تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     16-02-2014

جزیہ ؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں '' دوبارہ ‘‘ اسلام نافذ کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔متذکرہ تیاریوں میں تیزی اس وقت آئی جب وزیر اعظم میاں محمدنوازشریف نے قومی اسمبلی میں طالبان سے مذاکرات کرنے کے لئے کمیٹی کا اعلان کیا۔ تیزیوں اورطراریوں کو ٹاک شوز نے کچھ زیادہ ہی جلابخش دی ہے۔ان ٹاک شوز میں ایسے ،ایسے فاتحین جلوہ گر ہیں جو بغیر کوئی حملہ کئے سومنات فتح کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ ایک عرصہ سے جب سے پاکستان میں جدید الیکٹرانک میڈیا نے ترقی کی ہے تب سے دہشت گردوں اورقدامت پسندوں نے بھی اس میں سے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کررکھا ہے۔ سچ کہیںتو یہ حصہ کم اور''بھتہ ‘‘ زیادہ لگتا ہے۔اسے کچھ بھی نام دیں لیکن جدید کارپوریٹ الیکٹرانک میڈیا میں طالبان کی ''مارکیٹنگ‘‘ حصہ بقدر جُثّہ نہیں‘ اس سے بہت زیادہ ہورہی ہے۔
ذاتی طور پر میں دہشت گردی اورطالبانائزیشن کو جنرل محمد ضیاالحق کے فوجی انقلاب کی پیداوار سمجھتا ہوں۔یہ وہ فصل ہے جو ریاست اوراس وقت کی حکومت نے امریکہ کی آشیر باد کے ساتھ ارض پاک میں بیجی تھی۔ان فصلوں پر ایک مدت تک امریکی ڈالروں کی برساتیں ہوتی رہیں۔تب تک امریکہ اورپاکستان ایک دوسرے کے اتحادی بن کر سوویت یونین کے خلاف لڑرہے تھے۔سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد خطے میں امریکہ کی دلچسپی نہ رہی اوراس نے اپنی بھاری بھرکم انوسٹ منٹ بند کردی جس سے یہاں شدید معاشی ،تہذیبی اورمعاشرتی بگاڑ پیدا ہوا۔ نائن الیون کو ہم اس گھنائونی فلم کا ''پارٹ ٹو ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ہم نے ہاف ٹائم کے بعد بھی وہی غلطی کی جو پہلے کی تھی۔ ہاف ٹائم کے بعد بھی ہمارا ریاستی کردار ڈالر اینٹھنا ہی رہا۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی آپ بیتی ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ ڈالروں کے حصول کے لئے ان کی حکومت نے امریکہ کو سینکڑوں مطلوب افرا دفراہم کئے۔ جنرل مشرف کے دور میں ڈالر کی قیمت مستحکم رہنے کے پیچھے بھی ان کی معاشی سے زیادہ امریکہ نواز پالیسیوں کاہاتھ رہا۔
جنرل مشرف کے فوجی دور اورپیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کے پانچ سالوں میں ہماری جملہ حکومتیںڈرون حملوں کا'' شدید نوٹس‘‘ لیتی رہیں۔ اس عرصہ میںجونہی ڈرون حملہ ہوتا ،ہمارے فوجی اورجمہوری صدر ، وزیر اعظم اوروزیر داخلہ سمیت متعلقہ خواتین وحضرات امریکہ سے ''شدید احتجاج‘‘ کرتے یااسے خط لکھتے۔ جنرل مشرف صاحب کی فوجی حکومت کے بارے میں تو یہ انکشاف بھی ہوچکا کہ ڈرون ان کی اجازت بلکہ باہمی رضا مندی سے ہوتے رہے۔اس ضمن میںایک اعلیٰ فوجی افسر کا انٹرویو بھی (یوٹیوب پر) موجود ہے جس میں بیان کیاگیا کہ ڈرون حملوں میں امریکہ نے کتنے دہشت گردوں کو ٹارگٹ کیا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیاکہ ڈرون حملوں میں عام افراد بھی جاں بحق ہوئے ۔ ڈرون حملوں کی صورت میں امریکہ جیسی سفاک سپر پاور کے سامنے پاکستان کی طرف سے ''شدید نوٹس‘‘ لینا اور صرف احتجاج کرنا سمجھ آتا ہے‘ لیکن کراچی بم دھماکے میں 13 پولیس کمانڈوز کی شہادت اور 50سے زائد شدید زخمی کرنے جیسے حملے کے ردعمل میں بھی صرف ''شدید نوٹس‘‘ ہی لیا گیاہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے شدید نوٹس لیتے ہوئے کہاہے کہ شدت پسندی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔حکومتی مذاکراتی ٹیم‘ جسے بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے ''طالبان ‘‘ ہی کہاگیا ہے‘ نے بھی فرمایا ہے کہ دہشت گردی سے مذاکرات کا ماحول متاثر ہوسکتا ہے۔
جمعرات کی اطلاعات تک حکومتی کمیٹی نے طالبان کمیٹی کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ دہشت گرد کارروائیوں سے مذاکرات کاماحول متاثر ہورہاہے ۔طالبان ایسے اقدامات سے گریز کریں۔ جمعہ کے روز حکومتی اورطالبان کی کمیٹیوںکامشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا ۔ اس کے مندرجات پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ فریق دوم کوئی دوسری ریاست یا ملک ہو؟ ۔حکومتی کمیٹی نے کہاکہ دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔طالبان کمیٹی نے فرمایا کہ حکومت بھی طاقت کا استعمال نہ کرے۔ 
حکومت کی طرف سے دہشت گردی اوراس میںملوث گروہوں سے نمٹنے کے لئے امن مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیاگیا ہے‘ ایمانداری کی بات ہے کہ اس سے دہشت گردی میں کمی اورامن کے حصول میں رتی برابر فرق نہیںپڑا۔البتہ امن کوششوں کے سلسلہ میں ایک '' بریک تھرو‘‘ یہ ہوا ہے کہ... دہشت گردی کا سرکاری نام امن کے منافی سرگرمیاں... تجویز کیاگیا ہے ۔ بیان کیاگیا ہے کہ ریاست کے خلاف ایسی کارروائیوں کو دنیا کے ہر ملک 
میں دہشت گردی کہاجاتاہے لیکن ہم ایک طویل عرصہ یہ ظلم برداشت کرنے کے بعد صرف کا اس نام بدل سکے ہیں۔ حکومتی اورطالبان کمیٹیوں کے مذاکرات کے بعد اعلامیہ میں دہشت گردی کے بجائے ''امن کے منافی سرگرمیاں‘‘ جیسے ڈھیلے ڈھالے اور ملفوف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔مراد یہ ہے کہ مذاکرات سے خون ریزی رکے نہ رکے لیکن دہشت گردی کانام ونشان تو مٹادیا گیا ہے۔گویا حکومتی اورطالبانی کمیٹی نے اپنا ،اپنا ہدف حاصل کرلیا ہے؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیابم دھماکے ، خودکش حملے، اورٹارگٹ کلنگ دہشت گردی نہیں بلکہ صرف امن کے منافی سرگرمیاں ہیں؟ دوسری جانب طالبان‘ ان کے 'ہمدردان‘ اور 'مشیران‘ نے بھی لفظوں کی جادوگری کامظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کو نرم عنوانات دئیے ہیں۔کراچی میں پولیس پر حملے کے بعد جو بیان جاری کیا گیا‘ اس میں پہلی بار ایسے سفاک حملوں کو ہلکے پھلکے انداز میں ''دفاع کا حق‘‘ قراردیا گیاہے۔ کیسی دلخراش حقیقت ہے کہ حکومتی اورطالبان کمیٹیاں باہم مل کر دہشت گردی کو امن کے منافی سرگرمیوں اور دفاع کا حق جیسے عنوانات دے رہی ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں انسداد دہشت گردی قانون، انسداد دہشت گردی فورس اور انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بھی دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہیں۔اب ان کے نئے نام کیاہوں گے؟ فیض نے ایسی کسی دلدوز صورت حال کو یوں عنوان دیا تھاکہ ؎
ہم سے کہتے ہیںچمن والے، غریبانِ چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام 
حکومتی کمیٹی نے کراچی میں دہشت گردی کی تازہ واردات پر احتجاج کرتے ہوئے جو خط طالبان کو بھجوایا ہے‘ اس بابت طالبان نے حکومت سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خط کے مندرجات انہیںمیڈیا کے ذریعے پتہ چلے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت میڈیا کے واسطے سے مذاکرات کررہی ہے۔حکومتی کمیٹی میں شامل رستم شاہ مہمند کا بیان خاصا معنی خیز ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ طالبان سے مذاکرات ناکام ہوئے تو تباہی پھیلے گی۔ اگر آپریشن کا آپشن استعمال ہوا تو حکومت کو عام لوگوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔حکومت کسی کو دھوکا نہیںدے رہی اورمذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے‘ تاہم ابھی تک اعتماد کی فضاء قائم نہیںہوسکی۔ شریعت یا آئین کوئی مسئلہ نہیں مسئلہ کچھ اور ہے۔
یہ مسئلہ کیاہے؟ اس کے بارے میں باخبر حلقوں اورتجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ طالبان اپنے ان ساتھیوں کی رہائی چاہتے ہیںجنہیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر گرفتار کیاہے۔دوم یہ کہ طالبان، اسلامی جمہوریہ پاکستان سے کیش کی صورت میںاس جنگ‘ جسے ہم نے 'امن منافی سرگرمیاں‘ کانام دیا ہے اور طالبان 'دفاع کا حق‘ قرار دے رہے ہیں‘ میں ہونے والے طالبان کے مبینہ نقصان کا خسارہ وصول کرنا چاہتے ہیںجو کیش کی صورت میں ہوگا۔طالبان تو اس جمہوری نظام کو ''غیر شرعی اورغیر اسلامی‘‘ نظام گردانتے ہیںاورہم پر ملا عمر اور مولوی فضل اللہ کی شریعت نافذ کرنے کے لیے ''جہاد ‘‘ کررہے ہیں۔مذاکرات کی کامیابی پر خسارے کی نقد رقم کو ''جزیہ‘‘ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے ۔یقینا ہم سب مسلمان اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹیکسوںکے ساتھ ساتھ جزیہ ادا نہیں کریں گے۔ (انشااللہ) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved