حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کی کارکردگی پر داددینا پڑتی ہے کہ دونوں نے میڈیا سے دہشت گردی اور خونریزی ختم کرنے میں پیش رفت شروع کر دی ہے۔ کل ان کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا‘ اس میں دہشت گردی کے بجائے ''امن کے منافی سرگرمیاں‘‘ اور ''دفاع کا حق‘‘ جیسے ملائم الفاظ استعمال کئے گئے۔ ہمارے سیاسی اور قانونی شعبوں پر اس وقت دو ہی قوتیں چھائی ہوئی ہیں۔ ایک حکومت اور دوسرے طالبان۔ باقی تمام مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی کارروائیاں پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ پاکستانی عوام اور حکومت کو دوسرا کوئی مسئلہ ہی درپیش نہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے منتخب اداروں میں تو عوامی اور حکومتی مسائل زیربحث آ جاتے ہیں۔ ان پر غوروفکر کیا جاتا ہے۔ مسائل کے حل ڈھونڈ کر‘ قوانین میں ترامیم کی جاتی ہیں۔ نئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں میں خرابیاں دور کرنے کے لئے مختلف حل ڈھونڈنے کی کوشش ہوتی ہے اور عوام کو پتہ چلتا ہے کہ وہ جن مسائل سے دوچار ہیں‘ ان کے حکمران افراد اور ادارے‘ ان سے باخبر بھی ہیں اور فکرمند بھی اور مسلسل کوشش میںہیں کہ مسائل حل کرنے کے لئے مناسب پالیسیاں مرتب کر کے‘ نافذ کی جائیں۔ لیکن پاکستان کے منتخب اداروں کی کارروائیاں دیکھ کر کسی کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ اس ملک میں کوئی ایسا مسئلہ بھی موجود ہے‘ جس پر ہمارے نمائندے فکرمند ہوں۔ ان کے نزدیک ''سب اچھا‘‘ ہے۔ جس دہشت گردی کا مسئلہ حل طلب رہ گیا تھا۔ اس کے لئے حکومت اور طالبان نے اپنی اپنی مذاکراتی کمیٹیاں بنائیں۔ ان کمیٹیوں نے رسمی تبادلہ خیال کیا۔ اتنے دن گزرجانے کے باوجود‘ مذاکرات کا ایجنڈا تک تیار نہیں ہو سکا۔
مایوسی کی ضرورت نہیں۔ بنیادی مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ اب دہشت گردی اور خونریزی کی سرخیاں پڑھ کرآپ خوفزدہ نہیں ہوا کریں گے۔اب شہروں میں جہاں بھی بم دھماکے ہوں گے اور ان میں جو لوگ مریں گے یا اپاہج ہوں گے‘ انہیںدہشت گردی کا شکار نہیں کہا جائے گا۔ وہ صرف امن کے منافی سرگرمیوں کے متاثرین کہلائیں گے۔ طالبان کے جو ''سفیر‘‘ پرامن شہریوں کے اجتماعات میں گھس کے ان کو بموں سے اڑائیں گے یا ریموٹ کنٹرول سے دھماکے کیا کریں گے‘ وہ صرف ''امن کے منافی سرگرمیوں‘‘ کے مرتکب ہوا کریں گے۔ مذاکراتی ٹیموں نے کتنے بڑے قومی المیوں کا فوری حل تلاش کر کے ‘ ہماری زندگی آسان کر دی ہے۔ مجھ جیسے ''اسلام دشمنوں‘‘ نے خواہ مخواہ شرانگیز تبصرے کرتے ہوئے‘ یہ گمراہی پھیلانے کی کوشش کی کہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے فریق‘ مذاکرات کے ذریعے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے‘ جب تک میدان جنگ کی صورتحال کسی ایک کے حق میں نہیں ہو جاتی اور فریقین اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر لیتے کہ ان میں سے ایک کو‘ اپنے رویے میں نرمی پیدا کر کے‘ جنگ ختم کرنے کا راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔ جب تک دونوں فریقوں کی یہ امید قائم رہے گی کہ وہ حریف کو پسپا کر کے‘ اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر سکتا ہے‘ تب تک لڑائی رکا نہیں کرتی۔ جنگ کے ہمیشہ دو نتیجے ہوتے ہیں۔ یا ایک فریق‘ دوسرے کو بے بس کر کے‘ اس پر اپنی مرضی کا حل مسلط کر سکتا ہے یا دوران جنگ کسی مرحلے پر ایک فریق اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ جنگ میں کامیابی حاصل کرنا‘ اس کے اختیار میں نہیں رہ گیا اور اگر اس نے جنگ جاری رکھی‘ تو مکمل شکست سے دوچار ہونا پڑے گا‘
تووہ بات چیت کے ذریعے کسی ایسے سمجھوتے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے‘ جس میں وہ مکمل شکست سے بچ کر قدرے بہتر شرائط پرجنگ سے نجات حاصل کر لے۔ مگر پاکستان اور طالبان کے معاملے میں دور دور تک ایسی صورتحال دکھائی نہیں دے رہی‘ جس میں کوئی ایک فریق بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ اس کے لئے سمجھوتہ کرنا ‘ جنگ لڑنے سے بہتر ہو گا۔ یہاں تو دونوں فریق ہی اپنی اپنی جگہ یقین رکھتے ہیں کہ فتح اسی کی ہو گی۔ حکومت پاکستان کا خیال ہے کہ وہ جب چاہے گی اپنی برترفوجی قوت کا استعمال کر کے‘ طالبان کو بے بس کر دے گی اور طالبان کی سوچ یہ ہے کہ وہ حکومتی ڈھانچے کو جا بجا ضربیں لگا کر‘ کمزور سے کمزور تر کر تے چلے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اس کے لئے‘ اپنے آپ کو بچانا مشکل ہو جائے گا اور وہ آسانی سے قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے‘ پورے ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیں گے۔ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ فتح پر کامل یقین رکھنے والے دو فریق‘ مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ ایسا صرف ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ دونوں فریقوں کو یقین ہو کہ فتح کسی کے حصے میں نہیں آئے گی۔ جنگ کی صورت میں دونوں تباہ ہو جائیں گے‘ بقائے باہمی کی ضرورت انہیں بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر مجبور کر دے گی۔ یہ تجربہ امریکہ اور سوویت یونین کے زمانے میں کامیابی سے کیا گیا۔ جب کیوبا میں سوویت میزائلوں کی تنصیب کے سوال پر دونوں طاقتیں جنگ کے نزدیک پہنچ گئیں‘ سوویت یونین اور امریکہ دونوں نے سمجھ لیا کہ جنگ کی صورت میں ان کی مکمل تباہی یقینی ہے۔ چنانچہ دونوں نے ایک دوسرے کو جنگ کی صورتحال سے نکلنے کے لئے قابل قبول راستے فراہم کئے اور جنگ سے بچ گئے۔ لیکن ہم ایسی صورتحال میں نہیں ہیں۔ ابھی تک حکومت اور طالبان اس خیال میں ہیں کہ ان میں سے ایک کی فتح یقینی ہے۔ حقیقت یہ نہیں۔ طالبان اور پاکستان کے درمیان جو جنگ چل رہی ہے‘ اس میں کوئی بھی فتح یاب نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کی ریاستی طاقت‘ روایتی جنگ میں ہر اعتبار سے طالبان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ طالبان اپنے طریقہ جنگ پر‘ یقین رکھتے ہیں کہ وہ حکومت کو بے دست و پا کر کے‘ کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ دونوں اس حقیقت کو نہیں سمجھ پا رہے کہ طالبان کامیابی کی طرف بڑھتے نظر آئے‘ تو ارد گرد کی تمام قوتیں‘ انہیں کچل دینے پر تل جائیں گی۔ کیونکہ وہ اپنی تباہ کاری کی طاقت کا جو غیرروایتی استعمال کرتے ہیں‘ اسے کوئی برداشت نہیں کرے گا۔ دہشت گرد‘ جو کسی عالمی قاعدے اور ضابطے کے پابند نہیں اور بین الاقوامی اصولوں اور روایات کو خاطر میں نہیں لاتے‘ انہیں ایک ایٹمی ملک پر قبضہ کرنے کا موقع کون دے گا؟ اور حکومت پاکستان اگر متذبذب رہ کر ‘ طالبان سے مقابلہ کرنے کی راہ پر گامزان رہے گی‘ تواسے طویل خانہ جنگی کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ اسلحہ خانے ناکارہ ہو جائیں گے اور اپنے ہی شہروں اور بستیوں میں پھیلے ہوئے طالبان کو کچلنے کے لئے‘ ایٹم بم استعمال نہیں کئے جا سکیں گے۔ ایسی صورتحال میں وہی ہو گا‘ جس کا میں انتباہ کرتا رہتا ہوں۔ وہ ہے لامتناہی خانہ جنگی۔برسرپیکار دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی اتنے بڑے ملک میں لا اینڈ آرڈر قائم نہیں کر سکے گا۔ برسرجنگ دونوں فریقوں یعنی حکومت اور طالبان کی قوت محدود ہے۔ باقاعدہ فوج کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں اور طالبان صرف ہزاروں میں ہیں۔ مدرسوں کی افرادی قوت انہیں دستیاب ہو جائے‘ تو یہ بھی لاکھوں میں ہو جائیں گے۔ یہ دونوں آپس میں لڑتے لڑتے‘ ایک دوسرے کونقصان پہنچاتے رہیں گے اور بدامنی سے تنگ آئے ہوئے کروڑوں عوام مجبور ہو کراپنی قسمت کی لگامیں اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ بدنظمی کا دور کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو؟ آخر کار ختم ہوتا ہے اور بدنظمی کے اندر آہستہ آہستہ نظم پنپنے لگتا ہے اور ایک دن غالب آ جاتا ہے۔ حکمرانوں کی فوجی طاقت اور طالبان کی تخریب اور تباہ کاری کی صلاحیت‘ دونوں ہی 18کروڑ عوام پر مسلط ہونے کے قابل نہیں ہیں ۔ پاکستان کے حکمرانوں نے کرپشن اور ظلم پر مبنی نظام کوتحفظ دینے کے لئے‘ ہمیں جس مقام تک پہنچا دیا ہے‘ وہاں سے نکلنا آسان نہیں۔قیمت بہرطور چکانا پڑے گی۔ عوام کے پاس کچھ چھوڑا ہی نہیں گیا۔ سب کچھ حکمرانوں اور ان کے چیلے چانٹوں کے قبضے میں ہے۔ یہ قبضہ برقرار رکھنے کی طاقت پر‘ طالبان ضربیں لگاتے رہیں گے۔اسی صورتحال سے بچنے کے لئے‘ حکمران طاقتوں نے مذاکرات کا جتن کیا ہے۔ مگر ان کی اپنی نظریں وسائل اور اقتدار پر ہیں۔ انہیں حکمرانوں کی کمزوریوں کا پتہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان میں طویل گوریلا جنگ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہ گئی۔ مذاکراتی کمیٹیاں خاطر جمع رکھیں۔ وہ حقائق کے بدنما چہرے پر الفاظ کی چلمنیں ڈال کر کام نہیں چلا سکیں گی۔