ذرا غور سے دیکھیں تو اس ایک پاکستان کے اندر دو دو بلکہ تین تین پاکستان بستے ہیں اور یقیناً اتنی ہی طرح کے پاکستانی اور یہ سب الگ الگ سوچتے، الگ الگ خواہشات اور خواب رکھتے‘ الگ الگ طرح behave کرتے اور مختلف معاملات پر الگ الگ طرح react کرتے ہیں... یہ North اور South کے دو مختلف پولز ہیں اور اُن لوگوں کی طرح ہیں جو برسوں سے ایک دوسرے کی طرف کمر کیے کھڑے ہوں۔ ایک طبقہ ہمارا ہاتھ تھام کر ہمیں مغرب کی جانب لے جانا چاہتا ہے اور دوسرا طبقہ ہمیں لے کر بالکل مخالف سمت میں پرواز کرنا چاہتا ہے۔
مسئلہ صرف فکری یا نظریاتی اختلاف کا نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ دونوں طبقات ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ایک طبقہ دوسرے کو سیکولر کہتا ہے تو دوسرا طبقہ پہلے کو دقیانوسی ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔ میں کبھی دونوں طبقوں کے افراد کو کسی موقع پر ایک دوسرے سے بحث میں اُلجھا دیکھوں تو محسوس ہوتا ہے کہ دونوں طبقات صرف ایک دوسرے سے اختلاف ہی نہیں رکھتے‘ ایک دوسرے سے نفرت بھی کرتے ہیں دونوں طبقوں کی گفتگو‘ چہرے کے اُتار چڑھائو اور ایک ایک جیسچر سے دوسرے کے لیے نفرت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ واضح محسوس ہوتا ہے کہ دونوں طبقوں کیلئے کسی بھی بیرونی دشمن سے زیادہ نفرت اپنے ان ہم وطن پاکستانیوں کے لیے پائی جاتی ہے۔ ایک طبقہ دوسرے کو امریکہ یا بھارت نواز ہونے کا طعنہ دیتا ہے تو دوسرا طبقہ پہلے کو آج تک 1400 سال پہلے کی دنیا میں زندہ رہنے والے مذہبی، ماضی پرست مُلا کے لقب سے یاد کرتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ وہ ہیں جن کے لیے صرف نائٹ پارٹیز ہی سب کچھ ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہیں صرف اور صرف مذہبی اجتماعات میں آسودگی ملتی ہے۔ ایک کے لیے برٹنی سپیرز، شکیرا اور میڈونا کا میوزک ہی زندگی ہے اور دوسرے کے لیے محفل نعت نجات کا ذریعہ ہے۔ میں اس خلیج کو دیکھتا تھا‘ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتا تھا۔ اور پھر دھاگے سلجھتے چلے گئے۔ یک دم روشنی ہوتی چلی گئی۔ اختلاف زندگی کا حسن ہے مگر تب تک جب تک اس میں نفرت کا زہر نہ گھلے۔
پوری دنیا میں مختلف معاملات پر مختلف طبقوں کے درمیان ایک دوسرے سے مختلف رائے پائی جاتی ہے اور ہر طبقہ دوسرے طبقے کو اپنی قائم شدہ رائے کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔ اپنی رائے کے مطابق نظام کی تشکیل اور امورِ حکومت چلانا چاہتا ہے۔ مگر جیسی نفرت اور خلیج ہمارے ہاں ان دو طبقوں میں پائی جاتی ہے اتنی شاید ہی دنیا کے کسی ایک ملک کے اندر بسنے والے طبقات کے درمیان پائی جاتی ہو۔
اس المیے کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہمارا دوہرا‘ بلکہ تہرا تعلیمی نظام ہے۔ ایک طرف اشرافیہ کے انگریزی میڈیم سکول ہیں‘ دوسری طرف عام پاکستانیوں کے اردو میڈیم سکولز اور تیسری طرف دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے طلبا۔
ایک پاکستان‘ ایک سرزمین‘ ایک دھرتی پر رہنے کے باوجود گود سے لے کر گور تک یہ تینوں ساری عمر ایک دوسرے کیلئے اجنبی رہتے ہیں۔ تین طرح کا یہ تعلیمی نظام بنیادی طور پر تین الگ طرح کی سوچ‘ تین الگ افکار، نظریات، خیالات اور تین الگ طبقات کو جنم دیتا ہے جو آگے چل کر ساری زندگی ایک دوسرے کو اپنی راہ‘ اپنے نظریے پر چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایک پاکستان کے اندر یہ تین الگ الگ دنیائیں ہیں۔ ہر دنیا کا باسی دوسری دنیا کے باسی سے شدید نفرت کرتا ہے۔ ایک طبقہ، دوسرے کو مذہب دشمن سمجھتا ہے اور مذہب سے باغی گردانتا ہے‘ دوسرا سمجھتا ہے کہ مذہب کے نام پر ہماری آزادی سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ دقیانوسی ہمیں غاروں کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں۔ ان دو دنیائوں کے درمیان بیچارے اردو میڈیم والوں کی بڑی تعداد اکثر پستی ہوئی نظر آتی ہے جو مذہب کا عَلَم ہاتھ میں تھام کر دنیاوی کامیابی کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں اور صحیح معنوں میں ساری عمر ایک کنفیوژن اور ایک طرح کے احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں کیونکہ مدرسے والوں کی طرح نہ ہی انہیں جنت کے ملنے کا پختہ یقین ہوتا ہے اور انگریزی دان اشرافیہ کی طرح دنیا کی رنگینیاں بھی پوری طرح ان کے ہاتھ نہیں آتیں۔ نہ رندانہ سرمستی enjoy کر پاتے ہیں‘ نہ جنت میں داخلے کے ایقان کا سرور نصیب ہوتا ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ 20 کروڑ پاکستانیوں میں اکثریت اسی طبقے کی ہے جو اپنے وطن سے محبت بھی کرتا ہے‘ مذہب کی خاطر جان بھی دے سکتا ہے اور دنیا کی آسودگیاں بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اگر ہمیں ان تینوں طبقات کو ایک کرنا ہے‘ ان تین پاکستانوں کو ایک پاکستان بنانا ہے تو ہمیں اس ملک کے ہر بچے کا تعلیمی نصاب ایک بنانا ہو گا‘ خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے بچے ہوں یا تمام متوسط درجے کے پاکستانیوں کی نسل‘ سب کو ایک نصاب پڑھانا ہو گا۔ ایسا نصاب جس میں دین بھی ہو دنیا بھی اور پاکستانیت بھی۔ اگر ہم نے اس ارض پاک پہ تعلیمی نظام اور نصاب ایک نہیں کیا تو یہ نفرت شدید تر ہوتی جائے گی‘ یہ فاصلے بڑھتے جائیں گے‘ یہ خلیج وسیع ہوتی رہے گی‘ پاکستانی کبھی ایک نہیں ہوں سکیں گے اور یہ تینوں طبقات اسی طرح ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے رہیں گے‘ آپس میں لڑتے رہیں گے‘ ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی خاطر ایک دوسرے کو مارتے رہیں گے‘ اسی طرح ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہیں گے‘ ایسے ہی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہیں گے اور مرنے والے سب پاکستانی ہوں گے...!