خوبصورت ریستورانوں میں اطالوی‘ چائنیز یا میکسیکن کھانا کھاتے ہوئے‘ کسی کلب کے لائونج میں چائے پیتے ہوئے ‘ گالف کھیلتے ہوئے‘ کسی جگہ کافی کے تلخ گھونٹ حلق میں اتارتے ہوئے اور اگر دانشور ہیں تو کسی ٹیلی ویژن پروگرام میں عقل و دانش کے پھول بکھیرتے ہوئے، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جب تک پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو دنیا کی بدترین‘ غیر مہذب‘ اخلاق باختہ اور ناکارہ قوم ثابت نہ کر لیں‘ ان کو چین نہیں آتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک کے مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں اس ملک نے دولت‘ سہولت اور عزت سب کچھ دیا ہے۔ ان کے گھروں میں ضروریاتِ زندگی کی کبھی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ غربت کے مارے کئی لوگ ان کی خدمت میں رات دن حاضر رہ کر اپنا رزق کماتے ہیں ، ان کے پرستار انہیں آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں۔۔۔ لیکن وہ اس ملک کو برا کہہ کر جس مغرب کے گن گاتے ہیں‘ وہاں انہیں چند دن رہنا پڑ جائے تو ان کی سانس پھول جائے ، انہیں زندگی کی کٹھن رات گزارنا مشکل ہو جائے۔۔۔ جوتے پالش کرنے سے لے کر باتھ روم صاف کرنے تک‘ سودا سلف خریدنے سے کھانا پکانے تک سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر محنت سے رزق کمانے کے بعد ایک گمنام زندگی ۔۔۔! کس قدر بدنصیبی ہے کہ وہ لوگ اس ملک اور اس کے لوگوں کو بُرا کہتے ہیں جنہیں اس ملک نے سب کچھ دیا۔ گرمی کی شدت میں کھولتے پانی میں چاولوں کی پنیری لگانے والوں نے‘ دہکتی بھٹی کے سامنے برتن چننے والوں نے‘ سڑک پر پتھر کوٹنے والوں نے‘ دن رات گارے اور ا ینٹ سے دیواریں بنانے والوں نے‘ ریڑھی بانوں‘ رکشہ والوں‘ غرض ان تمام لوگوں نے جن کی محنت سے یہ ''عظیم‘‘ لوگ عیش کی زندگی گزارتے ہیں‘ کبھی اس ملک کا گلہ نہیں کیا۔ وہ صبرو شکر سے اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ رزق کمانے کے لیے اس سے دور بھی چلے جائیں تو رات دن کما کر اپنے گائوں بھیجتے ہیں اور اس ملک سے رشتہ نہیں توڑتے۔ جہاں کہیں رہیں ان کا دل اس وطن کے لیے دھڑکتا رہتا ہے ، لیکن میرے ان عظیم دانشوروں کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔ ایسے شاہکار مفکر افریقہ کے قحط زدہ ممالک میں بھی نہیں پائے جاتے۔ جس مغرب میں انہیں زندگی کی خوبصورتیاں نظر آتی ہیں اس کا دامن بھی ویسی ہی برائیوں سے لتھڑا ہوا ہے جیسی ہمارے معاشرے میں ہیں ، بلکہ ان میں یہ برائیاں ہمارے معاشرے سے کئی گنا زیادہ ہیں لیکن وہاں کا کوئی ادیب‘ شاعر‘ دانشور‘ تجزیہ نگار اپنی قوم کو بحیثیت قوم گالی نہیں دیتا‘ برا نہیں کہتا۔ وہ امریکہ جو ان کے تصورات کی خوبصورتیوں کا مرکز ہے ، وہاں ہر دو منٹ میں ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے، یہ تعداد پولیس کو رپورٹ ہوتی ہے جواصل کا صرف ایک تہائی ہے۔ عموماً ایک سال میں اوسطاً تین لاکھ کے قریب عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا میرے ملک کے دانشور بہت شور مچا کر اس قوم کو لعن طعن کرتے ہیں ، امریکہ میں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ بچے اس کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں 75 فیصد بچیاں ہوتی ہیں۔ ان بچوں میں ایک تہائی وہ ہوتے ہیں جنہیں ان کے سگے رشتے دار اس اذیت سے دوچار کرتے ہیں۔ امریکہ میں ہر سال جتنے بچے پیدا ہوتے ہیں‘ ان میں ساٹھ فیصد کنواری مائوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب لڑکیاں ان بچوں کو پالنے کے لیے تعلیم چھوڑ دیتی ہیں اور چھوٹی موٹی نوکریاں کرتی ہیں۔ اس وقت امریکہ کی آبادی میں چھ کروڑ مرد اور عورتیں ایسی ہیں جنہیں بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ والدین کی محبتوں کا عالم یہ ہے کہ ہر روز تین بچے والدین کی مارپیٹ کا اس قدر شکار ہوتے ہیں کہ انہیں ہسپتال داخل کروانا پڑتا ہے یعنی سال میں اندازاً بارہ سو بچے ہسپتال جاتے ہیں اور ان میں سے بیس فیصد یعنی سالانہ 240 بچے والدین کے تشدد سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
ایک اور معاملہ جس پر بہت شور مچایا جاتا اور پوری قوم کو ایک گری ہوئی قوم ثابت کیا جاتا ہے وہ لاشوں کی بے حرمتی ہے۔ پورے مغرب میں اسے ایک نفسیاتی مرض (Nectophelia)کے طور پر لیا جاتا ہے اور وہاں روزانہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ، ان لوگوں کو ماہرینِ نفسیات کے پاس علاج کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہ سب ان معاشروں میں ہوتاہے لیکن آج تک وہاں کے کسی بڑے ادیب‘ مفکر‘ دانشور یا کالم نگار نے اس بات کا رونا نہیں رویا کہ ہم بحیثیت قوم تباہ و برباد ہو گئے ہیں ، ہم میں اخلاق نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے یا ہم ایک بیہودہ‘ نکمی اور ناکارہ قوم ہیں۔ ایسے فقرے مجھے میرے اپنے ملک کے مراعات یافتہ دانشوروں کے منہ سے اپنے ہی ملک کے بارے میں سننے کو ملتے ہیں۔
لیکن سب سے تکلیف دہ یہ فقرے ہوتے ہیں کہ مغرب میں شرم و حیا ہے ، وہاں کوئی مرد کسی عورت کو گھورتا نظر نہیں آتا ، سب کی نگاہیں جھکی ہوتی ہیں اور سب اپنے اپنے کام میں مشغول ہوتے ہیں۔ اول تو یہ تاثر ہی غلط ہے۔ جتنے جنسی جرائم میں نے گنوائے ہیں ، یہ سب نیچی نگاہوں اور شرم و حیا سے پیدا نہیں ہوتے ، اس کے لیے دماغوں کے اندر ایک کھولتا ہوا ہیجان چاہیے جو اس معاشرے میں اس قدر شدید ہے کہ وہاں ہزاروں کی تعداد میں ''سیریل کلر‘‘ پائے جاتے ہیں جو اس ہیجان کی وجہ سے درجنوں عورتوں کو بدترین تشدد سے قتل کردیتے ہیں۔ جہاں کوئی لفٹ‘ کوئی باتھ روم یا کوئی تنہائی والی جگہ عورتوں کے لیے محفوظ مقام نہیں ، لیکن اگر ان کی یہ دلیل یا منطق مان بھی لی جائے تو ان عورتوں کو نہ دیکھنے کی وجہ اس سے زیادہ کریہہ اور بدترین ہے۔۔۔ ان معاشروں میں عام لباس میں عورت چاروں طرف موجود ہے۔ کوئی دفتر‘ سکول‘ کارخانہ‘ ریسٹورنٹ بلکہ زندگی کا کوئی شعبہ اور مقام ایسا نہیں جہاں وہ موجود نہ ہو۔ اس موجودگی نے ان معاشروں کے رہنے والوں کی اشتہا کو نئے نئے راستے سجھائے ہیں۔ رات گئے ملگجی روشنیوں میں کلبوں کے دروازے کھلتے ہیں اور جسموں کے تھرکنے سے بے لباسی تک سب دستیاب ہوتا ہے۔ جنہیں مزید کی تلاش ہو، مختلف ساحلِ سمندر بے لباس افراد کے لیے موجود ہیں۔ عورت کے لیے مرد اور مرد کے لیے عورت اس طرح عام کردی گئی ہے کہ ان کے درمیان حیا اور شرم تو دور کی بات ، جسمانی تعلق بھی اپنی لذت کھو چکا ہے۔ وہ کچھ مختلف کر گزرنے کے چکر میں انسانیت کے ایسے بدترین مقام پر جا گرتے ہیں جہاں انسان کو انسان سے گھن آنے لگے۔ اس کی ایک کریہہ مثال ان ملکوں میں ایسے گروہوں کی ہے جنہیں Shiteaters کہا جاتا ہے۔ میں اس لفظ کا ترجمہ بھی نہیں کر پا رہا ہوں کہ مجھے اس کے تصور سے بھی ابکائی آتی ہے۔ جنسی معاملات میں خود اذیتی سے لطف لینا ‘ دوسرے کو اذیت کا شکار کرنا‘ گروہ در گروہ جانوروں کی طرح اس کریہہ کھیل میں شریک ہونا ، یہ سب تو وہ شرم و حیا ہے جس کی تعریف کرتے ہمارے دانشور نہیں تھکتے ۔ یہ ثنا خوانِ تقدیسِ مغرب‘ چین کی نیند نہیں سوتے جب تک پہلے پاکستانی قوم‘ پھر مسلم امہ اور آخر میں اسلامی تاریخ کو قابلِ نفرت بیان نہ کر لیں۔ لیکن کس قدر سادہ لوح ہیں یہ اٹھارہ کروڑ عوام جو محنت کرتے ہیں تو ان کے لیے جہاز اڑتے اورگاڑیاں چلتی ہیں‘ ان کے گھروں میں روشنی ہوتی ہے اور ان کی زندگی پُرتعیش گزرتی ہے۔ اللہ کا شکرہے کہ یہ اٹھارہ کروڑ لوگ ان جیسے نہیں ، روکھی سوکھی کھاتے ہیں مگر اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور رات کو اللہ کے حضور شکر گزار ہو کر میٹھی نیند سوجاتے ہیں۔