تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     22-02-2014

یوکرائن میں آخر ہو کیا رہا ہے؟

یوکرائن میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری انتشار اب خانہ جنگی کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بدھ کے روز مظاہرین اور پولیس کے درمیانتصادم میں25 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ مشرقی یورپ کا یہ ملک آج کل مغربی میڈیا کی شہ سرخیوں کا عنوان بنا ہوا ہے ؛ تاہم عرب انقلابات کی طرح کارپوریٹ میڈیا نے یوکرائن کے حالات وواقعات کی رپورٹنگ میں بھی مغربی سامراجی قوتوں کے مفادات کے مطابق کھلی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ عام حالات میں عوام واقعات کی گہرائی میں جا کر چھان بین کیے بغیر میڈیا کا موقف تسلیم کرلیتے ہیں لیکن یوکرائن کے معاملے میں دوسرے ممالک کے لوگوں میں کافی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ پیٹرک کاکبرن نے ''انڈی پینڈنٹ‘‘ میں چھپنے والے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ''یوکرائن کا معاملہ ترکی یا تھائی لینڈ سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یوکرائن کے مظاہرین امریکہ اور یورپی یونین سے پشت پناہی کی توقع کر سکتے ہیں جبکہ حکومت روس سے مدد کی امید لگا سکتی ہے۔ مغربی ٹیلی وژن چینلوں اور اخباروں نے حالیہ فسادات کو یوکرائن کے ''عوام‘‘ اورجابر حکومت کا باہمی تنازع بناکر اپوزیشن کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ مظاہرین کے دوست مغربی میڈیا کے پاس شاید وقت نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں بیرونی قوتوں کے پیچیدہ کردار یا یوکرائنی اشرافیہ کی باہمی چپقلش پر روشنی ڈال سکے۔ یورپ میں امریکہ کی سب سے اہم سفارتکار وکٹوریہ نولینڈ اور یوکرائن میں امریکہ کے سفیر گیوف پیاٹ کی لیک ہونے والی فون کال میں ''یورپی یونین بھاڑ میں جائے‘‘ کے الفاظ کو خاص پزیرائی ملی ہے۔ ان سینئر امریکی اہلکاروں کی گفتگو سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یوکرائن کے مستقبل کا فیصلہ وہ کریں گے۔
مغربی میڈیا پر یورپی یونین کے حامی مظاہرین کو''پُرامن‘‘ اور'' عدم تشدد پسند‘‘ ظاہر کیا جارہا ہے جو سراسر جھوٹ ہے۔ ''پراوی سیکٹر‘‘ جس کی قیادت میں یہ مظاہرے ہورہے ہیں، دائیں بازو کی ایک فاشسٹ سیاسی جماعت ہے۔ حالیہ مظاہروں میں اس جماعت کے حامیوں نے بائیں بازو کے سیاسی کارکنوںاور ٹریڈ یونین رہنمائوں پر جان لیوا حملوں سے لے کر عمارات کو آگ لگانے تک، تشدد اور جلائو گھیرائو کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔7دسمبر کو پراوی سیکٹر کے کارکنوں کی جانب سے ولادیمیر لینن کے مجسمے کی مسماری سے ان کی نفسیات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ فاشسٹوں کی جانب سے دنگا فساد میں اب شدت آتی جارہی ہے۔ 16جنوری کو یوکرائنی پارلیمنٹ کی جانب سے مظاہروںکے خلاف پاس ہونے والے قانون کے بعد واقعات نے نیا رخ اختیارکرلیا ہے۔
یوکرائن کے یورپی یونین کے ساتھ الحاق کا مطالبہ دراصل سوویت یونین کے انہدام کے بعد گزشتہ بیس برسوں کے دوران پنپنے والی مافیا سرمایہ داری،کرپٹ حکمران طبقے اور بد ترین معاشی حالات کے خلاف مڈل کلاس کے غم وغصے اور بے چینی کا مسخ شدہ اظہار ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف یوکرائن (CPU)کی موقع پرستی اورانقلابی سوشلزم کے نظریات سے انحراف اور سیاسی افق پر بائیں بازو کے متبادل کی عدم موجودگی نے سماج کی پسماندہ پرتوں میں فسطائیت اوردائیں بازوکی رجعتی قوتوں کی مقبولیت کے لیے سازگار حالات فراہم کیے ہیں۔گزشتہ دودہائیوںکے دوران کارپوریٹ میڈیا اورسامراجی دانشوروں کی جانب سے کمیونزم کے خلاف کیا جانے والا زہریلا پراپیگنڈااور یوکرائنی انسرجنٹ آرمی (دوسری جنگ عظیم میں یوکرائن پر قبضے کے دوران نازی جرمنی کی جانب سے پیدا کی گئی یوکرائنی قوم پرست فاشسٹ فوج) کے بارے میں لکھے جانے والے قصیدے بھی حالیہ ابھار کی وجوہات میں شامل ہیں۔
یوکرائن کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں تفریق کو بھی ابھارا جارہا ہے۔ کیا یوکرائن تقسیم ہوسکتا ہے؟ یہ منصوبہ اس تنازعے میں شریک تمام سامراجی اور علاقائی قوتوں، مغربی سامراج، روس، یوکرائنی فاشسٹوں حتیٰ کہ صدر وکٹرینوکووچ کے مفادات میں ہے۔ یوکرائن کی تقسیم سامراج اور مقامی حکمران طبقے کا تاریخی جرم ہوگا جس سے اس ملک کے عوام کا معیار زندگی اور بھی گر جائے گا۔ 
آنے والے دنوں میں روس اور یورپی یونین کا بڑھتا ہوا معاشی بحران یوکرائن کی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کرے گا۔ اکتوبر 2013ء سے جنوری 2014ء تک روسی روبل کی قیمت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ پیوٹن حکومت سوویت دورکی بچی کھچی مراعات اور سہولیات بھی عوام سے چھین رہی ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں روسی عوام کی قوت خرید میں 30فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ حکومتی اخراجات میں کٹوتیوں اور WTO کے ایما پرکی جانے والی نجکاری کا نتیجہ ہے ؛ تاہم روسی معیشت کی بری حالت کے باوجود صدر پیوٹن نے خطے پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے حال ہی میں یوکرائن کو 15ارب ڈالر کا قرضہ دیا ہے۔
اس معاملے میں یورپی حکمران اپنی روایتی منافقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یورپی یونین اور یوکرائن حکومت کے درمیان معاملات طے پانے ہی والے تھے کہ یوکرائنی حکومت نے ''شراکتی معاہدے‘‘ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد یورپی یونین نے مظاہرین کی پشت پناہی شروع کردی۔ لیکن روسی گیس، تیل، منڈی اور سستی لیبر یورپی سرمایہ داروں (خصوصاً جرمنی) کی اہم ضرورت ہے؛ چنانچہ یورپی حکمران روس سے براہ راست تصادم مول نہیں لے سکتے ہیں۔اوباما نے واضح طور پرکہا ہے کہ اس کے سٹریٹیجک مفادات کا فوکس فی الوقت کہیں اور ہے اور امریکی حکومت نے مشرقی یورپ میں میزائل نصب کرنے سے متعلق بش دورکا منصوبہ ترک کردیا ہے۔ امریکی سامراج کی کمزوری اور مغربی یورپی طاقتوں کی باہمی پھوٹ کا سب سے زیادہ فائدہ روس کو ہورہا ہے اورپیوٹن حکومت خطے میں بڑاکردار ادا کرنے کی چالبازیاںکر رہی ہے۔
صدر ینوکووچ اور اپوزیشن کے ''نسبتاًاعتدال پسند‘‘ رہنمائوں کے درمیان ڈیل کے امکانات کو رد نہیںکیا جا سکتا،اگر ایسا ہوتا ہے تو انتہائی دائیں بازوکی فاشسٹ قوتیں سڑکوں پر احتجاج ہی کرتی رہ جائیں گی اور حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا؛ تاہم ایساکوئی معاہدہ زیادہ دیرپا نہیں ہوگااور یوکرائن مختلف طاقتوں کی پراکسیوں کا میدان جنگ بنا رہے گا۔ دوسری طرف اگر یوکرائن یورپی یونین کا حصہ بنتا ہے تو یورپ کی سستی اجناس کا سیلاب مقامی صنعت اورروزگارکو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ رومانیہ، پولینڈ اور یورپی یونین کا حصہ بننے والے سابقہ سوویت بلاک کے دوسرے ممالک کے حالات سب کے سامنے ہیں جہاں عوام کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
معاشی و سیاسی عدم استحکام اورانتشارکی یہ صورت حال صرف یوکرائن تک محدود نہیں ، سوویت یونین کے انہدام نے روس، وسطی ایشیااور مشرقی یورپ کے عوام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ تاریخی طور پر یہ پیچھے کی طرف قدم تھا۔ منصوبہ بند معیشت کے خاتمے کے بعد ان ممالک میں جرائم اورکرپشن پر مبنی سرمایہ داری استوار ہوئی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی کالی معیشت روس میں سرگرم ہے۔ سوویت یونین کا بیڑا غرق کرنے والے کمیونسٹ پارٹی کے بیوروکریٹ اب سرمایہ دار بن گئے ہیں۔ نودولتیوں، نومولود سرمایہ داروں ، کرپٹ سیاستدانوں اور ریاستی اہلکاروں کی یہ طفیلی پرت محنت کش عوام کا خون چوس رہی ہے ، ہزاروں فیکٹریاں اورادارے بند ہوجانے یا نجی ملکیت میں چلے جانے سے بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلی ہے۔ سوویت دور میں تعلیم، علاج، رہائش اور بجلی کی مفت سہولیات اب ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد عوام کو سب سے بڑا ذہنی صدمہ ہی اس بات سے پہنچا تھا کہ بنیادی ضروریات زندگی کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں۔اس کے علاوہ 1991ء کے بعد ہونے والی بڑے پیمانے کی ہجرت نے ان ممالک میں سماجی ڈھانچوں، خاندان اورآبادی میں نوجوانوں کے تناسب کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔
اس تمام صورت حال میں روس اور مشرقی یورپ کی دوسری ''کمیونسٹ پارٹیوں‘‘کی طرح کمیونسٹ پارٹی آف یوکرائن کی قیادت کا کردارانتہائی شرمناک اور مجرمانہ ہے۔کئی برسوں تک ینوکووچ کی سرمایہ دارانہ حکومت سے ہر طرح کا تعاون کرنے والے ان ''کمیونسٹوں‘‘ نے کمیونزم کو عوام کی نظر میں جرائم پیشہ اشرافیہ کے ساتھ منسوب کردیا ہے۔ یوکرائن کا محنت کش طبقہ واقعات سے کئی اسباق سیکھے گا۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کو سرمایہ داروں اور سامراجی قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے آزاد سیاسی قوت بن کرابھرنا ہوگا۔ محنت کش عوام کی انقلابی تحریک کمیونسٹ پارٹی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دے گی۔ بالشویزم اور انقلابِ روس کی عظیم انقلابی روایات کو زندہ کیے بغیر یوکرائن اور مشرقی یورپ کے عوام کے پاس نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved