لاہور کے تاریخی چیئرنگ کراس پر پنجاب اسمبلی کے سامنے ہزاروں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا دھرنا48گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ سخت سردی کے شب و روز میں ان سخت جان محنت کش خواتین نے عزم و حوصلے کا عظیم مظاہرہ کیا ۔ پہلی شب پولیس نے دھاوا بول کر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی تاہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کی فولادی مزاحمت نے ریاستی حملے کو ناکام بنا دیا۔ پھر انتظامیہ نے دھرنا ختم کروانے کے لیے ''مذاکرات‘‘ کی چال چلنے کی کوشش کی۔ سول سوسائٹی کے کچھ ''خود ساختہ نمائندگان‘‘ نے بھی مصالحت کروانے کی کوشش کی لیکن محنت کش خواتین کی اکثریت نے جھوٹے وعدوں اور لاروں کی چالبازی کو مسترد کردیا۔ اس احتجاج کے دوران ان غریب خواتین کی تقاریر اور خود تخلیق کیے گئے بغاوتی نعرے مارکس کے کلاسیکی پرولتاریہ کی عکاسی کررہے تھے۔بالآخر حکمرانوں نے اس پر عزم احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے،لیڈی ہیلتھ ورکرز کی رکی ہوئی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 35کروڑ روپے جاری کردیئے اور وعدہ کیا کہ ان کی ملازمتوں کو مستقل کرنے کے لیے مارچ میں بل صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔اس احتجاج نے ثابت کیا کہ اگر آج کے جبرزدہ دور میں بھی پختہ عزم کے ساتھ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کی جائے تو وہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔
ملک کے حکمران طبقات مزدور طبقے کو کچلتے چلے جارہے ہیں۔ محنت کشوں کی اجرتوں میں سفاک کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔ مہنگائی اور افراطِ زر عام آدمی کی قوتِ خریدکوگھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ مستقل ملازمتوں کو ختم کرکے ٹھیکیداری نظام رائج کیا جارہا ہے۔ میڈیکل، اوور ٹائم اور پنشن جیسی بنیادی سہولیات اور مراعات چھینی جارہی ہیں۔ انتہا پسندوں اور دہشت گروں کی قتل و غارت گری کے ساتھ ساتھ یہاں ایک خاموش دہشت گردی بھی جاری ہے۔ یہ معاشی دہشت گردی ہے جو غربت، بھوک اور لاعلاجی کی شکل میں ہر روز ہزاروں محنت کشوں کو لقمۂ اجل بنارہی ہے۔ اس خاموش قتل عام کی خبریں میڈیا پر چلتی ہیں نہ ہی ٹاک شوز میں اس پر تجزیے اور تبصرے کیے جاتے ہیں۔ لیکن سرمائے کی اس یلغار کے رد عمل میں مختلف اداروں کے محنت کشوں کی مزاحمت بھی جاری ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش خواتین دوہرے جبر و استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ اس ملک میں محنت کرنے والے مردوں کی حالت زار دیکھ کر خوب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محنت کش خواتین کس قدرکربناک صورتحال سے دوچار ہوں گی۔ اس نظام نے امور خانہ داری میں صرف ہونے والی محنت کو خواتین کے ''فطری‘‘ فریضے کے طور پر پیش کر کے بے اجرت بنا دیا ہے۔ فیکٹریوں میں ملازمت کرنے والی خواتین سے لے کرگھروں میں کام کرنے والی ملازمائوں تک ظلم ، استحصال اور مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی اندوہناک داستانیں یہاں ہر روز منظر عام پر آتی ہیں۔ جہاں خواتین کے اوقات کار کے گھنٹے مردوں کی نسبت زیادہ ہیں اور محنت کا معاوضہ شرمناک حد تک کم ہے وہاں عزتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ خواتین ایک طرف مالیاتی سرمائے کا جبر سہ رہی ہیں تو دوسری طرف مردانہ تسلط یا ''میل شاونزم‘‘ کی نفسیات نے ان کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔دن بھر سرمایہ داروں، فیکٹری مالکان اور سیٹھ حضرات کے مظالم سہنے والے اکثر محنت کش مرد بھی اپنا غصہ گھریلو تشدد کے ذریعے خواتین پر ہی نکالتے ہیں۔
حکمرانوں کا خیال ہے کہ مزدور طبقہ مستقل طور پر پسپا ہوچکا ہے۔ جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت زوال پذیر ہے وہاں اس کا فلسفہ، سوچ اور دانش بھی اندھی اور متروک ہوچکی ہے۔ سماج میں تغیر اور تبدیلی کا عمل غیر محسوس طریقے سے ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ جہاں طبقات موجود ہوں وہاں طبقاتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ طبقاتی تضاد بعض اوقات ماند تو پڑ سکتا ہے لیکن کبھی مٹ نہیں سکتا ۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی حالیہ جدوجہد طبقاتی کشمکش کے ایک بڑے طوفان کا پہلا جھونکا ہے۔ محنت کش خواتین جب کسی تحریک میں یکجا ہوکر حکمرانوں اور ریاست سے ٹکراتی ہیں تو بڑوں بڑوں کی ''مردانگی ‘‘ماند پڑ جاتی ہے۔
پورے پنجاب سے چیئرنگ کراس پر جمع ہونے والی لیڈی ہیلتھ ورکرزکے مطالبات بالکل واضح تھے ۔ یہ خواتین مستقل ملازمتوں اور پچھلے پانچ ماہ سے نہ ملنے والی تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کررہی تھیں۔ان ہزاروں محنت کش خواتین کی پانچ ماہ کی مجموعی اجرت حکمرانوں کی ایک روز کی عیاشیوں پر آنے والے اخراجات سے یقینا بہت کم ہوگی۔اس قلیل تنخواہ سے ہزاروں گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔شرمناک حد تک کم اجرتوں کے باوجود لیڈی ہیلتھ ورکرز سے وہ کام بھی لیے جاتے ہیں جو ان کی ڈیوٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ مثلاً یہی خواتین اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر گھر پولیو کے قطرے پلاتی ہیں۔ اگر سرکاری اداروں میں اوور ورک اور اجرتوں کی ادائیگی کا یہ عالم ہے تو نجی شعبے کے سرمایہ داروں کا محنت کشوں، خاص طور پر خواتین سے سلوک کتنا بھیانک ہوگا!
حکمران طبقہ جہاں محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینے کے درپے ہے‘ وہاں اس نظام کے بحران نے حکمرانوں کے باہمی ٹکرائو کو بھی شدید ترکردیا ہے۔ حکمران سیاست دانوں کی ان لڑائیوں اور بحث و تکرار کے دوران ان کے منہ سے بے خبری میں ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں جو سرمائے کی آمریت پر چڑھے جمہوریت کے لبادے میں چھید کر ڈالتے ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں انتہائی دائیں بازو کے دو سیاستدانوں عمران خان اور راجہ ظفرالحق کے بیانات نے حکمران طبقے کی سوچ اور حاکمیت کے طریقہ کار کو بے نقاب کیا ہے۔ عمران خان نے الفاظ کے ہیر پھیر سے کام لینے کے بجائے واضح طور پر کہا کہ سینیٹ کی نشستیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اس بیان کے رد عمل میں تمام پارٹیوں نے مشترکہ طور پر خان صاحب کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروا دی ہے۔ سیاسی حلقوں میںمچنے والی اس ہلچل سے خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے کڑوے سچ کی ضرب حکمرانوں کوکس نازک مقام پر لگی ہے۔
دوسری طرف جنرل ضیاء الحق کے مرید خاص راجہ ظفرالحق نے کہا ہے کہ ''اگر محنت کشوں کے لیے پارلیمنٹ میں نشستیں مخصوص کردی گئیں تو ڈرائیور، کلینر اور نہ جانے کون کون سے طبقات اٹھ کر آجائیں گے‘‘۔ یہ صرف راجہ ظفرالحق کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ دولت کی اس سیاست پر براجمان تمام پارٹیوں اور سیاستدانوں کی بنیادی نفسیات ہے۔ ویسے طبقاتی نظام کی اس جمہوریت میں محنت کش طبقے کا اقتدار کے ایوانوں میں داخلہ کم و بیش ناممکن ہوتا ہے۔ محنت کشوں کا کوئی نمائندہ اگر ایک بالشویک پارٹی کے سخت گیر ڈسپلن کے تابع نہ تو پارلیمنٹ میں پہنچ کر اس کے بک جانے کے امکانات حاوی رہتے ہیں۔ اس کی یہ غداری پورے محنت کش طبقے کے دامن پر ذلت کا دھبہ بن جاتی ہے۔ مزدوروں کو بحیثیت طبقہ مجرم بنا کر لالچی اور نیچ ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے رائج سیاسی اور ریاستی ڈھانچوں کی حدود میں محنت کش طبقہ کبھی اقتدار میں آکر انقلابی تبدیلی برپا نہیں کرسکتا۔ یہ انقلابیوں کا فریضہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی سیاست، جمہوریت اورریاست کے فریب کو محنت کشوں کے سامنے بے نقاب کریں۔ 1987ء میں بریڈ فورڈ نارتھ سے ''پارلیمانوں کی ماں‘‘ یعنی برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہونے والے کامریڈ پیٹ وال نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ''میں اس ایوان کا حصہ بننے کے لیے یہاں منتخب ہوکر نہیں آیا ہوں۔ میرا پہلا اور آخری مقصد اپنے ووٹروں اور محنت کش طبقے کے سامنے اس ایوان کے فریب، دھوکے اور عیاری کو بے نقاب کرنا ہے‘‘۔
یہ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی جمہوریت ہے۔ یہ بالادست طبقہ بھلا مزدوروں اور غریبوں کی آوازکیوں اٹھائے گا؟ استحصال کرنے والی اس قلیل اقلیت کے مفادات استحصال سہنے والوں کی وسیع اکثریت سے متضاد ہیں۔ یہ اس طبقاتی سماج کا بنیادی ، حتمی اور آخری تضاد ہے جسے چھپانے کے لیے جعلی تعصبات اور تضادات ابھارے اور ٹھونسے جاتے ہیں ، لیکن حکمرانوں کی یہ جعل سازی آخرکب تک چل سکے گی؟ وہ وقت بھی آتے ہیں جب محنت کش طبقہ حکمرانوں کی مسلط کردہ سوچ، نفسیات اور تعصبات کو جھٹک کر تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں۔ وہ یکجا ہو کر طبقاتی جنگ کے میدان میں اترتے ہیں اور حکمرانوں کے نظام کو پاش پاش کرکے اس لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔
میر تقی میرؔ نے کہا تھا:
امیر زادوں سے دہلی کے، مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے