تحریر : وصی شاہ تاریخ اشاعت     18-02-2014

Conflict of Interestسے Nepotism تک

جب جب پاکستان میں حکمرانوں سے جُڑے نااہل، ناتجربہ کار رشتہ داروںاور اعزہ و اقرباء کو نوازنے کی نئی خبر سامنے آتی ہے اور دنوں بعد نہیں دن میں کئی کئی بار سامنے آتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور یاد آتے ہیں سیدنا حضرت عمر بن خطابؓ۔
پھر اقبالؒ بھی یاد آتے ہیں ۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
بنانا ریپبلک تو پتہ نہیں کیا ہوتا ہے مگر یہ جو برباد وتباہ حال معاشرے کے تعفن میں ہم جینے اور سانس لینے پہ مجبور ہیں تو یہ یونہی تو نہیں ہو گیا۔ اسے 66برسوں میں گدھوں کی طرح نوچ نوچ کر برباد کیا گیا ہے ۔
حضرت عمرؓ کے نزدیک آقائے دو جہان رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے اہل وعیال کا کڑا حتساب حکمرانی کی بنیادی شرط ہے؛ چنانچہ آپؓ کا دستور تھا کہ جب لوگوں کو کسی بات سے منع کرتے تو اپنے گھر والوں کو جمع کر کے، ان سے کہتے کہ میں نے لوگوں کو فلاں فلاں چیز سے منع کیا ہے۔ یاد رکھو! لوگ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جس طرح پرندہ گوشت کی طرف دیکھتا ہے۔ اگر تم بچو گے تو وہ بھی بچیں گے اور اگر تم پھنسو گے تو وہ بھی پھنسیں گے۔ اگر تم میں سے کسی شخص نے ان باتوں کا ارتکاب کیا تو خدا کی قسم! میں اپنے ساتھ تمہارے تعلق کی وجہ سے تمہیں دُگنی سزادوں گا۔ اب تمہیں اختیار ہے، جو چاہے حدود سے تجاوز کرے، جو چاہے ان کے اندر رہے۔ 
اسی طرح ایک علاقے کی طرف سے آپؓ ہمیشہ پریشان رہتے تھے۔ اگر وہاں کسی نرم مزاج آدمی کو گورنر بناکر بھیجا جاتا تو وہ لوگ اسے خاطر میں نہ لاتے اور اگروہ سخت مزاج ہوتا تو اس کی شکایتیں کرتے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے تنگ آکر کہا کہ اگر مجھے کوئی ایسا آدمی مل جائے جو نہایت قوی بھی ہو اور امین بھی تو میں اسے وہاں کا گورنر مقرر کروں۔ ایک شخص پاس بیٹھا تھا، اس نے کہا میں آپؓ کو ایسا آدمی بتاتا ہوں۔ آپؓ نے پوچھا وہ کون ہے؟ اس نے کہا عبداللہ ابن عمرؓ ( یعنی آپؓ کے صاحبزادے)۔ جواب میں حضرت عمرؓ نے جو ارشاد فرمایا،کاش ہمارے حکمران اس سے سیکھ سکتے تو پاکستان کا آج یہ حال نہ ہوتا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ''خدا تجھے غارت کرے، اس سے زیادہ اور کیا کہوں‘‘ حکمرانوں کا رشتہ دار ہونا اسلامی تاریخ میں کس طرح Disadvantageous ہوا کرتا تھا۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے بھی ہوتا ہے کہ رشتے دار تو رشتے دار حکمرانوں کے دوست بھی دوسروں کے مقابلوں میں خسارے میں رہتے تھے۔ دیکھیے اس واقعے سے کیسے عدلِ فاروقی کی درخشندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپؓ نے ایک شخص سے کہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے جواب میں کہا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ آپؓ میرے حق میں کچھ کمی کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے مجھے معاف فرمائیے۔ مجھے اپنا دوست نہ بنائیے۔ دور دور ہی رہنے دیجئے۔
قریبی رشتے داروں کو اہم ذمہ داریوں سے دور رکھنے کے حوالے سے حضرت عمرؓ کا یہ تاریخی واقعہ پڑھ کر ان ہستیوں پہ سینکڑوں بار قربان ہونے کو جی چاہتا ہے ۔
اسی طرح بحرین سے کچھ مشک آئی تو آپؓ نے کہا کوئی عورت صحیح وزن کرنے والی مل جائے تو اس سے وزن کرا لیا جائے۔ آپؓ کی بیوی عاتکہ نے کہا کہ میں خوب تولنا جانتی ہوں۔ لائیے وزن کیے دیتی ہوں۔ آپ ؓنے کہا نہیں تم نہیں۔ بیوی نے کہا کیوں؟ فرمایا: تم مشک تولو گی پھر جو ہاتھوں سے لگی رہ جائے گی، اسے سر اور گردن پر مل لو گی، اس طرح مسلمانوں کے مال میں خیانت ہو گی، میں یہ طرح نہیں ڈالنا چاہتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے یہ ذمہ داری کسی اور سے ادا کروائی۔ 
اس حوالے سے اگر درج کرتا چلا گیا تو کالم کے کالم بھر جائیں گے مگر مثالیں ختم نہ ہوں گی، آئیے ذرا پاکستان آتے ہیں۔ 
عمران خان بیچارے چیخ چیخ کر گلا بٹھا چکے ہیں کہ پورے ملک میں انہی اقرباء کی اہم عہدوں پر تقرریاں کی جا رہی ہیں جو Conflict of Interestکی تعریف کی زد میں آتے ہوں، اسی لیے عمران خان خیبر پختونخوا میں Conflict of Interest کا قانون جلد لے کر آنے والے ہیں۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بھوک سے بلبلاتی اور تقریباً کیڑے مکوڑوں کی طرح روز مرتی ہوئی مخلوق جو سکولوں کے بچے اکٹھے کر کے پرچم بنانے کی (بیکار نہ بھی ہو مگر انتہائی معمولی اور سطحی ) سرگرمی کو ہمالیہ سے اونچا سمجھنے کے دعوئوں پر تالیاں بجاتی ہو، وہ جانتی ہی نہیں کہ اس کیلئے کیا اچھا ہے کیا بُرا۔ جیسے لوگ افیم کے عادی ہو جاتے ہیں یا زبان تیز مرچوں مصالحوں کی عادی ہو جاتی ہے اور معدہ تباہ کر ڈالتی ہے ایسے ہی بلند بانگ ہمالیہ سے بلند جھوٹے نعروں کی عادی قوم کو ایسا گمراہ اور مس گائیڈ کیا جا چکا ہے کہ صبح کاذب کو ہی صبح صادق سمجھ کر بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ Conflict of Interestبلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر Nepotism یعنی اقرباء پروری کے حوالے سے جدید دنیا نے کتنی سخت قانون سازی کی ہے ،اسے جدید دنیا میں کس قدر سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور معاشروں اور اداروں پر اس کے مضمرات پر انشاء اللہ اگلے کالم میں تفصیل سے...

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved