''فافن‘‘ نامی این جی او نے گزشتہ انتخابات پر ایک ریسرچ رپورٹ مرتب کی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے یاشرارت کہ عمران خان نے چند روز پہلے 35 پنکچروں کی بات تھی۔ ریسرچ رپورٹ میں بھی 35حلقوں کے نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے مطابق 35امیدوار ایسے ہیں‘ جن کے مخالف امیدواروں کے مسترد شدہ ووٹ زیادہ ہیں اور جتنے ووٹوں سے جیتنے والے امیدواروں نے برتری حاصل کی‘ اس سے زیادہ ووٹ مسترد کئے گئے۔ مثلاً شیخوپورہ میں این اے 134میں عرفان ڈوگر کو 3294 ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔ جبکہ مسترد شدہ ووٹ ساڑھے 5ہزار سے زائد ہیں۔ اگر یہ ووٹ مسترد نہ ہوں تو ہارنے والا امیدوار کامیاب ہوتا۔ این اے 133ننکانہ صاحب میں مستردشدہ ووٹوں کی تعداد6641 ہے ‘ کامیاب امیدوار رائے منصب علی خان کی برتری 5279 ووٹوں کی ہے۔ این اے 170وہاڑی میں کامیاب امیدوار نے 2700 ووٹوں کی برتری حاصل کی اور مسترد کئے گئے ووٹ 5700 تھے۔ مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد ایک ہزار بھی کم ہو جاتی‘ تو ہارنے والا پھر بھی کامیاب تھا۔ اسے بھی پنکچر پڑ گیا۔این اے 41جنوبی وزیرستان ایجنسی میں غالب خان کے ووٹوں کی برتری 381 تھی اور مسترد ہونے والے ووٹ 706 تھے۔ این اے 57 اٹک(1) میں ن لیگ کے امیدوار شیخ آفتاب احمد کی برتری 3913ووٹوں کی تھی ۔ یہاں ساڑھے 5ہزار ووٹ مسترد ہوئے۔ این اے 73 بھکر (1) میں عبدالمجید خان کی برتری 6620ووٹوں کی تھی اور یہاں 13ہزار ووٹ مسترد کئے گئے۔ این اے 89 جھنگ (1) میں شیخ محمد اکرم نے 2333ووٹوں کی برتری حاصل کی اور یہاں 4004 سے زائد ووٹ مسترد کئے گئے۔ این اے 91 جھنگ (3) سے نجف عباس سیال کی برتری 4002ووٹوں کی تھی۔ وہاں 6242 ووٹ مسترد کئے گئے۔ این اے 104گجرات میں نوابزادہ مظہر علی خان کو 3882ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔ اس حلقے میں ساڑھے 6ہزار ووٹ مسترد ہوئے۔ این اے 153 ملتان میں ن لیگ کے دیوان عاشق نے 4234ووٹوں کی برتری حاصل کی۔ جبکہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 5300 تھی۔ این اے 164پاک پتن (1) میں سردار منصب علی ڈوگر کی برتری 2354 کی تھی اور یہاں 6212ووٹ مسترد ہوئے۔ این اے 171ڈیرہ غازی خان میں سردار امجد فاروق کھوسہ کے ووٹ مسترد ہونے والے ووٹوں سے 295کم تھے۔ این اے 271پنجگور میں عبدالقادر بلوچ نے 1200 ووٹوں کی برتری حاصل کی اور اس حلقے میں 1383ووٹ مسترد کئے گئے۔
معافی چاہتا ہوں‘ تفصیل قدرے زیادہ ہو گئی۔ مگر پنکچروں کا استعمال جس ہنرمندی اور نفاست سے کیا گیا‘ تفصیل کے بغیر اس کی خوبی نمایاں نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ مسترد کئے گئے ووٹوں کا فائدہ اٹھانے والوں میں‘ قریب قریب سارے ہی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہیں۔ پنکچر لگانے کے لئے زیادہ چھید‘ پیپلزپارٹی کی ٹیوب میں کئے گئے اور اس کے بعد تحریک انصاف کی ٹیوب میں۔ پیپلزپارٹی تو اپنی شکست پر کڑوے گھونٹ پی کر چپ ہو گئی۔ کیونکہ اس کے لیڈروں نے 5سالہ دور حکومت میں‘ اپنے ہی نہیں‘ آنے والی نسلوں کے پنکچر بھی لگا رکھے تھے۔ ن لیگ کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد اگر وہ اپیلوں میں جاتے اور دوبارہ گنتی پر اصرار کرتے‘ تو کھایا پیا ہضم کرنا مشکل ہو جاتا۔ انہوں نے چپ سادھ کر بیٹھ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ مقدمے کی پیروی کرتے‘ تو ان کے اپنے پنکچرکھل جانا تھے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈروں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے پنکچر اتنی مضبوطی سے لگاتے ہیں کہ ٹیوب کے اندر گئی ہوئی ہوا کی چٹکی بھر مقدار بھی باہر نہیں آ سکتی۔ وہ اقتدار کے زمانے میں کسی ورکر کا بھلا کر کے نہیں دیتے اور اقتدار میں جتنی دولت جمع کرتے ہیں‘ وہ پارٹی پر خرچ نہیں کرتے۔ ہمیشہ دوسروں سے چندے مانگنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری پنجاب کے دورے پر آنے والے ہیں۔ چندے مانگنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈروںکو ایک اور سہولت حاصل ہے کہ وہ طویل عرصے تک اپوزیشن میں رہ کر بھی کمانا سیکھ چکے ہیں۔ کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کر وہ چندہ بٹورنے کا موقع پیدا کر لیتے ہیں۔ ان کی تمام خوبیاں گنوائوں تو کالم کی گنجائش ختم ہو جائے گی۔ صرف ایک اور خوبی بیان کر کے یہ تذکرہ ختم کر دیں گے اور وہ یہ کہ جب انہیں الیکشن میں حصہ لینے کے لئے پارٹی ٹکٹ مل جاتا ہے‘ تو پھر وہ انتخابی مہم کی خاطر بھی پارٹی سے پیسہ مانگتے ہیں۔ جو پیسہ پارٹی سے مل گیا‘ اس کو ہوا نہیں لگنے دیتے۔ انتخابی مہم کے لئے ورکروں اور مخیر حضرات سے چندے لیتے ہیں۔ الیکشن جیتیں یا ہاریں‘ معقول رقم بچا لیتے ہیں۔ اس مرتبہ پارٹی کی طرف سے بہت کم لوگوں کو پیسہ ملا اور ورکروں نے چندہ تو دور کی بات ہے‘ سلام کا جواب دینا بھی چھوڑ دیا تھا۔ جو اپنی جیب سے پیسہ خرچ کر کے الیکشن جیتے‘ اسے پیپلزپارٹی کا ٹکٹ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ پیسہ ہی خرچ کرنا ہے‘ تو ن لیگ کا ٹکٹ کیوں نہ لیا جائے؟
جس طرح تحریک انصاف دوبارہ گنتی کے سوال پر شور مچا رہی ہے۔ اس کے امیدوار انفرادی طور پر بھی اپنے مقدمے لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے تو دوبارہ گنتی کرا کے‘ جیتے ہوئے امیدواروں کو گھر بٹھا دیا۔ لیکن پیپلزپارٹی کے امیدواروں سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ وجہ یہ ہے کہ دوبارہ گنتی کرانے والے امیدوار کو جیب سے پیسہ دینا پڑتا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ گنتی کے پیسے ‘ انہیں پارٹی کی طرف سے مل جائیں‘ تو وہ دوبارہ گنتی کرا لیں۔ اپنی جیب سے گنتی کے پیسے دیناان کے اصول کے خلاف ہے۔ پیپلزپارٹی کا جو لیڈر‘ کسی بڑے لیڈر کو دعوت پر بلانے میں کامیاب ہو جائے‘ تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ جتنا چندہ وہ پارٹی کے لئے جمع کرتا ہے‘ اس کا ایک حصہ تواضع کے سامان پر خرچ ہوتا ہے اور باقی جیب میں چلا جاتا ہے۔ 35 پنکچروں کا پتہ پیپلزپارٹی کے امیدواروںکو بھی چل گیا تھا۔وہ ن لیگ کے خوف سے ٹربیونل میں نہیں گئے۔ کیونکہ ن لیگ کی حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کا مطلب سب جانتے ہیں۔ صرف طارق ملک نہیں جانتے تھے کہ 35 پنکچر ‘ ان کی گاڑی اینٹوں پر کھڑی کر دیں گے۔پنکچروں کے کھیل میں پیشہ ورانہ دیانت کام نہیں آتی۔پنکچر 35 ہوں یا 45‘ جمہوریت بہرحال جمہوریت ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس میں جتنے پنکچر بھی لگ جائیں‘ دوسرے تمام نظاموں سے پھر بھی بہتر ہے۔
انتخابی نتائج کے پنکچر تو زیربحث آ گئے۔ دوسرے شعبوں میں بھی حالات مختلف نہیں۔ سب سے برا حال معیشت کا ہے اور سب سے زیادہ پنکچر بھی اسحق ڈار لگا رہے ہیں۔ ابھی تک وہ پورے پنکچر لگانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پنکچر بھی لگتے جا رہے ہیں۔ ہوا بھی نکلتی جا رہی ہے۔ ٹیوب اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ 4پنکچر لگائیں‘ تو 6 سوراخ مزیدہوا دینے لگتے ہیں۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پنکچر ہوا دینے لگے۔ ن لیگ کی حکومت نے کرکٹ پر نظر عنایت کرتے ہوئے پاکستانی کرکٹ کو اپنے ''ماہرپنکچریات‘‘ کی خدمات فراہم کر دی ہیں۔ ہماری کرکٹ کی ٹیوب میں بھی جگہ جگہ چھید ہیں۔ ملک کے اندر تو ٹیوب ہی پھٹی پڑی ہے۔ کوئی بیرونی ٹیم یہاں آ کر میچ کھیلنے کو تیار نہیں۔ سری لنکا والوں نے مہربانی کر کے اپنی ٹیم بھیجی تھی۔ مگر ٹیم کے کھلاڑی‘ جن گاڑیوں میں سٹیڈیم جا رہے تھے‘ ہم نے گولیاں چلا کر ان کے ٹائر پنکچر کر دیئے۔ہو سکتا ہے انتخابی پنکچروں کا تجربہ کرکٹ میں کام آ جائے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ یہاں کرکٹ بورڈوالے خود ہی سڑک پر کیلیں پھیلا دیتے ہیں۔ کرکٹ کی گاڑی صرف 35پنکچر لگا کر نہیں چلائی جا سکتی۔ اس میں سینکڑوں پنکچر لگانے پڑیں گے۔ ادھرکرکٹ میں بھی تین بڑوں نے اپنا مافیا بنا کردولت پر قبضہ کر لیا ہے۔ باقی ساری ٹیموں کو دال روٹی ملا کرے گی۔ ذکاء اشرف دال روٹی کھانے سے انکار کر آئے ہیں۔ مسٹر پنکچر کے عزائم تو بہت بلند ہیں لیکن تین کا مافیا بھی کمزور نہیں۔ مسٹر پنکچر جتنا زور بھی لگا لیں‘ گوشت کی پلیٹ نہیں ملے گی۔ زیادہ سے زیادہ وہ اپنی دال کی پلیٹ میں تڑکا لگوا سکتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم نے‘ کرکٹ کی دنیا میں نام تو بہت کما رکھا ہے۔دہشت گردوں نے بھی ہماری شہرت کو چارچاندلگا رکھے ہیں۔ ایسے حالات میں تڑکے والی دال بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔