تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     17-02-2014

مذاکرات کا کوہِ گراں

ہزاروں خدشات اور اندیشوں کے باوجود مذاکرات کااونٹ آخرکسی کروٹ بیٹھ ہی گیااوریہ اچھا ہی ہوا۔ یہ سوال مسلسل کیاجارہاتھا کہ دونوں کمیٹیاں کس حد تک بااختیارہیں اوردلچسپ بات یہ ہے کہ یہی سوال دونوں کمیٹیوں نے بھی ایک دوسرے کے بارے میں اٹھایا۔اس سوال کا درست جواب یہ ہے کہ دونوں کمیٹیاں بااختیار نہیں ہیں اور یہ بات ہر ایک کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ قبول ہونی چاہئے، صرف اعتراض برائے اعتراض سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! یہ بات درست ہے کہ دونوں کمیٹیاں اپنے اپنے فریق کے لیے قابلِ اعتماد ہیں۔ پروفیسر ابراہیم توواضح طور پرکہہ چکے ہیں کہ ہمیں آپ Facilitator یا Mediator کہہ سکتے ہیں، طالبان نے اپنی ترجمانی کرنے اور اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا ہے وہ کسی کو پسند ہوں یا ناپسند، یہ ان کے لیے بہترین چناؤہے۔ حکومتی امن کمیٹی بھی سنجیدہ اور سلجھے ہوئے لوگوں پرمشتمل ہے، سو فریقین نے Soft Face سامنے رکھاہے۔ پہلے اجلاس کے اعلامیے کی زبان وبیان سے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ فیصلہ کرنے اور اسے لفظاً ومعناًً نافذ کرنے کے مراکز کہیں اور ہیں اور فیصلہ کن مراحل میں حقیقی سودے بازی کہیں اور ہوگی، یعنی دونوں کمیٹیوں کا بے اختیار، بے ضرر اور بے خوف وخطر ہونا اور بظاہر ایک درجہ قابلِ احترام ہوناہی اُن کی اصل اخلاقی قوت ہے، جس کے ذریعے وہ فریقین کو کسی مشترکہ ایجنڈے یا معاہدے کے قریب لاسکتے ہیں۔ 
سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ابتدائی ملاقات میں راہ ورسم آسان ہوتی ہے، فریقین خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، لوگوں کویقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں ،اصل مشکل ورکنگ سیشن سے شروع ہوتی ہے اور یقیناً یہ مراحل نہایت پیچیدہ ، خم دار اور تناؤ کے حامل ہوں گے اورمذاکراتی کمیٹیوں سے بالابالا کچھ اور حلقے بھی اس میں شریک کارہوں گے۔ طالبان کمیٹی نے کہہ دیاہے کہ ہماری ملاقات وزیراعظم، چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے کرائی جائے، ہماری رائے میں طالبان کمیٹی کا یہ مطالبہ جائز تو ہے لیکن قبل از وقت ہے۔ دونوں کمیٹیوں کا اصل کام فریقین کے لیے ایک ورکنگ پیپر یا عبوری دستاویز کی تیاری ہے، جس میں گرین اور ریڈ ایریا کے درمیان ایک Blue Areaکی نشاندہی ہو، جس پر آخری مراحل میں ''کچھ لو اور کچھ دو ‘‘کی بنیاد پر معاملات طے ہوتے ہیں۔ 
یہ کہنا کہ کس کے پاس کتنا اختیار ہے، بہت مشکل سوال ہے، قطعی اور لامحدود اختیار تو کسی ایک فرد کے پاس نہیں ہوسکتا، وزیراعظم کو بھی اپنے سینئررفقاء سے مشاورت کرنی ہوتی ہے، قومی سلامتی کے اداروں اور حسّاس اداروں کو بھی اعتماد میں لینا ہوتاہے اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور اہم اپوزیشن رہنماؤں سے بھی بامعنی مشاورت ناگزیرہوتی ہے تاکہ تمام اہم فریق اس ممکنہ معاہدے کے اسٹیک ہولڈر اور ضامن (Guarantor) بنیں اور نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کریں۔ 
سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ طالبان کا ضامن کون بنے گا، یہ طالبان کمیٹی کے بس کی بات تو نہیں ہے۔یہ بات درست ہے کہ دونوں کمیٹیوں کے ارکان کے درمیان باہمی احترام کا ایک رشتہ موجود ہے اورکوئی بڑا نظریاتی اور فکری بُعد بھی نہیں ، اس لیے عرفان صدیقی صاحب کا یہ کہنا کہ مذاکرات کے دوران ایسا لگا کہ ہم دونوں ایک ہی کمیٹی ہیں ،کسی حدتک درست ہے۔ حکومتی کمیٹی کی بے اختیاری اس سے عیاں ہوئی کہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان مولانا سمیع الحق اور اپنی کمیٹی کے ساتھ مستقل رابطے میں رہے، حالانکہ ابھی تو شروعات کے لیے ایک ترجیحی فہرست مرتب ہونی تھی ، لہٰذا ہماری رائے میں یہ بہتر ہوگا کہ چودھری نثار علی خان مذاکرات میں خود حکومتی ٹیم کی قیادت کریں تاکہ پسِ پردہ ڈور ہلانے کے بجائے اپنی دانش اور اختیارات سے کام لیتے ہوئے معمولی رکاوٹوں کوموقع پرہی خود دورکریں۔ 
ہم جیسے بے ضرر لوگوں کاکام یہ ہے کہ نہایت خلوص کے ساتھ ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا کریں کہ اللہ کرے یہ مذاکرات اخلاص پر مبنی ہوں،مثبت ،تعمیری اور نتیجہ خیز ہوں،کیونکہ ملک میں خوں ریزی بہت ہوچکی، اہلِ پاکستان کا امن وسکون درہم برہم ہوگیا اور آج پورا ملک ایک غیریقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ 
جب مذاکرات کا ڈول ڈالا جارہا تھا توکچھ افراد اور تنظیموں کے بیانات پر مبنی Tickerٹیلیویژن اسکرین پر نظر آتے تھے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی اجازت نہیں دی جاسکتی ،لیکن اب جبکہ مذاکرات شروع ہوچکے ہیں، یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان حضرات نے حکومت کو مذاکرات کی اجازت دے دی ہے یاان سے بالاہی بالا تمام مراحل سر ہوگئے ۔ ان حضرات کو ہمارا عاجزانہ مشورہ ہے کہ بولنے سے پہلے تول لیا کریں تاکہ بعد میں ندامت نہ ہو۔
حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے مذاکرات کی غیرمشروط پیشکش کی ہے جبکہ طالبان نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے اپنے ہاتھ کھلے رکھے ہیں ۔ چونکہ حکومت یک طرفہ طور پر دست بستہ ہوگئی ہے، لہٰذا آخر میں خدانخواستہ کسی ممکنہ ناکامی کی صورت میں ملامت اُسی کے حصے میں آئے گی۔ طالبان کے مطالبات توحکومت کے سوا ہر ایک کو معلوم ہیں جو یہ ہیں:(1)چونکہ اُن کے دعوے کے مطابق حکومت جارح ہے، لہٰذا جنگ بندی میں یک طرفہ طور پر پہل وہ کرے۔(2)ان کے تمام قیدیوں کی غیر مشروط رہائی اور ان پر قائم مقدمات سے حکومت کی دست برداری۔ (3)ان کے جانی ومالی نقصانات کی اُن کے تخمینوں کے مطابق ادائیگی۔(4)قبائلی علاقوں سے فوج کا انخلا۔ (5)اور شریعت کا نفاذ ۔ اگر چہ حکومتی کمیٹی نے معاملات کو شورش زدہ علاقوں تک محدود رکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے، لیکن طالبان کا ایجنڈا تو پورے پاکستان میں شریعت کانفاذ ہے۔ 
مولانا عبدالعزیز نے آنے والے حالات کی ایک جھلک نہایت ہوشیاری سے دکھا دی ہے، کوئی اپنی آنکھیں بند رکھنے پر مُصِر ہو تو اس کی مرضی ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''درحقیقت بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ عقل وبصیرت پر پردے پڑجاتے ہیں‘‘۔(الحج:46) اگر طالبان اور ان کی کمیٹی نے اپنے ابتدائی مطالبات اوراہداف یک طرفہ طور پر حاصل کرلیے اورپھرکسی مرحلے پر مذاکرات میں تعطُّل پیدا ہوگیا یامعاملہ Point of No Returnکے مرحلے میں پہنچ گیاتوحکومت کے ہاتھ خالی ہوں گے اور اس کے پاس کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا اور پھر میڈیا کے لبرل عناصر اپنی اپنی چھری کانٹے تیز کرکے اس کی خوب خبر لیں گے۔
تحریک طالبان پاکستان سے پابندی اٹھانا ایک تکنیکی مسئلہ ہے اور اس کے مُضمَرات پر ماہرینِ قانون ہی روشنی ڈال سکتے ہیں ، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض جماعتوں یا گروہوں کو ممنوع قرار دینے یاان پر پابندی لگانے یا اُن کو کالعدم قرار دینے سے عملی منظر نامے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی،کیونکہ ہمارے ہاں یہ پابندی اسم پر لگتی ہے، مُسمّٰی پر نہیں لگتی ، لہٰذامتبادل ناموں کے ساتھ کام جاری رہتاہے اور حساس اداروں کے ساتھ روابط بھی کسی نہ کسی صورت میں قائم رہتے ہیں جبکہ امریکہ جن افراد کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرتاہے، اُن کے اثاثے منجمد کرتا ہے اور بعض صورتوں میں اُن کے سر کی قیمت مقرر کرتاہے۔ 
مولاناعبدالعزیز کایہ تبصرہ تو برمحل ہے کہ جن پارلیمنٹیرینز کو سورۂ اخلاص نہیں آتی، وہ قرآن وسنت کو کیا سمجھیں گے اور اُس کے مطابق قانون سازی کیا کریں گے اور وہ قانونِ شریعت کس پر نافذ کریں گے اور کس منہ سے کریں گے ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 
الغرض مذاکرات کا کوہِ گراں سر کرنا ہے اور فریقین نے ملک وقوم کو امن کی سوغات دینی ہے ،اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے دعا کریں کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے اور ہم جیتے جاگتے کھلی آنکھوں سے اس کی تعبیر دیکھیں اور قوم امن کی نعمتوں میں پھلے اور پھولے۔یہ ہمالیہ سر کرنا مشکل ضرور ہے، لیکن اﷲتعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوجائے تو ناممکن ہر گز نہیں ہے۔
(یہ کالم گزشتہ منگل کے روز دوران سفر لکھا گیا)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved