ایک معاصرکے تجزیہ نگارنے اپنے 27 جنوری کے کالم میں لکھا کہ '' پاکستان کو اپنے سارے انڈے چین کی ٹوکری میں ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔اس فقرے کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی اور صنعتی تعاون کو بد گمانیوں کی نذرکر دیا جائے۔ میڈیا کو سبق پڑھانے والا امریکہ اپنے مخبروں کو چین کی ٹوکری کے دکھ میں بوڑھا کررہا ہے۔ ایک طرف میڈیا کا ایک حصہ اور دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ ، چین سے تعلقات محدود رکھنے کے لیے پاکستان پر مختلف طریقوں سے دبائو بڑھا رہے ہیں۔ بھارت کے مختلف ریاستوں میں تقسیم ہونے سے متعلق چینی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ کوئی طاقت بھارت کو چین سے ٹکرا نا چاہتی ہے ۔ اس سلسلے میں سی آئی اے کی 2005ء میں مرتب کی گئی ''کارنیگی انڈومنٹ‘‘ رپورٹ بہت اہم ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ:
1: چین کے غلبے کو روکنے کے لیے بھارت کی ترقی کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔
2: بھارت اور پاکستان کے مابین طاقت کے توازن کے پر فریب تصورکو ختم کیا جائے۔
3: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جی ایٹ، ایپک اور انٹرنیشنل ایجنسی میں بھارت کی رکنیت کی توثیق کی جائے۔
سی آئی اے کے اس تجزیے کوسامنے رکھ کر ٹرسٹ نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے مستقبل کی خاکہ بندی میں بھارت اور چین کے
منظر کا موازنہ انیسویں صدی میں جرمنی کے عروج اور بیسویں صدی میں امریکہ کی مقبولیت سے کیا ہے۔امریکہ کے پالیسی سازوں کی رائے یہ ہے کہ آنے والے وقت میں چین ان کا بد ترین دشمن ہوگا، شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغرب کو بے لگام ہوتاہوا چین اپنے لیے نیک شگون محسوس نہیں ہو رہا۔ اسی خدشے کی بنا پرامریکہ بھارت کو تقویت دے کر چینی اثرورسوخ کو بحر ہند کے اطراف بشمول میانمار میں محدود کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ارمچی(سنکیانگ) میں چین کے خلاف مسلح بغاوت اور چین سے ملحق علاقے منی پور میں بھارت کی پندرہ ہزار پہاڑی فوج کی تعیناتی میانماراور چین کے درمیان دیوار بنانے کی کوشش کا پہلا مرحلہ ہے۔ ایک امریکی دانشورکے مطابق ''امریکہ کا سارا زور بھارت کو چین کی جوابی طاقت بنانا اوراس کو ترقی دے کر چین کے خلاف ایک حفاظتی باڑکو مضبوط بنانا ہے۔ سیاچن سے بھارتی افواج کی طے شدہ واپسی سے انکار اسی منصوبے کی عکاسی کرتا ہے‘‘۔ 14 مارچ2008 ء کولہاسا میں کرائے گئے فسادات کے بارے میں دی اکانومسٹ کے جیمز مائلز نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ یہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا تھا ، یہی وجہ ہے کہ اس کی آڑ میں ایک ہی دن میں دنیا بھر میں چین کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو تبتی افراد سے نشانہ بنوایا گیا۔ حسب معمول واشنگٹن پوسٹ نے لہاسا میں چین کی پیپلز آرمی کی طرف سے تبتی عوام پر تشدد کی تصویریں شائع کیں لیکن اس کا بھانڈا جرمنی
کے این ٹی وی نے پھوڑ تے ہوئے تسلیم کیا کہ یہ تصویریں اصل میں کھٹمنڈو میں نیپالی پولیس کی ہیں ۔ 24 مارچ کو جرمنی کے ایک اور ٹی وی چینل آر ٹی ایل نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصویریں غلطی سے جاری ہوئیں۔ منفی پروپیگنڈے کا امریکی مقصد یہی تھا کہ چین میں ہونے و الے اولمپکس مقابلوں کا بائیکاٹ کرایا جائے۔ جو امریکہ جرمن سربراہ مملکت کے فون ٹیپ کرانے کا دیدہ دلیری سے اعتراف کرسکتاہے اس کے لیے یہ معمولی سی تردید کرانا مشکل نہیں تھا۔
امریکی منصوبے کو اس تناظر میں دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا امریکہ نے بھارت کو اکیسویں صدی کی عالمی طاقت بننے کے لیے مدد دینے کا اعلان کیا تھاتاکہ وہ اپنے ارد گرد اپنی طاقت کی دھونس جمائے اور ایشیاء میں ابھرتے ہوئے چین کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے ؟اس طرح امریکہ کے عسکری صنعتی کارخانے بھارت کی ترقی پذیر اسلحہ مارکیٹ سے فائدہ بھی اٹھائیں ؟ بد قسمتی سے بھارت کو چین کے مقابلہ کی عالمی طاقت بناتے ہوئے امریکہ نے جنوبی ایشیاء میں سٹریٹیجک توازن کے ناگزیر عوامل کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ چین سے خوف کے نام پر بھارت نے دنیا بھر سے جو اسلحہ جمع کیا وہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف ہی استعمال ہوا ہے اورخدشہ ہے کہ آج بھی چین کی ڈرائونی تصویریں دکھا دکھا کر بھارت اسلحے کے جو ڈھیر لگا رہا ہے وہ سب سے پہلے پاکستان کے خلاف استعمال ہوں گے ۔
دنیا کی کل آبادی کے پانچویں حصہ پر مشتمل چین دنیا بھر میں تیار ہونے والے نصف سیمنٹ کا مالک ہے ۔ چین میں دنیا کے سٹیل کا تیسرا اور المونیم کا چوتھا حصہ موجود ہے، 2000ء سے دنیا کی کاپر امپورٹ کے 4/5 کا حصہ دار ہے، چین جو کل تک چھوٹے چھوٹے یونٹوں پر انحصار کرتا تھا آج ہیوی انڈسٹری کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہا ہے ، اسے اپنی ہیوی انڈسٹری کے لیے توانائی کی بہت زیادہ مقدارکی ضرورت ہے۔ صرف سٹیل انڈسٹری کے لیے چین اپنی کل انرجی کا16فیصد جبکہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی دوسری ہائوس ہولڈزکے لیے10فیصد انرجی استعمال کر رہا ہے۔ 2005ء میں جب امریکہ بھارت سے دفاعی اور سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کر رہا تھا ، اس کے سامنے سی آئی اے کی وہ رپورٹ پڑی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ چین نے اس سال ویسٹرن آسٹریلیا سے8.5 بلین امریکی ڈالر کی ملکیت کا لوہا در آمد کیا ہے ۔ دونوں افواج کے ڈیفنس پالیسی گروپ کا مقصد امریکہ اور بھارت کے دفاعی تعاون کو فروغ دینا ہے ۔ڈیفنس پروکیورمنٹ اور پروڈکشن گروپ سے یہ توقع بھی ہے کہ وہ بھارت کو پیش کردہ ایف ـ16 اور ایف ـ 18 کی ممکنہ فروخت اور مشترکہ پیداوار کی طرف بھی توجہ دے گا۔ پہلے ہی اطلاعات مل رہی ہیں کہ امریکہ نے بھارت کو پیٹریاٹ پی اے سی 3اینٹی میزائل سسٹم کی پیشکش کی ہے ، اسے ایرو میزائل سسٹم کے علاوہ ترقی یافتہ نیو کلیئر اور خلائی ٹیکنالوجی کی بر آمد سے پابندی ختم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ چین اور بھارت دو متحارب فریقوں کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو بڑھانے کے مجوزہ امریکی منصوبے سے کشمیر کے کسی عادلانہ حل کے امکان کو زک پہنچنے کا احتمال رہے گا۔ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے بجائے بھارت سے تیزی سے فروغ پانے والے تعلقات کو زیادہ اہمیت اور ترجیح دینے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے۔
26/11 کی ممبئی دہشت گردی سے اب تک پاکستان کے خلاف امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ نے آنے والے وقت کی نشاندہی کر دی ہے ، لہٰذا پاکستان کو اس پر پوری طرح چوکنا رہنا پڑے گا اور پاکستان کو کھل کر امریکہ سے کہنا ہو گا کہ وہ انفرادی تعلقات کے نام پر امتیازی طرز عمل نہ اپنائے۔