لگتا ہے جہاں سیاستدانوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ پاکستان کو کیسے چلانا ہے وہیں‘ پاکستان کا ڈی ایم جی گروپ اچھی طرح جانتا ہے کہ انہوں نے بحران کے ان دنوں سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے۔
ایک چینی لیڈر کا قول ہے کہ بحران کو موقع میں بدل دو‘ اس لیے ڈی ایم جی گروپ نے اس ملک میںبدترین دہشت گردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پانچ صفحات کا نوٹیفکیشن جاری کرایا ہے جس کے تحت 58 برس پرانے سول سروس رولز کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے اپنے لیے بے پناہ اختیارات اور فیڈرل اور صوبائی محکموں میں پوسٹیں لے لی ہیں۔ بھٹو نے پاکستان ٹوٹنے کے بعد سول سروس میں جو نئے سرے سے ریفارمز کی تھیں، ان کو بھی اس گروپ نے ختم کرا دیا ہے اور یوں اکیسویں صدی میں اختیارات کے نام پر 58 برس پرانے رولز کو بحال کرالیا ہے۔ گروپ کا دیوالیہ پن دیکھیں کہ ان کے پاس 2014ء کے لیے کوئی ویژن نہیں تھا جسے وہ سامنے لا سکتے‘ لہٰذا 1956ء کے رولز کو بحال کرایا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ گروپ اگر باقی سروس گروپ کے مفادات کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا تو پھر ملک کے کچلے ہوئے لوگوں کو کیسے انصاف مہیا کر سکے گا ؟ جس کام کی بنیاد ہی ناانصافی پر اٹھائی جارہی ہو وہاں آپ خیر کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم ہائوس میں لاہور کے ڈی ایم جیز کا ایک چار رکنی گروپ موجود ہے جس کی قیادت اسّی سالہ ڈی ایم جی ریٹائرڈ بزرگ خواجہ ظہیر کر رہے ہیں جو دن رات اس کام پر لگے رہتے ہیں کہ کیسے ڈی ایم جی کی دہشت‘ جو جنرل مشرف دور میں ضلعی حکومتوں کے بعد ختم ہوگئی تھی‘ دوبارہ بحال کی جائے۔ روزانہ نئے طریقے ڈھونڈے جارہے ہیں اور سب ڈی ایم جی افسران دل و جان سے اس پر کام کر رہے ہیں ۔ پھر کیوں نہ پولیس، او ایم جی اور سیکرٹریٹ گروپ کو ختم کر کے پاکستان میں صرف ڈی ایم جی گروپ کو ہی برقرار رکھا جائے؟ تاکہ کوئی اعتراض نہ کرے اور نہ ہی کوئی جھگڑا ہو۔
اسی وزیراعظم ہائوس میں جہاں خواجہ ظہیر اور ان کے ساتھی بیٹھ کر یہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں ‘تین ماہ سے وزارت پانی وبجلی کی طرف سے منڈا ڈیم کے لیے 60 کروڑ روپے ریلیز کرنے کی سمری پڑی خاک چاٹ رہی ہے۔ اس سمری میں کہا گیا ہے کہ سال 2013-14ء میں ڈیم کے لیے 60 کروڑ روپے رکھے گئے تھے لیکن آٹھ ماہ بعد بھی ایک روپیہ تک ریلیز نہیں کیا گیا ۔ یوں اس ڈیم کی کنسلٹنسی اور دیگر امور پر کام رک گیا ہے۔ وزیراعظم کے پاس ان باتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ اب کون سمری پڑھے کیونکہ بھٹو صاحب آخری وزیراعظم تھے جو پوری فائل پڑھتے تھے۔
اب سیاستدانوں کی کارروائی سنیں۔ جس دن ٹیکس ڈائریکڑی میں ان کے نام سامنے آئے ہیں، اسی دن سی ڈی اے نے ایک خط کابینہ ڈویژن کو لکھا کہ انہیں 129 ایم این ایز کے فلیٹس کو سجانا ہے اور ان کے لیے نیا فرنیچر خریدنا ہے۔ اس سال بجٹ میں نئے فرنیچر خریدنے کے لیے پیسے نہیں رکھے گئے‘ لہٰذا وزیراعظم خصوصی گرانٹ جاری کریں اور 6 کروڑ 45 لاکھ روپے فوراً دیئے جائیں۔ اس میں سے 45 لاکھ روپے کا فرنیچر صرف پارلیمنٹ کیفے ٹیریا کے لیے خریدا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی تقریباً بیس کروڑ روپے سے زائد کا فرنیچر ان ایم این ایز اور سینیٹرز کے لیے خریدا گیا تھا جس میں کرپشن کی شکایات سامنے آئی تھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو ٹیکس ڈائریکٹری چھاپی گئی ہے اس کے مطابق پاکستان کے 319 ایم این ایز نے کل چار کروڑبیاسی لاکھ روپے کا انکم ٹیکس دیا ہے اور اسی دن ان کے لیے 6 کروڑ 45 لاکھ روپے کے فرنیچر کا آرڈر دیا گیا۔ جو لوگ ایک سال میں صرف 4.82 کروڑ روپے کا ٹیکس دے رہے ہوں‘ کیا ان کے لیے 6.45 کروڑ روپے کا فرنیچر خریدنا چاہیے؟ اور قابل غور بات ہے کہ یہ فرنیچر صرف 129 ارکان کے لیے ہے جب کہ باقی کے لیے کروڑوں کا فرنیچر پہلے سے خریدا جا چکا ہے۔
جن319 ایم این ایز نے ایک سال میں 4.82 کروڑ روپے ٹیکس دیا ہے‘ سابق سپیکر فہمیدہ مرزا جاتے جاتے ان کا سالانہ الائونس ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ روپے کر کے دس کروڑ روپے کا فائدہ دے گئی تھیں جبکہ اپنے لیے تاحیات مراعات، سرکاری نوکر چاکر علیحدہ۔ یوں ٹیکس کے نام پر چار کروڑ بیاسی لاکھ ادا کر کے بھی چھ کروڑ پھر بھی بچا لیے گئے۔ قوم کے یہ غم خوار صرف چار کروڑ پینتالیس لاکھ روپے کا ٹیکس دے کر الائونسز کی مد میں 10 کروڑ روپے سے زائد ایک سال میں لے جاتے ہیں ۔ ہر ماہ پچاس ہزار سے زائد تنخواہ، میڈیکل، سرکاری گاڑیاں، پی آئی اے کے فری ٹکٹ اس کے علاوہ ہیں۔
جب ہم پورے ملک کی بات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایم این ایز، سینیٹرز اور صوبائی اسمبلی کے ایک ہزار سے زائد ارکان نے ایک سال میں اندازاً 25 کروڑ روپے کا ٹیکس دیا ہے۔ سینیٹرز نے سات کروڑ روپے سے زائد ٹیکس دیا ہے۔ ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے پنجاب، ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے سندھ جبکہ کے پی کے، فاٹا وغیرہ نے چار کروڑ روپے اور بلوچستان نے 54 لاکھ روپے ٹیکس دیا ہے۔ فہرست پڑھی تو مجھے لگا کہ میں شاید پاکستان کا امیرترین انسان ہوں۔ میں نے سال بھر میں اپنی تنخواہ پر جو ٹیکس دیا ہے وہ صرف سات سینیٹرز سے کم ہے‘ باقی 93 سے زیادہ ہے۔ قومی اسمبلی میں 10 کے قریب ایم این ایز نے مجھ سے زیادہ ٹیکس دیا ہے۔ میرا ٹیکس ملک کے تین سابق وزرائے خزانہ سے زیادہ ہے۔ جب اس ملک کے وزیرخزانہ گوشواروں میں اپنے بیٹے کو 41 کروڑ روپے کا قرضہ حسنہ دکھائیں گے تو پھر کون ٹیکس دے گا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے اپنی جو آمدن ظاہر کر کے انکم ٹیکس دیا ہے وہ صرف 3 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ وزیر خزانہ نے جو منقولہ اثاثے دکھائے ہیں ان کی لاگت 55 کروڑ روپے ) نقدی( دکھائی گئی ہے جس میں سے انہوں نے 41 کروڑ روپے بیٹے کو قرضہ حسنہ دکھایا ہے‘ باقی دس کروڑ روپے بنک میں رکھوائے ہوئے ہیں‘ جس سے ملنے والے سود میں سے ایک کروڑ چیرٹی کو دے دیتے ہیں جب کہ ملک کے خزانے کو صرف 8 لاکھ روپے ادا کرتے ہیں جو مجھ سے کہیں کم ٹیکس بنتا ہے۔ یوں اسحاق ڈار سینٹ سے لے کر پریس کانفرنس تک ہر جگہ بار بار بتاتے ہیں کہ وہ چیرٹی
کو ایک کروڑ روپے ادا کرتے ہیں اور داد پاتے ہیں‘ مگر یہ نہیں بتاتے کہ وہ دراصل بنک میں پڑے دس کروڑ روپے سے ملنے والے سود میں سے ایک کروڑ روپے چیرٹی کو دیتے ہیں اور اگر آپ چیرٹی کو دیتے ہیں تو پھر آپ کو ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ اپنے منقولہ اثاثوں پر انہوں نے 0.5 فیصد ٹیکس ادا کر کے ستائیس لاکھ روپے ادا کیے ہیں اور ان اثاثوں میں سے 41 کروڑ روپے کا کیش انہوں نے بیٹے کو قرض حسنہ دکھایا ہے۔ یوں ان 41 کروڑ روپے کو بھی 0.5 فیصد کے حساب سے ادا کر کے کلیئر کر دیا گیا ہے۔
اب ذرا غور کریں کہ اگر اسحاق ڈار اپنے گوشواروں میں بیٹے کو 41کروڑ روپے کا ''قرضہ حسنہ‘‘ نہ دکھاتے تو انہیں ایک سال میں بنک میں پڑے دس کروڑ ملا کر کل 55 کروڑ روپے کیش پر کتنا ٹیکس دینا پڑتا؟ سمجھداری سے بیٹے کو بھی41 کروڑ روپے کا قرضہ حسنہ دکھا دیا ، بنک میں پڑے دس کروڑ روپے پر ملنے والے سود کو چیرٹی میں دکھا دیا اور ہمیں دکھا دیا کہ ان کی ماہنامہ آمدن صرف تین لاکھ روپے ہے!! مان لیتے ہیں اسحاق ڈار نے یہ سب کچھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا ہے اور کوئی غلط کام نہیں کیا‘ مگر پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اس ملک کا وزیرخزانہ جس کے پاس 55 کروڑ روپے کا کیش ہو، وہ ایسی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس میں سے صرف تین لاکھ روپے کی ماہانہ آمدن ہوتی ہے؟ اور وہ کیسے تین لاکھ روپے میں اپنا موجودہ لائف اسٹائل افورڈ کر پارہے ہیں؟
اپنی ہر دوسری تقریر میں چیرٹی کے نام پر ایک کروڑ روپے کا بار بار پرچار کرنے والے اسحاق ڈار اپنے کل نقد اثاثوں کی لاگت 55 کروڑ روپے دکھا کر بھی انکم ٹیکس کے نام پر صرف آٹھ لاکھ روپے دکھا کر قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کتنی ایمانداری سے نکل گئے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔