خوشبو۔ پیٹ بھر کے میں نے سر اٹھایا تو وہ جون بدل رہی تھی ۔پہلے تو کھال ہڈیوں پہ منڈھی تھی ، اب گوشت چڑھنے لگا۔پھر جھریاں تمام ہوئیں ۔ بال لمبے اور سیّاہ ہو گئے۔ بڑھاپا شباب بن گیا۔ 
میں کانپ اٹھا۔ مجھے خوفزدہ دیکھ کر وہ ہنسی اور یہ کہا ''یہ تو کچھ نہیں، میں زمین وآسمان بدل سکتی ہوں۔ میں ہائیڈروجن کے ذرات کا ڈھیر لگاتی ہوں اور آگ بھڑکا کے سورج جنتی ہوں ۔ پھر ستارے کے باطن سے توانائی کی اوّلین لہر خارج کرتی ہوں ۔ اس کی فضائوں کو صاف کرتی ہوں ۔ کششِ ثقل کو جنم دیتی اور چٹانوں کو جوڑ کر سیارے بناتی ہوں ۔ چالیس ہزار برس سے میں انسانیت کا ہاتھ تھامے اسے بلندی کی راہ دکھا رہی ہوں ۔ میں تعمیر ہوں لیکن تخریب بھی ۔تخلیق کرتی اور تباہ کر ڈالتی ہوں‘‘۔ بڑے غرور سے اس نے کہا ''میں....میں سائنس ہوں‘‘۔ 
پھر اس نے میرا ذہن ٹٹولا اور سوال لب پہ آنے سے پہلے یہ کہا: مذہب سے میرا کوئی جھگڑا نہیں ۔ میں وہ طریقہ کار (Procedure) ہوں ، جس میں کائنات تخلیق کی گئی اور مذہب وہ طرزِ حیات، جو خداکا اپنے بندوں سے مطالبہ ہے ۔ اس نے مجھے کہا کہ لاکھوں مخلوقات میں سے فقط تمہاری نسل کو ذہین کیوں بنایا گیا؟میں چپ رہا۔ بولی: کائنات میں بکھری علامات سے خدا کی شناخت اور اس کی اطاعت کے لیے ۔ اس نے یہ کہا کہ دنیاوی عروج بھی انہی کو ملے گا، جو عقل کی راہ چلیں گے ۔ جو تحقیق اور ریاضت کریں گے ۔
میں نے اپنی قوم کی پستی کا ذکر کیا۔ زور سے ہنسی ۔ کہنے لگی کہ ماضی میں زندہ ہو تم ، ماضی میں۔ تمہارے دانشور وقت کا پہیہ الٹا گھمانا چاہتے ہیں ۔ خود کو سنوارنے کی بجائے ، تم ایک صدی قبل جنم لینے والی ریاستوں کو انسانیت کے خلاف سازش قرار دیتے ہو ۔ ادھر مشرق کے کتنے ہی ملک محض نصف صدی میں ترقی اور خوشحالی کو جا پہنچے ۔ تم اس وقت اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کی سوچ رہے ہو، جب تمہاری بقا ہی خطرے میں ہے ۔ آئین ملک چلانے کا ضابطہ ہے ۔ تم اس کا موازنہ الہامی کتابوں سے کرتے ہو ؛حالانکہ وہ تو انسانوں کی ہدایت کا فرمان ہیں ۔ سود ختم کرنے کی بجائے تم بینک بند کرنا چاہتے ہو۔ نوٹ چھاپنے کی حد مقرر کرنے کی بجائے، تم کاغذی کرنسی ختم کرکے دھاتیں استعمال کرنا چاہتے ہو ۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ ایک دن تم اینٹوں کے مکان ، گاڑی اور جہاز کو بھی فریب قرار دے کر پتھر کے دور میں لوٹ جائو گے ۔ 
اپنی تذلیل پہ میرا دل بھر آیا۔ مجھے رنجیدہ دیکھ کر اس نے یہ کہا : یاد کرو وہ وقت، جب تمہارے دشمن نے اجاڑنے والی مکروہ چیزیں ایجاد کی تھیں ۔ میرے در پہ تم گڑگڑاتے رہے اور میں نے تمہارا دامن بھر دیا۔ مہلت باقی ہے اور ذہانت بھی۔اسلحے کے بل پر تمہیں زیر نہیں کیا جا سکتالیکن علم کے میدان میں پسپائی بھی کم خطرناک نہیں ۔ اپنی قوم سے کہنا کہ جو گزرے زمانوں میں جینا چاہے ، حالات کا جبر اسے پیس ڈالتا ہے ۔ 
پھر وہ رونے لگی اور یہ کہا ''زمانہ اپنے اختتام کو لپک رہا ہے اور ظلم کی ایک تاریک رات مسلّط ہونے کو ہے۔ بہت جلددجّال نام کا ایک آدمی مجھے غلام بنائے گا۔ میرے ذریعے وہ بارش برسائے گا اور مُردوں کو زندہ کرے گا۔موسموں پہ اس کا اختیار ہوگا۔ اپنے آگے سر جھکانے والوں کا رزق وہ بڑھا دے گا اور مزاحمت کرنے والوں کو قحط کا سامنا ہوگا۔وہ مصنوعی جنّت اور جہنم سے لیس ہوگا۔ پہلے وہ خود کو نبی اور پھر خدا کہلوائے گا۔ آخر خدا کا ایک بندہ اسے شکست دے گا۔ اگر یہ سب تمہاری زندگی میں ہو تو یاد رکھنا کہ وہ جو کچھ کرے گا، ٹیکنالوجی کے بل پہ کرے گا۔ یاد رکھنا، وہ کچھ نہیں کرے گا، سب کچھ میں کروں گی‘‘۔ 
اس واقعے کو کئی ماہ بیت چکے ۔ میں زندہ سلامت اپنے وطن کو لوٹ آیا ہوں۔ میں اپنی قوم کو آنے والے دور کی خطرناکیوں سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں لیکن دانشور سنی ان سنی کر دیتے ہیں ۔ وہ سر ہلا کے مشکوک لہجے میں کہتے ہیں ''یہ مصنوعی سرحدیں ، یہ پاسپورٹ ....یہ سب تو ایک صدی کی بات ہے۔ زمین خدا کی ہے اور ہم اس کے بندے....‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved