تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     22-02-2014

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور اشتہار

طالبان کے مزید حملے برداشت 
نہیں کریں گے... عابد شیر علی 
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''طالبان کے مزید حملے برداشت نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ ہم نے حساب لگا کر دیکھا ہے کہ جتنے حملے ہم برداشت کر سکتے تھے‘ کر لیے ہیں‘ اب مزید نہیں کریں گے اور ان کے خلاف پُرزور احتجاج کریں گے جس سے طالبان کی کمر ٹوٹ جائے گی‘ لہٰذا وہ اپنی کمر جڑوانے کا کوئی انتظام ابھی سے سوچ لیں کیونکہ ہمارے احتجاج کے زوروشور میں انہیں شاید اس کی فرصت ہی نہ ملے۔ انہوں نے کہا کہ ''طالبان کو خونریزی روکنے کا واضح پیغام دے دیا ہے‘‘ کیونکہ پہلے کے سارے پیغام ذرا مبہم تھے اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہے تھے کہ بم حملے روکنے ہیں یا خودکش حملے؛ چنانچہ انہیں کہہ دیا گیا ہے کہ قسم قسم کے حملوں کی بجائے ایک طرح کے حملوں پر ہی اکتفا کریں جن میں خودکش حملوں کو ترجیح دی جائے کیونکہ ان میں ایک آدمی ان کا بھی کام آ جاتا ہے اور حساب تقریباً برابر ہو جاتا ہے اور حساب کو پوری طرح سے برابر ہی رہنا چاہیے۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
گاڑی میں میوزک چلائوں گا‘ دیکھوں گا 
طالبان کیسے روکتے ہیں... بلاول 
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''میں گاڑی میں میوزک چلائوں گا‘ دیکھوں گا طالبان کیسے روکتے ہیں‘‘ یعنی ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہیں یا کوئی غیر شریفانہ حرکت کرتے ہیں کیونکہ یہی میرے کھیلنے کھانے کے دن ہیں اور ملک میں جس قدر خونریزی ہو رہی ہے‘ اس کا غم غلط کرنے کے لیے بھی میوزک کا سہارا لینا بہت ضروری ہے اور طالبان کو میرے جیسے لوگوں کی مجبوریوں کا خود ہی احساس کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''طالبان کی دھمکیوں سے ڈر کر ٹیپ ریکارڈر چلانا بند نہیں کر سکتا‘‘ البتہ اگر وہ دھمکیاں دیئے بغیر شرافت کے ساتھ مطالبہ کریں تو میں‘ میوزک گھر جا کر سن لیا کروں گا اور ویسے بھی ڈی آئی جی نے طالبان کے کہنے پر بسوں میں میوزک بجانا روکنے کے بارے میں کہا تھا اور جس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ذاتی گاڑیوں کا میوزک بھی بند کردیا جائے اور میرے جیسے نوجوانوں کے جذبات کا خون کردیا جائے جو میوزک کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ آپ اگلے روز کراچی سے حسب معمول ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔ 
حکومت دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لیے دن رات کوشاں ہے... حمزہ شہباز 
نوازلیگ کے مرکزی لیڈر اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''حکومت دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لیے دن رات کوشاں ہے‘‘ اور اگر اس کے باوجود دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو رہا ہے تو حکومت کے خلاف یہ کوئی سازش ہی ہو سکتی ہے‘ جس کا پردہ بہت جلد چاک ہو کر رہے گا‘ اور جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو دہشت گردوں کو کم از کم اس بات کا ہی خیال کرنا چاہیے کہ ان کی روز افزوں کارروائیوں کے باوجود تایا جان نے مذاکراتی کمیٹیاں بنا کر سب کو حیران کردیا لیکن وہ اسی حیرانی کے عالم میں اندھا دھند کارروائیاں کرتے چلے جا رہے ہیں جو کہ واقعی بہت افسوس کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم کا عزم ہے کہ عوام کو امن اور مضبوط معیشت دیں گے‘‘ اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے اور ایک سطح پر اسی بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ خود طالبان ہی آ کر یہ گمبھیر مسائل حل کریں گے اور ہمیں قدرے آرام کرنے کا موقع ملے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
گمراہ کُن 
تحریک انصاف کے رہنما جناب محمود الرشید نے یہ کہہ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجاب میں ایک کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سارے کے سارے اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور ہوٹلوں‘ ورکشاپوں اور بھٹوں وغیرہ پر مزدوری کر کے ایک تو ہُنر سیکھ رہے ہیں اور دوسرا اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم بھی ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اور جو بچے کچھ نہیں کرتے اور محض آوارہ گردی میں مصروف رہتے ہیں‘ ان کے تفننِ طبع کے لیے ہم طرح طرح کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں مثلاً دنیا کا سب سے بڑا جھنڈا بنانا یا سب سے زیادہ لوگوں کا مل کر قومی ترانہ پڑھنا وغیرہ۔ علاوہ ازیں کچھ بچے بھیک مانگ کر بھی اپنی روزی کماتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو سخی افراد بھیک کس کو دیں گے اور اپنی عاقبت کیونکر سنواریں گے‘ اور یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کے والدین کی طرف سے حکومت کو کبھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اور دونوں کا کام نہایت خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ (حکومت پنجاب عفی عنہ) 
اپیل 
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا پیپلز پارٹی کے عہدیداروں سے اپیل کی جاتی ہے کہ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے دورۂ لاہور کے موقع پر چندہ دینے سے جو انکار کیا ہے‘ براہ کرم اس پر نظرثانی کریں اور دامے‘ درمے‘ سخنے اپنی محبوب پارٹی کو بیچ منجدھار میں نہ چھوڑیں کیونکہ اس چندے سے دو سابق مفلوک الحال وزرائے اعظم اور دیگر حاجتمند سابقہ وزراء وغیرہ کی بھی مالی امداد کی جانی مقصود ہے جنہوں نے گزشتہ دور میں صرف قربانیاں دیں اور روپے پیسے کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا جبکہ ان کے لیے بیت المال سے بھی مالی امداد دلوانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے جو سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے رہے‘ جس سے سیاست کا صحیح مفہوم دنیا بھر پر واضح ہوا؛ تاہم ان زعماء نے آئندہ سیاست سے معذوری ظاہر کردی ہے کیونکہ اب تو ان کے گھر کے برتن بھی بکنا شروع ہو گئے ہیں لہٰذا جو عہدیدار نقد امداد نہیں کر سکتے وہ سیکنڈ ہینڈ برتن ہی عنایت کر کے عنداللہ ماجور ہوں۔ 
المشتہر: پیپلز پارٹی پنجاب 
آج کا مطلع 
اُس پر ہوائے دل کا اثر دیکھنا تو ہے 
ہونا تو خیر کیا ہے‘ مگر دیکھنا تو ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved