تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     20-02-2014

جتن کرو کجھ دوستو‘توڑو موت دا جال

اچھا شعر اپنے اندر مسیحائی خصوصیات رکھتا ہے۔کسی اچھے دوست کی طرح اداس لمحوں کی اداسی کو شیئر کرتا ہے‘ مشکل اور کٹھن وقت میں زندگی کے کھردرے پن کوکم کرتا ہے‘ ذہن اور روح بوجھل ہو تو ایک تھراپسٹ کی طرح درد کی شدت کوکم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ سمجھاتا ہے‘ نصیحت کرتا ہے اور روشنی کی کوئی کرن سوچ کے آنگن میں بکھیر دیتا ہے۔ یوں نااُمیدی میں امکان کا کوئی دروازہ کھل جاتا ہے۔ شاعری کی اس خوب صورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے انسان کا صاحبِ ذوق ہونا شرط ہے۔ یہ بھی شعر ہی کی خوبی ہے کہ وہ مضامین جنہیں بیان کرنے کو نثر میں صفحات چاہئیں‘ اچھا شعراس مضمون کو دو مصرعوں میں بیان کر دیتا ہے۔ اسی لیے برمحل اشعار کا استعمال نثرکو دلکشی عطا کرتا ہے۔ 
منیر نیازی کو پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ اخباری کالموں میں غالباً سب سے زیادہ کوٹ (Quote)ہونے والا شاعر منیر نیازی ہے‘ مثلاً ؎
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ! 
پاکستان کی صورت حال کو اس شعر سے زیادہ بہتر شاید ہی بیان کیا جا سکے ۔ منیر نیازی ہی کا ایک اور شعر جو کالموں میں بہت استعمال ہوتا ہے وہ بھی پڑھ لیجیے ؎
میری ساری زندگی کو بے ثمر آس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
اچھاشعر اپنے اندر معانی کے کئی جہان رکھتا ہے۔ مثلاً کوئی نظم یا شعرکالج اور یونیورسٹی کے دور میں پڑھا تو اُس کے معنی اور تھے‘ اب جب زندگی اتنے مراحل طے کر آئی ہے تو اسی نظم یا شعرکو دوبارہ پڑھیں تو معنی کے نئے درکھلنے لگتے ہیں۔ یہ شاعری ہی کا اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے انفرادی پہلوئوں سے لے کر اجتماعی مسائل و معاملات تک مختلف کیفیات کا اظہار بعض اوقات ایک ہی نظم بہت خوب صورتی سے کرتی ہے۔ جیسے منیر نیازی کی بارہا پڑھی ہوئی پنجابی کی نظم ''ہونی دے حیلے‘‘ پڑھی تو لگا کہ یہ حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی پر ابھی کہی گئی ہے۔ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات آغاز سے ہی خدشوں اور وسوسوں کا شکار تھے۔ بہت سے حلقہ ہائے فکرکا کہنا تھاکہ مذاکرات سے امن کا حصول فی الوقت دکھائی نہیں دیتا۔ مذکرات کے دوران طالبان کے پے درپے حملوں میں کتنی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
مذاکرات کے آغاز سے حالیہ پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک تک شاید ہی کوئی دِن ایسا گزرا ہو جب ملک میں دہشت گردی کا کوئی بڑا سانحہ نہ ہوا ہو‘ یہ اور بات کہ کالعدم تحریک طالبان اس دوران ہونے والے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی۔ چاردِن پہلے مہمند ایجنسی کے طالبان کی طرف سے ایف سی کے 23 مغوی اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کرنے کے اعلان نے دونوں کمیٹیوں کے درمیان بات چیت کے سلسلے کو روک دیا ہے۔ آپریشن کے لیے اب عوامی رائے عامہ بھی ہموار ہو رہی ہے۔ ہماری ناقص رائے یہی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اب حکومت کے لیے دوسرے ٹھوس آپشن پر صرف غور کرنا ضروری ہو گیا ہے بلکہ یہی وقت عملی قدم اٹھانے کا ہے۔
اس تمام صورت حال کے تناظر میں منیر نیازی کی بے مثال پنجابی نظم کو پڑھیے اور دیکھیے ، کیسے اس نظم کا ایک ایک مصرع موجودہ صورت حال کو بیان کرتا ہے ؎
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی
ایہہ گلّاں ھن کرن دیاں نئیں
ویلے لنگھ گئے ہُن توبہ والے
راتاں ہُن ہوکے بھرن دا نئیں
جو ہویا او تے ہونا ای سی
تے ہونیاں روکے رُکدیاں نئیں
اِک واری جد شروع ہو جاوے 
تے گل فیر ایویں مُکدی نئیں
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
''شہر دے لوک‘‘کا استعارہ اُن عالمی طاقتوں کے لیے بھی ہے جنہوں نے اپنے مفاد کے لیے اسلامی ملکوں خصوصاً پاکستان‘سربیا اورافغانستان میں'اسلامی انتہا پسندوں‘کا بت تراشا پھر ہمارے رہنمائوں کے تاریخی غلط فیصلوں نے اپنی سرزمین پر ہی امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیا۔ جنرل ضیاء بھی اسی خوش فہمی کا شکار ہو گئے کہ وہ افغانستان سے سوویت فوجیوں کو نکالنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستان کا اثر و رسوخ افغانستان ‘ ازبکستان اور تاجکستان تک بڑھا سکیں گے ، اس مقصد کے لیے اسلامی فیکٹر اور مسلم امہ کا تصور غلط انداز میں استعمال کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور اس دور میں جو پیسہ اور ہتھیار یہاں آئے‘ اسی نے طالبان کو جنم دے کر اس دھرتی پرایک عذاب کی بنیاد رکھی۔
اب صورت حال اتنی گمبھیر اور پیچیدہ ہو چکی ہے کہ اس کے حل کے لیے ٹھوس اور صحیح راستے کا انتخاب پاکستان کی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ مشرف دورکے فیصلوں نے پاکستان میں خودکش دھماکوں کے خوفناک کلچرکو جنم دیا۔ زرداری حکومت نے دہشت گردی کے ناسور سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی ٹھوس کوششیں نہیں کیں باوجود اس کے کہ ان کی لیڈر بے نظیر بھٹو بھی اسی دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت کی کوششوں کو سراہنا چاہیے جو اپنے تئیں دہشت گردی اور طالبانائزیشن کے پیچیدہ مسئلے کو سلجھانے کے لیے مخلص نظر آتی ہے۔
خودکش دھماکے‘ معصوم عوام کا قتل‘ جسموں کے پرخچے‘ بارود کی آگ ‘ جھلستے ہوئے انسان‘ لہو لہو منظر‘ آہ و بکا‘ ایمبولینسوں کے سائرن‘ خوف وہرا س کی فضا۔۔۔ عوام یہ سب سہ کر تھک چکے ہیں ۔ بقول منیر نیازی ؎
سر تے گھپ ہنیر تے دھرتی اُتے کال
پیریں کنڈے زہر دے لہو وِچ بھجے وال
جتن کرو کجھ دوستو توڑو موت دا جال 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved