تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-02-2014

کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی؟

اقبالؔ نے کہا تھا ؎
تھا جو نا خوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا 
کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کا ضمیر
کیا تعصبات کی یورش اور جنون کی فراوانی بھی اسی المیے کو جنم دیتی ہے ؟ 
معتبر انگریزی اخبار کے مطابق بتدریج وزیراعظم اور سپہ سالار کے درمیان مثالی تعلقات استوار ہوچکے ۔ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ایف سی اہلکاروں کی بہیمانہ شہادت کے بعد وزیراعظم نے جنر ل کو طلب کیا اور اہم فیصلے صادر کیے۔ دل و دماغ میں تشکر کی لہر اٹھی۔ جنرل کیانی نے جس اندازِ فکر کی اساس رکھی ،تحمل اورریاضت سے جس کی آبیاری کی، بالآخر اس پہ برگ و بار ہے ۔ کچھ سوالات نے مگر پریشان کیے رکھا۔ 
وزیراعظم کا ایک قریبی اخبار نویس مسلسل اور متواتر افواج اور منتخب حکومت کے درمیان تنازعہ پیدا کرنے پر کیوں تلا ہے؟ چلّا کر اس نے کہا: وزیراعظم کے سامنے تو وردی والے ہاںمیں ہاں ملاتے ہیں مگر اس کے بعد یکسر مختلف روّیہ ۔ کون سا روّیہ ؟ کیا وہ اپوزیشن کو بھڑکاتے ہیں ؟ یا سول حکومت کے خلاف سازش کا جال بنتے ہیں ؟ 
کیا یہ عسکری قیادت ہے ، جو پہاڑ ایسی غلطیوں کے باوجود بالآخر پورے عزم کے ساتھ اصلاح اور تعمیر کے راستے پر گامزن ہے یا سیاستدان اور صحافی،جو حقائق کو نظر انداز کرتے اور افواہوں پر تجزیوں کی عمارت اٹھاتے ہیں ۔مثلاً میاں محمد شہبازشریف کی طرف سے دشمن کی سرزمین پر دیا جانے والا ایک بیان : پاکستان 
اور بھارت کی سول حکومتیں تو تجارت بحال کرنے کی آرزومند ہیں مگرافواج رکاوٹ۔ کون سی رکاوٹ؟ سیاچن پر قبضے، پاکستان کے لیے پانی کی بندش، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں خوں ریزی پر تُلے عناصر کی مسلسل امداد اور کشمیر کی سرحد پر پیہم بمباری ۔ جنرل کیانی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے پر آمادہ ہیں ۔ بھارتی فوج کے سربراہ اپنی سینا کے اجتماعات میں آگ اگلتے رہے ۔ اسی کے ایک سابق سربراہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں تخریب کاری کے لیے خفیہ دستے بنائے گئے ۔ اپنی فوج کے نقّاد پاکستانی مفکربرہمن کے خلاف زبان تک نہیں کھولتے ۔
ایک اعلیٰ کمانڈر سے ناچیز نے سوال کیا کہ چوہدری نثار اور میاں شہباز شریف الیکشن سے قبل بار بار جی ایچ کیو کا طواف کرنے آئے ۔ کیا آپ لوگ اتنی سی بات انہیں سمجھا نہ سکے کہ عسکری معاملات پر اظہارِ خیال میں احتیاط کی کچھ ضرورت ہوتی ہے ۔ رنج کے ساتھ انہوں نے کہا : صورتِ حال کی وضاحت کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ 
قومی محافظوں پر بدترین یلغار تب ہے ، جب ایک طرف وہ تلافی کے لیے پرعزم ہیں اور دوسری طرف تاریخ کی سب سے بڑی قربانی پر آمادہ ۔ سیاچن کی بلندیوں اور سوات کی وادیوں میں کیسی کیسی کہانیاں جاں بازوں کے لہو نے لکھ دی ہیں ۔ مولوی فضل اللہ نے جنرل ثنا ء اللہ نیازی کو شہید کرنے کے بعد جشن منانے کا حکم دیا۔اس کا حال بھی کسی باخبر نے لکھا ہوتا۔تہجد گزار سیّد منور حسن کو ان لوگوں پر ذرا سی تنقید میں بھی تامل ہوتاہے لیکن اپنے محافظوں کے عیب گنتے ہیں تو وہ محاورہ یاد آتاہے : دوسروں کی آنکھوں کا تنکا دیکھنے والوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔ تازہ ترین خطاب میں سیّد صاحب نے ارشاد فرمایا: طالبان کے بوڑھوں ، بچوں اورعورتوں کو قید میں ڈالے رکھنا کون سی شریعت ہے ؟ کون سی عورتیں ؟ کون سے بچے اور کون سے بوڑھے ؟ کم عمر لڑکوں کو خود کش حملوں پر مجبور کرنے والے اتنے معتبر کیسے ہو گئے کہ ان کی ہر بات پر یقین ہو ، ان کے حق میں واویلا کیا جائے ؟ کوئی نام ؟ کوئی پتہ ؟ کوئی جیل ؟ کوئی کیمپ؟ کسی بھی پاکستانی یا غیر ملکی اخبار یا ٹی وی پر کوئی ایک چھوٹی سی خبر؟ طالبان کی حمایت پر پیہم تلے صحافیوں کی کسی خبر ، کسی تجزیے ، کسی کالم یا کسی نشریے میں کبھی کوئی برائے نام سا ذکربھی؟ بدگمانی قلب و دماغ کو چاٹ لے تو پیکر سائے ہوجاتے ہیں اور سائے پیکر۔ پاکستانی فوج اس طرح کی حرکتوں پر اتر آئے تو بدنامی اور رسوائی کے سوا اسے کیا ملے گا؟ اپنی قوم کے سامنے اور خود اپنی صفوں میں ؟ سیّد صاحب خود اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل ایسے ہیں کہ اس قدر سفّاکی کا حکم صادر کریں؟ کیا پاک فوج کے فرزند طالبان کے سے وحشی اور درندے ہیں کہ قبروں میں سے لاشیں نکال کر لٹکائیں ۔ اپنے ہاتھوں سے جیتے جاگتے انسانوں کو ذبح کریں ۔ حتیٰ کہ قیدیوں کو ؟ کیا وہ مساجد ، مارکیٹوں اورمزارات پر بم برسانے والوں ایسے پتھر دل ہیں ؟ 
خدمتِ خلق کے میدان میں جماعتِ اسلامی کی خدمات بے حساب ہیں ۔ اس کے فیصلوں اور اندازِ فکر سے اختلاف مگر حبّ الوطنی پر کوئی شبہ ہے نہ بے حیائوں کے سوا اس کی قیادت پر لوٹ مار کا الزام کوئی لگا سکتاہے ۔ ان لوگوںکو مگر ہوا کیا ہے کہ دہشت گردوں کے ہر بیان پر آنکھیں بند کر کے وہ ایمان لاتے ہیں اور خودان کے جرائم پر گنگ۔ ایک صحافی کو جماعت کے مرحوم امیر کی نصیحت یاد آتی ہے ۔ ہزاروں ایکڑ زمین ہتھیا لینے والے مذہبی لیڈر کو بے نقاب کیاگیا تو انہیں صدمہ پہنچا ۔ دینی رہنمائوں کی شہرت انہیں بہت عزیز ہے، دین بھی ؟ دین کے اصول بھی ؟ جماعتِ اسلامی کی مجلسِ عاملہ کو ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنی چاہیے، جو طالبان کے حالیہ الزامات کی تحقیق کرے ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے ۔ قوم کو بھی خبر ہو کہ کس کس کی مہر ہے ، سرِ محضر لگی ہوئی ؟ پروفیسر خورشید احمد کے ا نسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کی نگرانی میں ایک کمیشن قائم کیا جائے، جو افواجِ پاکستان اور طالبان پر عائد کیے جانے والے الزامات کی تحقیقات کرے ۔ قوم کو راہ دکھائے کہ جماعتِ اسلامی کی قیادت سمیت ہم سب تاریکی میں بھٹک رہے ہیں ۔
تحریکِ انصاف کے بعض لیڈروں نے طالبان کا دفاع کرنے سے انکار کر دیاہے ۔ ٹی وی سے وہ گریز کرنے لگے ہیں ۔ صاف صاف وہ کہتے ہیں کہ قاتلوں کی وکالت وہ نہیں کر سکتے ۔ جماعتِ اسلامی اس دن سے ڈرے ، جب وہ ایسے ہی کسی بحران کا شکار ہو۔ کس آسانی سے انہوں نے فراموش کر دیا کہ وہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعت ہیں‘ خوف جن کی کھال میں داخل نہ ہو سکتا تھا اور گاہے جو بدترین حالات میں مصلحت سے اوپر اٹھ سکتے تھے ۔ کس قدر آسانی سے انہوں نے سری نگر کے مقتل میں کھڑے سید علی گیلانی کو بھلادیا، جن کا کہنا ہے کہ طالبان پاکستان کی جڑیں کھود رہے ہیں ۔ رہے پرویز رشید تو شریعت سے انہیں کیا واسطہ ؟ ایک سال پہلے اس ناچیز نے عرض کیا تھا کہ 45سال کی سیاسی زندگی میں قائدا عظم ، اقبال یا تحریکِ پاکستان کی حمایت میں کبھی ایک جملہ بھی انہوں نے ارشادکیا ہو تو ازراہِ کرم یاد دلا دیں۔ اللہ دیکھ رہا ہے اور اس کے بندے بھی ۔ ایک دن سبھی کا حساب ہو گا۔ اِس دنیا میں بھی ، اُس دنیا میں بھی ۔اقبالؔ نے کہا تھا ؎
تھا جو نا خوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا 
کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کا ضمیر
کیا تعصبات کی یورش اور جنون کی فراوانی بھی اسی المیے کو جنم دیتی ہے ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved