تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     17-02-2014

تہران ہو گر عالم ِمشرق کا جنیوا

12مارچ 1993ء کا سورج طلوع ہونے والا تھا اورسعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ مکہ مکرمہ کے شاہی محل میں سحری کے وقت آنے والے افغان مہمانوں کو وہ دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ان مہمانوں کی خاص بات یہ تھی کہ انہیں ایک جگہ اکٹھاکرنے میں خادم الحرمین الشریفین کو گیارہ ماہ لگے تھے اور اس کام میں انہیں پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف کا تعاون بھی حاصل رہا تھا جنہوں نے افغانستان میں ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے تمام افغان فریقوں کو پانچ دن پہلے ایک ایسے معاہدے پر تیار کرلیا تھا جس کے مطابق افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کی راہ ہموار ہوگئی تھی ۔ خادم الحرمین الشریفین اپنے مہمانوں کو یقین دلا رہے تھے کہ ' آپ مہمان نہیں بھائی ہیں، آپ ہمارے بھائی تھے اور بھائی رہیں گے‘۔ اسلام آباد میں ہونے والے معاہدے پر سعودی حکومت اتنی خوش تھی کہ خصوصی طور پر اس کا عربی ترجمہ کرکے اس محفل میں سنایا گیا ۔ سفارت کاری کے میدان میں یہ ایک انوکھا واقعہ تھا کہ افغانستان کی زبان عربی تھی نہ پاکستان کی لیکن اس معاہدے کے عربی متن کو بھی برابر کی اہمیت حاصل تھی۔ پاکستانی وزیر اعظم محمد نوازشریف اتنے خوش نظر نہیں آرہے تھے جتنے وہ سات مارچ کو اسلام آباد میں اس وقت دکھائی دے رہے تھے جب اس معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔ آج جب اس معاہدے پردستخط ہورہے تھے تو کسی 
نے ان سے پوچھا کہ معاہدے پر عمل درآمد کے کیا امکانات ہیں تو ان کا جواب تھا 'ہم نے اس معاہدے پردستخط مسلمانوں کے مقدس ترین شہر میں کیے ہیں، اب اگر کوئی فریق اس کی پابندی نہیں کرتا تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کو خود جوابدہ ہوگا‘۔ پاکستانی وزیر اعظم کے اس جواب پر افغان رہنماؤں کے چہروںپر تناؤ میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ شاید یہ اس ذمہ داری کا احساس تھا جسے اٹھانے کا وعدہ انہوں نے رمضان کے اس مقدس مہینے اور اس مقدس شہر میں کیا تھا ۔حزب اسلامی کے سربراہ اور افغانستان کے سب سے بڑے مسلح گروہ کے سالار ہونے کے ناتے گلبدین حکمت یار کو اب اپنے ملک کی وزارت عظمیٰ چلانی تھی اور دیگر گروہوں کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ ان کے بدترین حریف احمد شاہ مسعود اس موقع پر موجود تو نہیں تھے لیکن ان کی نمائندگی برہان الدین ربانی کررہے تھے جو پہلے سے ہی ملک کے صدر تھے اور نئے انتظام میں ان کی حیثیت برقرار تھی۔ ان دونوں رہنماؤں کے چہروں پر اگر کچھ تھا تو گہری سوچ ۔ افغان رہنماؤں میں سب سے زیادہ خوش عبدالرب رسول سیاف تھے جو افغانستان میں تو کوئی بڑی حیثیت نہیں رکھتے تھے لیکن سعودی حکومت سے ان کے قرب کی وجہ سے انہیں ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔ ایرانی حکومت سے قربت رکھنے والی وحدت ِاسلامی اسلام آباد میں تو اس معاہدے کا حصہ نہیں تھی لیکن اتحاد کا یہ ماحول دیکھ کر اس نے بھی مکہ مکرمہ میں اس میں شامل ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ گویا افغانستان کے تمام فریق بظاہر اب ایک صفحے پر آچکے تھے۔ 
اس صفحے پر لکھی امن کی تحریر کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کابل میں عبدالرب رسول سیاف کی اتحاد اسلامی اور حزب وحدت کے کارکنوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا جس نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کرلی۔ کابل میں بدامنی کو نامزد وزیراعظم گلبدین حکمت یار نے اپنے خلاف ایک سازش سمجھا اور اپنے ہی دارالحکومت پر راکٹ برسانے شروع کردیے۔ یوں ا س معاہد ے کے تحت قائم ہونے والی حکومت جنم لینے سے پہلے ہی دم توڑ گئی اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی۔ تین سال بعد اس آگ کو بجھانے کے لیے ایک بار پھر سعودی اور پاکستانی اثرات نے طالبان کا ظہور ممکن بنایا۔ پھر جو کچھ ہوا ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ یہ نسخہ بھی ایشیا کے دلِ بیمار پر کارگر نہ ہوسکا اور آج 2014ء میں افغانستان امریکی افواج کے انخلاء کے اندیشوں میں گھرا ایک بار پھرخانہ جنگی کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ 
1993ء میں ہونے والے اس معاہدے کی ناکامی کا ایک بڑاسبب یہ تھا کہ افغانستان کے ایک اور اہم فریق ایران کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ سعودی ایرانی رقابت کے پیش نظر شاید اس وقت یہ کرنا ممکن بھی نہیں تھا ، لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ ایران کو افغانستان سے دور رکھ کر کسی دیرپا حل کی تلاش محض وقت کا زیاں ہے۔ طالبان کے معاملے میں ایک بار پھر یہی غلطی دہرائی گئی اور اس بارے میں ایران کو اعتماد میں لینا تو درکنار ، اس کے تحفظات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں سوائے طالبان بنانے والوں کے کسی نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ محدود سوچ کے حامل ایک گروہ کی حکومت قائم کرکے خود اس کے پشتیبانوں کو کئی بار عالمی سطح پر خفت کا سامنا کرنا پڑا اور خاص طور پر پاکستان کو تو وسعتِ فکر و نظرسے عاری اس حکومت کی قیمت آج تک چکانی پڑ رہی ہے۔ افغانستان کے لیے تیار کردہ یہ مال جب واپس پاکستان پہنچا تو اس نے عدم برداشت اور فرقہ واریت کے اس کلچر کو فروغ دیا جس سے پاکستانی ذہن آشنا ہی نہیں تھا۔ آج عالم یہ ہے کہ ہم انہی لوگوں سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہیں جنہیں کل تک بڑے فخر سے اپنی تخلیق قرار دیتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس دہکتے بھڑکتے ماضی سے کسی نے کچھ سیکھا ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہیں سیکھا، ہرگز نہیں سیکھا۔ افغانستان میں دلچسپی رکھنے والے تمام فریق ایران سے بالا بالا ایک بار پھر افغانستان کا مسئلہ اسلام آباد، ریاض اور انقرہ میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال میں مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں حامد کرزئی اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے سے پہلے ترکی ، سعودی عرب اور ایران کو آپس میں بات چیت کرنے کی طرف راغب کرے۔ اگر ایک بار ایران ، ترکی ، سعودی عرب اور پاکستان کابل کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بیٹھ گئے تو پھر شام میں امن کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی اور پاکستان میں طالبان سے جاری مذاکرات بھی کامیابی سے ہمکنا ر ہوں گے۔ ایران کو بھی یہ سمجھنا ہے کہ عالمی سیاست میں پاکستان ، ترکی اور سعودی عرب اس کے حریف نہیں بلکہ دوست ہیں ۔ تہران کو عالمِ مشرق کا جنیوا بنانے کا اس سے زیادہ مناسب وقت شاید اور کوئی نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved