تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     23-02-2014

بشیر بھائی کی دینی خدمات

جنوبی فلوریڈا میں اسلامی سنٹر جہاں مسلمان نماز ِ جمعہ کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، ایک پررونق علاقہ ہے۔ یہاں آکر ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کاموقعہ ملتا ہے۔ اسلامی سنٹر کے امام صاحب ، بشیر بھائی، ایک بہت اچھے خطیب ہیں اور ان کے زیادہ ترخطبات، جو انگریزی میں ہوتے ہیں، کا پیغام بہت واضح اورسہل ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ جوش و خروش سے بات کرتے ہوئے خطابت کے جوہر دکھانے کی بجائے نہایت سلجھے ہوئے لہجے میں مذہب کے عملی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ اہل ِ ایمان کو خدا کے غضب یا جہنم کی آگ سے ڈرانے کی بجائے اچھی مثالیں دے کر صاف ستھری زندگی کی طرف بلاتے ہیں۔ 
بشیر بھائی ایک تعلیم یافتہ اور ترقی پسند انسان ہیں۔ وہ جذباتی نعروں کی بجائے اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ اﷲ کی رضا کے لیے دعوے نہیں ، اچھے کام ضروری ہیں۔ گزشتہ جمعے کو انہوں نے ایک یادگار خطبہ دیا۔ اُ س خطبے میں انہوں نے احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میںیتیموں کے حقوق اور ان کے حوالے سے معاشرے کے فرائض اجاگر کیے۔ اپنی تقریر کا آغاز پیغمبرِاعظم و آخرﷺ کی حیات ِ طیبہ کے ایک واقعہ سے کیا جب آپﷺ کئی روز سے اﷲ رب العزت کی طرف سے وحی کے منتظر تھے ۔ کچھ تاخیر کے بعدجب جبریل علیہ السلام سحر سے کچھ پہلے، جب ابھی رات کا اندھیرا باقی تھا، نازل ہوئے اور عرض کی کہ اﷲ پاک نے آپﷺ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے۔۔۔ ''اس بات کو فراموش نہ کیجیے کہ یہ اﷲ ہے جس نے آپﷺ کی حفاظت کی جب آپﷺ یتیم تھے۔‘‘ایک اور واقعہ سناتے ہوئے امام صاحب نے ہمیں بتایا کہ جنت میں سب سے پہلے حضور پاک ﷺ داخل ہوں گے، تاہم آپ ﷺ کی سواری کے ساتھ ایک عورت بھی ہوگی۔ جب اﷲ سے پوچھا گیا کہ وہ عورت کون ہوگی تو جواب ملا کہ اس کے پانچ بچے تھے جب اُس کا شوہر ، یعنی بچوں کا والد فوت ہوگیاتو اس عورت نے ان کی نگہداشت میں اپنی تمام زندگی وقف کردی۔ اس سے ثابت ہوا کہ بے سہارا بچوں کی پرورش کرنے والے جنت میں داخل ہوںگے۔ 
اگلے چند منٹ تک امام صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ اگر کوئی شخص کسی یتیم کی پرورش کرے گا تو اﷲ اُس کے گناہ معاف کر دے گا۔ بشیر بھائی نے حاضرین ، جن میں آدمی اور عورتیںاور بچے شامل تھے، کو بتایا ۔۔۔''اپنے گردونواح میں بے سہار ا بچوں کو تلاش کرواور اس بات کا انتظار نہ کرو کہ کوئی تمہیں کہے گا تو تم چندہ وغیرہ دے کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرلو گے بلکہ یتیم بچوں کی پرورش اور نگہداشت اپنا فرض سمجھ کر پوری توجہ سے ادا کرو۔ آپ امریکہ کے امیر ترین علاقے میں رہتے ہیں، آپ مہنگے ریستورانوں میں کھانے کھانے اورکافی پینے پر بہت بھاری رقومات خرچ کردیتے ہیں، تو آپ کے دل میں یہ خیال کیوں پیدا نہیں ہوتا کہ ایک دن آپ کی بجائے کوئی بے سہارا بچہ پیٹ بھر کر کھانا کھالے، یا کتابیں یا ادویات خرید لے۔‘‘پھر بشیر بھائی نے ایک سعودی باشندے کی کہانی سنائی جس نے 45 سال دن رات محنت کرکے دو لاکھ ڈالر جمع کیے ۔ پھر اس کے بھائی کا انتقال ہوگیااور وہ اپنے پیچھے ایک بیوہ اور کچھ بچے چھوڑ گیا۔ اس سعودی باشندے نے وہ رقم اپنی بھابی کو دے دی تاکہ اُسے بچوںکی کفالت کرنے میںکوئی دقت نہ ہو۔ اگلے سال اس نیک دل سعودی نے بیس لاکھ ڈالر کما لیے۔ اس کا مطلب ہے کہ اﷲ پاک نے اُس کے اس عمل سے خوش ہو کر اس کی محنت میںبر کت ڈال دی۔ بشیر بھائی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا واقعہ بیان کیا کہ آپ نے ایک یتیم کی پرورش کے اخراجات ادا کیے ۔ پھر جب آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگا تو پتہ چلا کہ وہ بہتان پھیلانے والوں میںوہ لڑکا بھی شامل تھا۔ اس پر ناراض ہو کر آپ نے اس کے اخراجات روک دیے۔ اس رات صدیق ِ اکبر ؓ نے خواب میں دیکھا کہ اﷲ اُن سے ناراض ہے۔ اس پر آپؓ نے غصے کو فراموش کرتے ہوئے دوبارہ اس یتیم لڑکے کی کفالت شروع کردی۔ 
تیس منٹ کے اس خطاب میں بشیر بھائی نے ہمیں یاد دلایا کہ جس دوران ہم نہایت رومانوی جگہوں کی سیر کرتے ہیں، ہمیں شام کی خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والوں کے بچے ، جوترکی اور اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں پریشانی کا شکار ہیں، کو نہیں بھولنا چاہیے۔ انہوں نے قرآن ِ پاک کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ قیامت سے پہلے حق و باطل کا فیصلہ کن معرکہ سرزمین ِ شام پر ہی لڑا جانا ہے، اس لیے۔۔۔''اگر تم نجات چاہتے ہو تو شام کے بچوں کو نظر انداز مت کرو۔‘‘ انہوں نے ایک افسوس ناک حقیقت پر روشنی ڈالی کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے شام کے یتیم بچوں اور دیگر مہاجرین کے لیے صرف 1.5 ملین ڈالر چندہ آیا جبکہ صرف کیتھولک چرچ کی طرف سے پچاس ملین ڈالر بھجوائے گئے۔ 
میرا جی چاہتا ہے کہ ہر جمعے کو بشیر بھائی کی امامت میں نماز ِ جمعہ ادا کروں کیونکہ وہ روایتی فقہ کے مسائل اور مسلکی جذبات کی بجائے سماجی مسائل کے حوالے سے مسلمانوںکے فرائض کی بات کرتے ہیں۔ وہاں سب سے متاثر کن بات یہ نظر آئی کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ان کی بات سننے آتے ہیں۔اس کا مطلب کہ اگر معقولیت اور دانائی سے بات کی جائے تو نوجوان نسل ، جس کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے، کواسلام کی تعلیمات کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات گرہ سے باندھ لیں، وہ روایتی فتوے باز مولویوں کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ۔ یہاں چونکہ جمعے کو تعطیل نہیںہوتی،اس کے باوجود نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے کام سے چھٹی لے کر نماز ادا کرنے آجاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی سنٹر میں وقت کی پابندی کی جاتی ہے۔ خطبہ ٹھیک وقت پر شروع ہوتا ہے اور وقت ِ مقررہ پر ختم ہوتا ہے اور پھر امام صاحب نمازیوں سے چندہ کے لیے بھی نہیںکہتے۔ (ہمارے ہاں نیوجرسی میں چندے کے لیے کہا جاتا ہے اور اس میں کافی وقت بھی صرف ہوتا ہے)۔ اس پابندی کی وجہ سے کام کرنے والے پورے اعتماد سے چھٹی لے سکتے ہیں۔ 
امریکہ میں مسلمان اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مکمل طور پر آزاد ہیں، لیکن اس ہفتے میں فاکس نیوز کی کہانی۔۔۔''جہادیوں کا ٹیکساس میں ٹھکانہ‘‘ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس میں کہاگیا تھاکہ ایف بی آئی واقعے کی تحقیقات کررہی ہے کہ کیا ان افراد کا کسی دہشت گرد گروہ سے تو رابطہ نہیں۔ جس ٹھکانے کی بات ہورہی ہے وہ جماعت الفقرا نامی ایک گروہ کا ٹھکانہ ہے اور وہ ایک پاکستانی مولوی شیخ مبارک علی گیلانی کے عقیدت مند ہیں۔ اگر چہ فاکس نیوز کی ہرکہانی پریقین نہیںکیا جاسکتا کیونکہ یہ چینل مسلمانوں سے کسی قسم کی پرخاش رکھتا ہے، لیکن ایف بی آئی کے کان اس لیے کھڑے ہوگئے ہیں کہ یہ گروہ بائیس شہروں میں پھیل چکا ہے اور اس میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان کے حوالے سے مزید اطلاعات کسی اگلے کالم میں پیش جائیں گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved