سعودی عرب کے71سالہ ولی عہد ، نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود انتہائی اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر ہیں۔ وہ یہاں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے ہیں۔ اُن کے وفد میں معیشت اور منصوبہ بندی کے وزیر ڈاکٹر محمد بن سلیمان الجسر، صنعت و تجارت کے وزیر ڈاکٹر توفیق بن فوزان الربیعہ، وزیر اطلاعات و ثقافت ڈاکٹر عبدالعزیز محی الدین بن خوجہ اور امور خارجہ کے وزیر مملکت ڈاکٹر نظار بن عبید مدنی بھی شامل ہیں۔ شہزادہ سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے کے بعد اُن کا یہ پہلا دورۂ پاکستان ہے۔ اس سے پہلے وہ ریاض کے گورنر کے طور پر 1998ء میں یہاں آئے تھے۔شہزادہ موصوف کو 8جون 2012ء کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا ، یہ منصب اُن کے بھائی نائف کے انتقال کے بعد خالی ہوا تھا۔سعودی شہزادے کے ہمراہیوں میں ممتاز تاجر اور صنعت کار بھی شامل ہیں ، توقع کی جا رہی ہے کہ اس دورے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور اقتصادی رشتوں میں نئی وسعت اور گہرائی پیدا ہو گی۔ شہزادہ سلمان کو انتظامی اور سفارتی امور کا وسیع تجربہ حاصل ہے اور وہ اپنے فہم و فراست کی وجہ سے شاہی خانوادے میں انتہائی ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ ان کے والد (اور موجودہ مملکت سعودیہ کے بانی) سلطان عبدالعزیز نے انہیں 1954ء میں اس وقت ریاض کا میئر مقرر کیا تھا جب اُن کی عمر صرف19سال تھی۔ 1963ء میں وہ ریاض کے گورنر بنائے گئے اور مسلسل 48سال تک اپنے فرائض بجا لاتے رہے۔ دو سال پہلے انہیں اپنے بھائی شہزادہ سلطان کی جگہ وزیر دفاع مقرر کیا گیا۔ شہزادہ سلطان بھی ولی عہد تھے لیکن انتقال کر گئے۔ اُن کی جگہ شہزادہ نائف کا تقرر ہوا، لیکن وہ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ یوں شاہ عبداللہ کے عہد میں، اُن کے دو ولی عہد اس دنیا سے رخصت ہوئے تو پھر شہزادہ سلمان کا تقرر عمل میں آیا۔ اُن کی گورنری کے دوران ریاض نے ایک جدید ترین شہر کا روپ دھارا۔
شاہ عبداللہ کی عمر اس وقت90سال ہے اور اُن کی صحت کے بارے میں مختلف خبریں گردش میں رہتی ہیں۔ ایک شاہی فرمان کے ذریعے امور مملکت ولی عہد سنبھال چکے ہیں اور وہ سعودی روایات کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان سے قریبی تعلق سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم نکتہ رہا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک، ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مثالی رہے ہیں، کسی دل میں کبھی غبار آیا بھی تو وہ وقتی ثابت ہوا ، اس سے کوئی جوہری فرق واقع نہیں ہوا۔ یہ بات بلاخوف ِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ چین کی طرح سعودی عرب بھی پاکستان کا ایک ایسا دوست ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں ساتھ نبھایا اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا۔ سعودی عرب سے تعلق میں روحانی حوالہ بھی شامل ہے کہ مکہ اور مدینہ اس مملکت کے شہر ہیں۔ رسول اللہﷺ کے شب و روز یہیں بسر ہوئے اور اِن شہروں کی خاک اسلامیان ِ عالم کی آنکھ کا سرمہ ہے۔ سعودی بادشاہ حرمین شریفین کے خادم کے طور پر پوری اسلامی دنیا میں انتہائی منفرد مقام کے حامل ہیں اور مسلمان عوام کے دلوں میں ان کے لیے عقیدت اور محبت کے جو جذبات موجزن ہیں‘ ان کو ماپا یا تولا ہی نہیں جا سکتا۔
سعودی عرب اور چین کے تذکرے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان کا کوئی اور دوست ہی نہیں، یا کسی دوسرے ملک نے ہمیں محبت یاعزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں امریکہ کا کردار بھی تاریخ کا حصہ ہے، شکایات اور الزامات سے قطع نظر، اس تعلق نے ہمیں پورے قد سے کھڑا ہونے میں مدد دی ہے۔ ترکی، ایران، انڈونیشیا، لیبیا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، کویت، اردن، ملائیشیا اور کئی دوسرے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان کو قوت فراہم کی اور پاکستان اُن کی قوت بنا رہا، لیکن اس تفصیل میں جانے کا محل ہے نہ ضرورت ، مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ چین اور سعودی عرب کی ہمسری کا دعویٰ کرنا آسان نہیں ہے۔
کئی واقعات زبان زد عام ہیں، لیکن کئی تفصیلات ایسی بھی ہیں جو ابھی تک دِلوں سے زبانوں تک نہیں آئیں۔ پاکستان کی معاشی اور دفاعی ضروریات کو سعودی عرب نے جس طرح سمجھا اور ان کے حوالے سے جس طرح تعاون کیا ہے، وہ کسی دوسرے مسلمان ملک کے حصے میں نہیں آیا۔ آج بھی لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کماتے اور ہمارے زرمبادلہ کے کھاتوں کو بھرتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کو نفسیاتی طور پر سہارا دینے کے لیے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ شاہ فیصل نے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کا ہاتھ تھاما اور بنگلہ دیش سے تعلق استوار کرنے میں مدد دی، اس نے ہمیں بحیثیت قوم کئی الجھنوں سے نکالا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور ان کے سیاسی مخالفین میں مصالحت کی سعودی کوشش بھی ہماری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔ یہ بیل اگرچہ منڈھے نہ چڑھی، لیکن سعودی تعلق کی نئی جہتیں تو چھوڑ گئی۔ پاکستان کو بھارت کے ایٹمی دھماکے کا چیلنج درپیش ہوا تو اس کا خزانہ خالی تھا۔ جوابی دھماکے کی صورت میں عالمی طاقتوں کی طرف سے معاشی ناکہ بندی کے خدشے کے سنپولیے رینگ رہے تھے۔ اگر سعودی عرب اس وقت تیل کی دوستانہ فراہمی کا یقین نہ دلاتا تو ایٹمی دھماکہ کرنا (شاید) ممکن نہ رہتا یا یہ کہیے کہ اس کے منفی اثرات کو سمیٹنا محال ہو جاتا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کے چنگل سے رہائی دلانا بھی سعودی کوششوں ہی کے ذریعے ممکن ہو سکا۔ نواز شریف اور اُن کے اہل خانہ نے کئی سال سعودی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا اور پاکستانی سیاست کے ایک مکروہ باب کی تلخی کم ہو گئی۔
سعودی سیاسی نظام پاکستان کے نظام سے اسی طرح مختلف ہے جس طرح چین کا۔ وہاں بادشاہت ہے تو یہاں یک جماعتی حکومت۔ پاکستانی دستور برصغیر کی تاریخ میں اپنی جڑیں رکھتا ہے، پاکستان میں مخصوص مفادات کے ایسے ''کارندے‘‘ موجود ہیں جو سعودی عرب پر بے جا تنقید سے نہیں چوکتے۔ ہمارے ہاں جاری فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ڈانڈے بھی اس سے ملا گزرتے ہیں، لیکن اہل ِخبر جانتے ہیں کہ سعودی حکومت کو اس طرح کی کسی کارروائی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کہیں بھی چھپ کر کسی کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں، دونوں ملکوں کے دفاعی اداروں کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے ان کا پیچھا کرنا چاہیے۔ یہ بھی سننے میں آتا رہا کہ سعودی حکام، شام کے حوالے سے پاکستان کو بہت پُرجوش دیکھنا چاہتے تھے، لیکن پاکستان اپنے ہاتھ جلانے پر تیار نہیں ہوا۔ یہ بہرحال قصہ ٔ ماضی ہے، امید کی جانی چاہیے کہ یہ دونوں پرانے دوست ایک نئے جذبے کے ساتھ قدم بڑھائیں گے، پاکستان کو معاشی اور سعودی عرب کو دفاعی شعبے میں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی سے زرمبادلہ کا دبائو کم ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں ملک مقامی کرنسی میں تجارت کو فروغ دینے کا کوئی لائحہ عمل بنا سکیں تو اس سے بھی ایک نئی دنیا تعمیر ہو سکتی ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کے خیر مقدم کے لیے ہر پاکستانی بے تاب ہے!!!
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)