تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-02-2014

یہ جنگ ہے کیا؟

امریکیوں کا افغانستان میں‘ صرف طالبان کی ایک جماعت سے واسطہ ہے۔ ملاعمر اس کے قائد ہیں۔ کوئی دوسرا گروپ ان کی ہمسری کا دعویدار نہیں۔ اس کے باوجود امریکیوں کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ دونوں فریق بالواسطہ تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ابھی تک باضابطہ بات چیت نہیں کر پائے۔ حالانکہ درپردہ یہ کئی معاملات میں محدود تعاون کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو یہ سہولت حاصل نہیں۔ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ جس ٹی ٹی پی کے ساتھ ہم نے مذاکرات کی ناکام کوشش کی‘ وہ ہیں کون؟ بہت سے گروپ اسی نام کے تحت کارروائیاں کرتے ہیں۔ لیکن وہ فیصلہ سازی میں کسی مرکزی قیادت کو نہیں مانتے۔ جس کی تازہ ترین مثال طالبان کی مہمند شاخ کی کارروائی ہے‘ جس کی بنیاد پر مذاکرات معطل ہوئے۔مگر طالبان کی جو شاخ ‘ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی ''کو شش‘‘ میں لگی تھی‘ اسے ایف سی کے اغوا شدہ اراکین کی شہادت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ بظاہر یہی لگتا ہے۔ گوریلا جنگ میں ایسی صورتحال پیش آتی رہتی ہے۔ اکثر اوقات گوریلا جنگ لڑنے والی طاقتیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایسی چالیں چلتی رہتی ہیں۔ جب میں نے وزیراعظم کی خدمت میں یہ عرض کیا تھا کہ وہ ٹریپ میں آ گئے ہیں۔ تو اس کا یہی مطلب تھا کہ غیرمنظم لیکن ایک ہی مقصد کے تحت لڑنے والے فریق کے ساتھ کسی طرح کا سمجھوتہ کرنے سے پہلے‘ یہ جانچنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ کونسی ہائی کمان ہے؟ جس کے ساتھ بات چیت کر کے تمام برسرپیکار گروہوں کو طے شدہ امور پر رضامند کیا جا سکتا ہے۔ 
وہ گوریلا جنگ ہی کیا ہوئی‘ جس کی مرکزی قیادت ظاہر ہو جائے؟گوریلا جنگ لڑنے والوں کا واسطہ منظم ریاستی طاقت سے ہوتا ہے۔ جس کے پاس لامحدود وسائل ہوتے ہیں۔ اگر پتہ چل جائے کہ طالبان کی اصل قیادت کرنے والے کون ہیں؟ اور وہ کہاں پر ہیں؟ توان کا حفاظتی نظام منٹوں میں تہہ و بالا کیا جا سکتا ہے۔ افغان طالبان بیشتر معاملات میں‘ پاکستانی طالبان سے مختلف ہیں۔ انہیںایک قومی قیادت میسر ہے‘ جو ملا عمر کی صورت میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ملا عمر کا نظام چلانے والے سیاسی اور فوجی کمانڈر کون اور کہاں پر ہیں؟ اور وہ کس علاقے میں کتنے عرصے کے لئے ڈیوٹی دیتے ہیں؟ امریکی اپنے تمام تر وسائل کے باوجود‘ اس کا سراغ نہیں لگا سکے۔ انہوں نے ہر طرح کا زور لگا کر دیکھ لیا کہ ملا عمر کے علاقائی کمانڈروں میں سے کسی کو قابو کر لیں۔ مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔ کوشش کے بعد اگر کسی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آخر میں وہ ملاعمر کا وفادار نکلتا ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے‘ جب امریکیوں کو گمراہ کن ''اطلاعات‘‘ فراہم کر کے‘ غوطہ لگا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل اور تکلیف دہ تجربات کے بعد اب امریکی‘ ملا عمر سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کوشش ہر بارکسی نئے ذریعے یا رابطہ کار کے توسط سے کی جاتی ہے۔ ملاعمر بلاشبہ گوریلا جنگ کی تاریخ میں
اپنی طرز کے ممتاز لیڈر ہیں۔ جس نظم و ضبط کے تحت اپنے حواریوں کا اعتماد انہیں حاصل ہے‘ وہ صرف قوم پرستانہ جذبوں‘ حب الوطنی اور مقصد پر کامل یقین سے ہی مرتب نہیںہوتا۔ بلکہ اس میں ایک طرح کا روحانی رشتہ بھی کارفرما ہے اور اسے اطاعت امیر کی اسلامی روایت‘ ناقابل شکست تقویت دیتی ہے۔ اب ملا عمر کی طاقت افغانستان تک محدود نہیں۔ وہ ایک بہت بڑے ادارے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور القاعدہ کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی شاخیں‘ رہنمائی کے لئے انہی کی طرف دیکھتی ہیں۔ قیادت اور پیروکاروں کے یہ رشتے ‘ کسی کی نظر میں نہیں آتے۔ لیکن وہ دنیا کے بہت بڑے حصے میں متحرک رہتے ہیں۔ میں تو ایک معمولی سا لکھنے والا ہوں۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں‘ ملاعمر کے میدانی ‘ روحانی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل رابطوں کا سراغ لگانے میں ناکام ہوئی ہیں۔ ملا عمر جس طرز جنگ کے بانی ہیں‘ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا اختتام کب ہو گا؟ مگر جب بھی ہوا‘ اس کے بعد مشاہدات ‘ تجربات اور تجزیوں پر مبنی لٹریچر منظر عام پر آئے گا‘ تب پتہ چلے گا کہ یہ جنگ کیا تھی؟ اور کیسے لڑی گئی؟ فی الحال یہ عرض کر سکتا ہوں کہ دنیا کے تقریباً ہر حصے میں جہاں بھی القاعدہ طرز کی خفیہ تنظیمیں سرگرم عمل ہیں‘ ان سب نے کسی نہ کسی اندازمیں افغان طالبان اور ملا عمر کی قیادت سے استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بار بار گوریلا جنگ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور جنگی طورطریقوں کا حوالہ دے کر اصرار کرتا رہتا ہوں کہ دہشت گردوں کے معاملے‘ میں حکومت کو بڑی چھان بین اور سوچ سمجھ کے بعد فیصلے کرنا چاہئیں۔ یہ معاملات اتنے سادہ نہیں کہ چند سیاسی اور نجی وفاداروں کی مجلس میں بیٹھ کر‘ ان کے بارے میں فیصلے کر لئے جائیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بیشتر گوریلا جنگوں کا نتیجہ اس وقت برآمدہوا‘ جب اسے شروع کرنے والے منظر سے ہٹ چکے تھے۔ مائو‘ ہوچی من اور کاسترو جیسے خوش نصیب بہت کم ہوئے ہیں۔ جن حکومتوں کے دور میں گوریلا جنگیں شروع ہوئیں‘ ان میں سے بیشتر کی قیادتیں دوران جنگ ہی رخصت ہوتی رہیں۔ امریکہ‘ جس نے حالیہ تاریخ کی بیشتر گوریلا جنگوں کا سامنا کیا‘ وہاں کے جنگ شروع کرنے والے بیشتر لیڈر‘ جنگوں کے دوران ہی فارغ ہوتے رہے۔ افغانستان میں چھیڑی گئی گوریلا جنگ‘ جو پاکستان میں داخل ہو چکی ہے اس کے دوران ‘ ہمارے کئی حکمران منظر سے ہٹ چکے ہیں۔ ایسی جنگیں بہت صبر آزما ہوتی ہیں۔ تین چار بندوں کی مذاکراتی ٹیم بنا کر‘ چند روز میں‘ جنگ کا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے‘ بے تاب نہیں ہو جانا چاہیے۔ یہ نسلوں کے کھیل‘ عمروں چلتے ہیں اور عشروں میں ختم ہوتے ہیں۔ 
میں پاکستان کی فیصلہ ساز قوتوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے جنگی محاذ کی وسعت اور گہرائی کو سمجھیں۔ہمہ پہلو فکر‘ تحقیق اور جستجو سے کام لینے کے لئے ادارہ جاتی طریقہ کار اختیار کریں۔ جن موضوعات پر ریسرچ اور تجزیئے کی ضرورت ہے‘ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ پاکستان میں جاری گوریلا جنگ کے محاذ کتنے ہیں؟ شہری محاذ‘ جن کے اندر یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ سکیورٹی کا محاذ‘ جس پر دہشت گردطویل منصوبہ بندی کے بعد حملے کرتے ہیں۔ معاشی محاذ‘ جس پر مخالف قوتیں ‘ اندرونی اور بیرونی مددگاروں کے ساتھ مل کر حملہ آور ہوتی ہیں (جیسے کراچی میں قدم جمانے کا عمل )۔ میڈیا۔ سیاسی قوتیں۔ مثلاً پاکستان میں جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف‘ مدارس اور بعض علمائے کرام‘ کسی نہ کسی انداز سے اس جنگ میں شریک ہیں۔ چین کے اثرات۔ افغانستان کے اثرات۔ سعودی عرب کی دلچسپی۔ بھارت کے مختلف آپریشنز؟ کارروائیاں؟ تہذیبی‘ تجارتی‘ تعلیمی اور نفسیاتی منصوبے اور ایران کا طرز عمل۔ یہ سارے ملک پاکستان کے حالات میں براہ راست دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان میں تاریخی عمل کی جو لہر بھی اٹھتی اور بیٹھتی ہے‘ یہ سارے ملک کسی نہ کسی انداز میں اس سے متاثر ہوتے ہیں اور افغانستان کے سوا ان سب میں ریاستی ادارے مضبوط اور مستحکم ہیں۔ ان سب کے طرز حکمرانی میں تسلسل ہے۔ حتیٰ کہ ایران جو ماضی کے نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کے‘ انقلابی طوفانوں سے کھیلتا ہوا‘ نئے معاشرے کی تشکیل میں مصروف ہے‘ وہاں بھی تاریخ کا تسلسل نہیں ٹوٹا۔ بطور قوم ایرانیوں کی صدیوں پرانی پالیسی‘ تبدیلیوں کے مختلف ادوار سے گزرنے کے باوجود‘ اپنی اصل کے ساتھ موجود ہے۔ ہم نے اپنے جغرافیے اور تاریخ سے کٹ کے ایک نیا ملک اور نئی قوم تشکیل دینے کا جو معرکہ انجام دیا تھا‘ اس کے تقاضے پورے نہیں کر پائے۔ مذہبی رہنما‘ جدوجہد کے دوران قیام پاکستان کی حمایت نہ کر سکے اور پاکستان بننے کے بعد قوم کی تشکیل اور نظام کی تکمیل میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے قائم اور مستحکم نہ کئے جا سکے۔ حتیٰ کہ ہم اپنی اصل ریاست کو بھی نہیں بچا پائے۔ ابھی چند روز پہلے ایک بغاوت کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کی بات شروع ہوئی‘ تو ہمارا آئین زیربحث آ گیا۔ پھر وہی مسائل کھڑے ہونے لگے۔ پھر وہی مباحثے تازہ ہونے لگے‘ جن کی وجہ سے ہمارا ملک استحکام سے محروم رہا۔ اگر ہماری سیاسی قیادت آج بھی سالمیت کے سوال پر متفق اور متحد نہ ہو سکی‘ تو طالبان کی ایک شاخ کے ساتھ مذاکرات کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ ان میں کوئی کامیاب ہو یا ناکام‘ریاستی ادارے مستحکم نہیں ہو پائیں گے۔ہمارے ملک میں لڑی جانے والی گوریلا جنگ‘ نظام کے خلاف نہیں ‘ ریاست کے خلاف ہے۔ پاکستان کے وجود سے انکار کرنے والے متحد ہیں اور انہیں باہر کے سہارے بھی دستیاب ہیں اور ہم جن پر ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری ہے‘ نہ متحد ہیں‘ نہ یکسواور نہ ہمیں کسی بیرونی دوست کی فیصلہ کن مدد حاصل ہے۔ برا نہ منائیں‘ تو شاید ہمارا اس پر بھی اتفاق نہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے ہمیں حاصل کیا کرنا ہے؟ تفریحاً ہی سہی کم از کم اس سوال کا جواب ہی ڈھونڈ لیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved