تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-02-2014

جنیوا کانفرنس کی ناکامی

جیسا کہ متوقع تھا شام کے بارے میں جنیوا کانفرنس دوئم ناکام ہو گئی۔ صرف اتنی سی اشک شوئی دونوں فریقوں نے ایک دوسرے سے ضرور کی ہے کہ وہ تیسری مرتبہ ملنے کے مخالف نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شام کی خون آشام خانہ جنگی جو تین سال مکمل کر چُکی ہے اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ انسانوں کو لقمۂ اجل بنا چُکی ہے‘ وہ جاری رہے گی۔ تباہی اور منفی اثرات کے اعتبار سے یہ جنگ اب افغانستان سے خاصی مشابہت رکھتی ہے جس طرح افغان جنگ کے شعلے تمام حرارت کے ساتھ پاکستان میں آ رہے ہیں اسی طرح شام کی جنگ نے ترکی عراق اور لبنان کی مختلف قوتوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔
عالمی سطح پر یہ جنگ روس اور امریکہ کے درمیان غائبانہ جنگ Proxy Warکا روپ دھار رہی تھی۔چند ماہ پہلے جب روس نے شامی حکومت کو کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے پر آمادہ کر لیا تو امریکہ نے فیصلہ کیا کہ شام پر اب ہاتھ ہولا رکھا جائے۔ یہ روسی سفارتکاری کی بڑی فتح تھی۔ روس نے کمال ہوشیاری سے دمشق میں اپنی چہیتی حکومت کو بچا لیا۔امریکی عسکری دخل اندازی کا خطرہ ٹل گیا۔شامی اپوزیشن بددل ہو گئی۔ ادھر ایران اور عراق کے راستے القاعدہ والے شام میں بڑی تعداد میں جمع ہو گئے۔بشار الاسد کی حکومت امریکہ اور اُس کے حلیفوں کو اب یہ سمجھا رہی تھی کہ تمہیں بعث پارٹی کی حکومت اور القاعدہ کی حکومت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں اسرائیل نے امریکہ کو مشور ہ دیا کہ ہمارے لیے بعثی ہی بھلے ۔
شام کے بارے میں پہلی جنیوا کانفرنس جون 2012ء میں ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ شام میں انتقالی(عبوری) حکومت بنے گی۔ لیکن اس دفعہ جنیوا میں شامی حکومت کے تیور کچھ اور تھے۔اب صدر بشار الاسد تیسری صدارتی ٹرم کی باتیں کر رہے ہیں۔طاقت کا نشہ بھی کیا چیز ہے۔ڈیڑھ لاکھ جانیں گئیں مگر بشار مزید حکومت کرنا چاہ رہے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں جنگ میں سرکاری فوج کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔طرفین میں سب سے واضح فرق تو فضائی قوت کا ہے جو صرف حکومت کے پاس ہے۔پچھلے دنوں شام کی فضائیہ نے حلب شہر اور اس کے اردگرد ہیلی کاپٹر سے بیرل بم برسائے ہیں جن سے بہت تباہی ہوئی ہے۔اور اب دیکھتے ہیں کہ جنیوا دوئم کی ناکامی کی اور وجوہ کیا ہیں۔حکومت اس مرتبہ مذاکرات کے بارے میں خاصی غیر سنجیدہ نظر آئی۔کانفرنس جاری تھی کہ شامی اپوزیشن کے ٹھکانوں پر حملے تیز ہو گئے۔کانفرنس کے دوران مزید چھ ہزار شامی مارے گئے۔ اور حکومت نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کانفرنس میں شریک شامی اپوزیشن کے لیڈروں کے نام دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈالنے کا اعلان جنیوا کانفرنس کے دوران ہی کر دیا۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مذاکرات کو حکومت صرف بین الاقوامی رائے عامہ 
کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اصل مقصد فوجی قوت سے بغاوت کو دبانا ہے۔
مشہور الجزائری سفارت کار جو اب خاصے بزرگ ہو گئے ہیں‘ کانفرنس کی ناکامی کے بعد خاصے مایوس نظر آئے۔ انہوں نے شامی عوام سے باقاعدہ معافی مانگی اور کہا کہ کانفرنس کے نتائج آپ کی امیدوں کے برعکس نکلے۔یادش بخیر یہی الاخضربراہیمی افغانستان کے لیے بھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندہ رہے ہیں دراصل حکومت اور اپوزیشن کا ذہنی ایجنڈا بالکل مختلف تھا۔ حکومت کے وفد کا کہنا تھا کہ سب سے اہم نکتہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے اور شامی حکومت برسر عام اپوزیشن کو دہشت گردوں کا ٹولہ کہتی ہے۔اپوزیشن کا اصرار تھا کہ سب سے اہم امر انتقالی حکومت کا قیام ہے۔ الاخضربراہیمی نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں نکات کو علیحدہ علیحدہ پورا پورا دن ڈسکس کیا جائے۔لیکن نتیجہ پھر بھی صفر نکلا۔
حقیقت یہ ہے کہ شامی جنگ ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان پراکسی وار کا روپ دھار چکی ہے۔ نقصان سراسر شامی عوام کا ہو رہا ہے۔ اس وقت نوے لاکھ شامی یا اپنے ملک کے اندرہی دربدر پھر رہے ہیں یا ترکی اردن اور لبنان چلے گئے ہیں۔اس سال ترکی شام اور لبنان میں برف باری معمول سے زیادہ ہو ئی ہے ۔چھوٹے چھوٹے بچوں نے ان خیمہ بستیوں میں کس طرح غذائی قلت اور یخ بستہ ہوائوں کا مقابلہ کیا یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن جدید ٹیکنالوجی کا کمال کہئے یا عذاب یہ پھول جیسے بچے روزانہ ٹی وی سکرین پر دیکھنے پڑے اور اِن پھولوں کے ہر طرف برف ہی برف تھی ۔کیا یہ ممکن ہے کہ اگلے موسم سرما سے پہلے یہ مہاجرین اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔سچ پوچھیں تو میں پُر امید نہیں ہوں ۔
روس واضح طور پر شامی حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے۔چین بھی طاقت کے ذریعہ حکومت ہٹانے کے حق میں نہیں۔ایران نے بھی کھل کر شامی حکومت کی حمایت کی ہے۔لبنان سے حزب اللہ ملیشیا کی عسکری مدد سے شامی حکومت کو بہت تقویت ملی ہے۔ صدر اوباما اور اپوزیشن کے حامی مغربی ممالک کے لیے شام ایک عسکری اور سیاسی معمہ بن چُکا ہے۔ روس نے واضح طور پر ثابت کیا ہے کہ وہ یاروں کا یار ہے۔سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد روس ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی طاقت کے طور پر ابھرا ہے جبکہ امریکی حکومت کے لیے داخلی امور مثلاً اقتصادی حالات زیادہ اہم ہیں۔ خلیجی ممالک شامی اپوزیشن کے ساتھ ہیں لیکن وہ بہر صورت یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ اگلی صف میں ہو اور امریکہ خاصی حد تک متذبذب نظر آتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس خونیں مشکل کا حل کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ جاری رہنا چاہئیں۔ اپوزیشن کی مشکل یہ ہے کہ اس کی صفوں میں اتحاد کی بھی کمی ہے اور اس کے پاس کوئی مقناطیسی شخصیت والا لیڈر بھی نہیں جو سب کو اکٹھا کر سکے۔حکومت اس صورتحال کا خوب فائدہ اٹھا رہی ہے۔میرے خیال میں شام میں کسی ممکنہ حل کے لیے چار ملک بے حد اہم ہیں اور وہ ہیں امریکہ روس سعودی عرب اور ایران۔مثلاً اگر یہ ملک باہم یہ فیصلہ کر لیں کہ شامی حکومت اور اپوزیشن کو اسلحہ کی فراہمی کو روکنا ہے تو لڑائی کی شدت خاصی کم ہو سکتی ہے۔اسی طرح سے اگر سلامتی کونسل یہ قرار داد پاس کر سکے کہ شام کی فضا میں کوئی طیارہ پرواز نہیں کرے گا تو جہازوں سے بمباری ختم ہو سکتی ہے۔لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ آیا روس اس قسم کی قرار داد کی حمایت کرے گا۔ مصر کی صورت حال غیر مستحکم ہے۔شامی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔عراق جو ایک زمانے میں طاقتور ملک تھا‘ اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔پاکستان خود ورطے کی حالت میں ہے۔ تو خطے میں اس صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ کسے ہے میرے خیال میں ایک اسرائیل کو اور دوسرے بھارت کو۔ ایران سعودی عرب اور تمام اسلامی ممالک کو اس خطرناک صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved