تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-02-2014

کب تک‘ آخر کب تک؟

کب تک معاملا ت کو وہ معلق رکھیں گے ۔ مکمل جنگ بندی سے دہشت گردی کا خاتمہ یا کارروائی ، ایک راستہ انہیں اختیار کرنا ہوگا‘ مگر کتنی بھاری قیمت ہے جو ملک چکا رہا ہے۔ کب تک چکاتا رہے گا ؟ 
حکومت کے حکم پر فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن پر تیار تھی۔ صاف الفاظ میں جنرل کیانی نے وزیر اعظم نواز شریف کو بتایا تھا : دو ہفتے کے نوٹس پر کارروائی شروع ہو گی اور تین ہفتے میں مکمل ۔ مغالطہ کیوں پیدا ہوا؟ ان سے کیوں منسوب ہوا کہ کامیابی کے صرف چالیس فیصد امکانات ہیں ۔ کیا یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ ناکامی کا خطرہ ہو اور دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک فوج ، خود کو جھونک دے ۔ اپنے جوانوں اور افسروں کوموت کے منہ میں دھکیل دے ؟زخم چاٹے ، اپنی توہین کرائے اور قوم کو مایوسی کے حوالے کر دے ؟ 
عقدہ کل کا کالم لکھنے کے بعد کھلا۔ وزیراعظم کو ٹیلی ویژن پر بات کرتے دیکھا۔ ترکی سے پاکستان آتے ہوئے، جہاز میں ایک اخبار نویس سے گفتگو ۔پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : جی ہاں ، نمبرز کی بات ہو رہی تھی مگر نمبر ز بدلتے رہتے ہیں ۔ یہ ایسی کوئی خاص بات نہیں ۔
خاص بات نہیں ؟ کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ اتنے اہم موضوع پر سپہ سالار سے ہونے والی گفتگو وزیر اعظم کو یاد نہ تھی۔ کچھ دیر میں عمران خان ٹی وی پر نمودار ہوئے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے خود انہیں بتایا تھا۔کیوں میں ان کی اطلاع پر اعتماد نہ کروں ؟ 
پہلی بار وزیراعظم منتخب ہونے کے فوراً بعد میاں محمد نواز شریف کے لیے مسلّح افواج کی طرف سے بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ اہم ترین اجلاس سمجھا جاتاہے ۔ چند منٹ بعد وہ پہلو بدلنے لگے ۔ صدر غلام اسحٰق خان سے انہوں نے کہا کہ وہ یہ بریفنگ لے لیں ، انہیں کہیں جانا ہے ۔ صدر اس پر حیران رہ گئے اور معاملے کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود مزید دس منٹ بعد وزیراعظم بے قراری سے اٹھے اور کسی نا معلوم سمت کی طرف روانہ ہو گئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ناران گئے تھے ، جہاں ایک تفریحی تقریب ان کے لیے برپا تھی ۔
جنرل کیانی سے قریبی رابطہ رکھنے والے کئی افراد سے میں نے گفتگو کی ہے ۔ دو بار خود بھی ان سے ملا۔ براہِ راست مفصل گفتگو سے وہ گریز کرتے ہیں مگر یہ ضرور کہا کہ ہرگز انہوں نے وزیراعظم یا کسی بھی اور شخص سے کبھی یہ بات نہیں کہی کہ شمالی وزیرستان میں ناکامی کا اندیشہ ہے ۔ عسکری ذرائع کہتے ہیں : اگر تین ماہ کے اندر سوات سے بیس لاکھ آبادی کے انخلا سمیت کارروائی کی تکمیل ممکن ہے ۔اگرتمام دوسری قبائلی ایجنسیوں میں آپریشن کامیابی سے مکمل کیے گئے تو شمالی وزیرستان میں کیوں نہیں ؟ 
بے شک عسکری قیادت ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت اقدام کی قائل ہے کہ دہشت گرد ملک بھر میں ردّعمل کا اظہار کریں گے ۔ بے شک وہ مذاکرات کو مسترد نہیں کرتے ۔ خوں ریزی اگر بات چیت سے ٹل سکے تو اس سے بہتر کیا؟ وہ مگر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک بالکل من گھڑت موقف عسکری قیادت سے منسوب کیاجاتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس میں جنرل کیانی نے واضح طور پر کہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی کے نتیجے میں دہشت گردی میں چالیس فیصد کمی آجائے گی۔ وہ حیران ہیں کہ راجہ ظفر الحق کے سوا، کانفرنس کے شرکا میں سے کسی ایک نے بھی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش نہ کی۔ 
آئی ایس پی آر بیان جاری کیوں کر دیتا؟ ایک اعلیٰ فوجی افسر نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا: کیا آپ کو مضمرات کااندازہ ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فوجی قیادت براہِ راست وزیراعظم کی تردید کر رہی ہے۔ برسوں خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی ریاضت آنِ واحد میں غارت ہو جائے گی ۔ 
جنرل کیانی نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ؛اگرچہ کہنا مشکل ہے کہ افواہ پہ اصرار کیا جاتا رہا تو کب تک وہ چپ رہیں گے ۔ اس پر بھی تعجب ہے کہ سوات میں مذاکرات کو جو تائید انہوں نے فراہم کی تھی ، اسے غلط معنی پہنائے جاتے ہیں ۔ یہ وہ تھے ، جو اسفند یار ولی کو ساتھ لے کر صدر زرداری کے پاس گئے تھے اور صوفی محمد سے معاہدے پر آمادہ کیا تھا۔ صدر صاحب شش و پنج کا شکار تھے ۔ ان کاکہنا یہ تھا کہ مغرب بالخصوص امریکہ میں ناراضی کی لہر اٹھے گی ۔ جنرل کیانی نے ، جو امریکہ کے دورے پر جا رہے تھے ، ان سے کہا کہ وہ امریکیوں کو سمجھائیں گے۔ انہیں بتائیں گے کہ حالات کا تقاضا اور مطالبہ کیا ہے ۔ ہالبروک سمیت امریکی عہدیداروں سے انہوں نے ملاقاتیں کیں اور ماحول کو سازگار بنایا۔ یہ الگ بات کہ خود صوفی محمد ہی نے معاہدہ توڑ دیا۔ اعلان کیاکہ وہ پارلیمان، جمہوریت اور سپریم کورٹ کو تسلیم نہیں کرتے ، جس کے بعد وہ آپریشن ہوا، عسکری تاریخ میں جس کی مثال مشکل سے ملے گی ۔ ہیلی کاپٹروں سے ایک بریگیڈ فوج پیو چار کی بلندیوں پر رسّوں کی مدد سے اتاری گئی اور یہ فوجی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ٓپریشن تھا۔ 
اپنے ذہن میں ایک مصنوعی کائنات وزیراعظم نے تخلیق کر رکھی ہے ۔ خوش فہمیوں کا ایک جہان اور اسی میں زندہ رہنے کے وہ آرزومند ہیں ۔ کسی معجزے کے منتظر۔ یہ وہ ہیں ، جنہوں نے عمران خان کو ناقص معلومات مہیا کیں ۔ خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے جانچنے اور جائزہ لینے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی۔ کھلے عام اس بیان کو دہرانے لگے ، جو فوج اور قوم کا مورال گرا سکتا اور مذاکرات میں دہشت گردوں کی پوزیشن مضبوط کر سکتاہے ۔فوج کے نزدیک تین ہفتے کی کارروائی سے دہشت گردی میں چالیس فیصد کمی ایک عظیم کامیابی ہو گی لیکن یہ جنگ کا اختتام نہ ہوگا۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس آپریشن کے بعد مکمل امن و امان قائم نہ ہونے کی صورت میں ناکامی کا واویلا کریں گے ۔ تیسری طرف وہ دانشور ہیں ، آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے ،جو یہ تک ارشاد کرتے ہیں کہ اب صرف ایٹم بم استعمال کرنا باقی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ دس سال سے ہم آپریشن میں مصروف ہیں اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ ایسے ارشادات کا فائدہ کسے ہوگا؟جنگ کی نوعیت یہ ہے کہ دہشت گرد چھپ کر حملہ آور ہوتے اور بھاگ جاتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دس سال سے آپریشن میں مصروف ہیں ؟ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ یہ کہتے ہیں کہ فوجی کارروائی سے ان قبائل کو کبھی شکست نہ دی جا سکی۔ ان سے درخواست ہے کہ ظہیر الدین بابر کی خود نوشت غور سے پڑھیں، جو منہ میں گھاس کے تنکے اٹھائے معافی کے طلب گار سرداروں پہ اظہارِ حیرت کرتا ہے۔پھرکیا قبائلی علاقے کے عوام دہشت گردوں کے ویسے ہی ہمدرد ہیں، جیسے افغان عوام روسی اور امریکی تسلّط کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے؟ 
مذاکرات خلوص اور سچائی سے کرنے چاہئیں ۔ ریاست غیر ذمہ داری اور لا ابالی پن کی مرتکب نہیں ہو سکتی۔ کب تک ؟ مگر کب تک معاملا ت کو وہ معلق رکھیں گے ۔ مکمل جنگ بندی سے دہشت گردی کا خاتمہ یا کارروائی ، ایک راستہ انہیں اختیار کرنا ہوگا مگر کتنی بھاری قیمت ہے جو ملک چکا رہا ہے ۔ کب تک چکاتا رہے گا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved