تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     23-02-2014

پھول بننے کا انتظار

کبھی یہ شعر کہا تھا 
کیا کیا گلاب کِھلتے ہیں اندر کی دُھوپ میں 
آ دیکھ مجھ کو مل کے دسمبر کی دُھوپ میں 
لیکن دسمبر سے لے کر اختتامِ فروری تک دھوپ کا عالم یہی رہتا ہے اور پھر موسم بدلنے لگتا ہے اور بہار کے قدموں کی چاپ صاف سنائی دینے لگتی ہے۔ پاکستان ان خوش قسمت ملکوں میں سے ہے جن میں سال بھر کے دوران کوئی نصف درجن موسم اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ چنانچہ فروری ختم ہو رہا ہے تو دھوپ میں تیزی آ رہی ہے اور کشور ناہید کا پسندیدہ میرا یہ شعر یاد آ رہا ہے ؎ 
میں اتنا بدمعاش نہیں‘ یعنی کُھل کے بیٹھ 
چُبھنے لگی ہے دُھوپ‘ سویٹر اتار دے 
تاہم موسم کا یہ حصہ خاصا دھوکے باز بھی ہے کیونکہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب بادل پھر لوٹ آئیں اور ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں یعنی گرم کپڑے اگر بند کر دیے گئے ہوں تو پھر سے نکالنا پڑیں۔ چنانچہ آج دس بجے ہی مجھے سائے میں جانا پڑا اور سوچا کہ دھوپ کی یہ عیاشی بھی ختم ہو گئی۔ سو‘ گلاب کا ذکر ذرا اور ہو جائے‘ ایک تو یہ کہ اس کے پودے پر کبھی خزاں نہیں آتی اور یہ تقریباً سدا بہار ہی رہتا ہے ، زیادہ سے زیادہ یہ کہ شدید سردی میں اس کے پتے کُہرے میں جھلس سے جاتے ہیں لیکن ان پر اِکا دُکا پھول پھر بھی آئے رہتے ہیں۔ جس راہداری سے میں واک کے لیے نکلتا ہوں‘ بائیں طرف ایک بڑا سا شگوفہ مجھے اپنی طرف کھینچتا ہوا لگتا ہے اور میں شدت سے اس کے کھلنے کے انتظار میں ہوں۔ آج اس کی صرف ایک پتی ذرا سا الگ ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کِھلنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ 
یہ عمل تقریباً ایک ہفتے میں مکمل ہوگا کیونکہ یہ آہستہ آہستہ کِھلتا ہے اور اپنی غُنچگی میں بھی کئی شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ اس کے اطراف میں جو سبز جکڑ بند ہوتا ہے‘ پہلے وہ اس سے رفتہ رفتہ آزاد ہونا شروع ہوتا ہے۔ جس غنچے کی میں بات کر رہا ہوں اس کا سائز معمول سے کم و بیش ڈیڑھ گنا تو ضرور ہوگا ، اس میں سے جو پھول نکلے گا وہ سرخ نہیں ہوگا بلکہ اسے گلابی سیندوری کہا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ گلاب کا اصل رنگ نہیں ہے بلکہ کسی نباتاتی ٹریٹ منٹ کا اثر ہے جو مغرب میں تجرباتی طور پر اس کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے جس نے اس پھول میں ان گنت قسمیں اور طرح طرح کی ورائٹی پیدا کردی ہے۔ غنچے کے حوالے سے یہ شعر بھی دیکھیے ؎ 
خود کِھلا غنچۂ لب اس کا‘ ظفرؔ 
یہ شگُوفہ نہیں چھوڑا میں نے 
سو‘ میں اس کے کِھلنے کا منتظر اس لیے بھی ہوں کہ اس میں سے ایک زبردست پھول نکلنے کی توقع ہے جس سے میں کئی دن تک لطف اندوز ہوتا رہوں گا کیونکہ کھلنے کے بعد بھی کم و بیش ایک ہفتہ اس کی تب و تاب قائم رہتی ہے۔ ممولے سے تو ملاقات ہوتی ہی رہتی ہے۔ آپ کو یہ اطلاع دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگلے روز ایک سُرخاب بھی پھرتا پھراتا کہیں سے ادھر آ نکلا۔ سیدھا گھاس پر اترا ‘ اِدھر اُدھر چونچ ماری‘ تھوڑی دیر کے لیے ایک پیڑ پر جا بیٹھا اور پھر رفوچکر ہو گیا۔ یہ بھی اکیلا ہی تھا چنانچہ اس کی صورتِ حال بھی ممولے سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ واضح رہے کہ اس پرندے کے ساتھ یہ میرا پہلا ٹاکرہ تھا۔ یہ کبوتر سے بڑا اور مرغی سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اوپر سے مکمل سُرخ تو نہیں‘ سُرخی مائل کہہ سکتے ہیں یعنی وہ سُرخی جو ذرامیلی میلی سی بھی ہو ، باقی سارا سیاہ ہوتا ہے اور یہ غالباً پر ہی کی وجہ سے مشہور بھی ہوا کیونکہ جس چیز کو بہت اہمیت دینی مطلوب ہو‘ اُسے سُرخاب کا پر لگا دیا جاتا ہے! 
تاہم دھوپ کا کرشمہ یہ ہے کہ اگر سردی کی لہر دوبارہ نہ آ گئی تو یہ مزید کچھ دن دس بجے تک ‘ خوشگوار لگے گی۔ پھر سویٹر اُتر جائے گا اور گرمیوں کے استقبال کی تیاری شروع ہو جائے گی‘ یعنی مارچ کا مہینہ چھوڑ کر۔ بسنت کے بھی یہی دن ہیں لیکن جہاں تہاں ڈور پھرنے کے حادثات کی وجہ سے سرکاری طور پر اس کی ممانعت کردی گئی ہے۔ پہلے یہ اطلاع آئی تھی کہ چند روز تک چھانگا مانگا میں پتنگیں اڑانے کی اجازت ہوگی‘ لیکن بعد میں یہ اعلان بھی واپس لے لیا گیا‘ تاہم من چلے پھر بھی باز نہیں آئیں گے اور آسمان پر اِکا دُکا پتنگیں نظر آ ہی جایا کریں گی۔ لطیفہ یہ ہے کہ بعض عناصر کی طرف سے اسے ہندوئوں کا تہوار کہہ کر بھی مردود قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال میری پوری تین غزلیں پتنگ پر ہیں جن کے مطلعے حسبِ ذیل ہیں: 
میں نے کہا بسنت ہے‘ آئو‘ پتنگ اُڑائو 
اس نے دیا جواب کہ جائو‘ پتنگ اُڑائو 
..................
طلسمِ ہوش رُبا میں پتنگ اُڑتی ہے 
کسی عقب کی ہوا میں پتنگ اُڑتی ہے
..................
چھتوں پہ چڑھ کے برابر پتنگ اُڑاتے ہیں 
سو‘ کام ہے یہی‘ دن بھر پتنگ اڑاتے ہیں 
اس کے علاوہ بھی مختلف غزلوں میں اس موضوع پر اشعار ہیں‘ مثلاً: 
اس عمر میں بھی ساتھ جو دیتی ہے یہ ہوا 
جیسی بھی ہے پتنگ‘ اُڑانے تو دے مجھے 
..................
سرسرا کر کیوں فضا میں جم نہیں جاتا‘ ظفرؔ 
ڈور قائم ہے تو پھر کیوں ڈولتا پھرتا ہوں میں 
..................
ہوتا بھی ظفر‘ نباہ کیونکر 
چھوٹا تھا پتنگ سے پتنگا 
..................
آخر کار پتنگ بنا کر 
ہم نے آج اُڑائی روئی 
بات گلاب سے شروع ہوئی تھی لیکن بیچ میں ہم پتنگ اُڑانے لگ گئے۔ واضح رہے کہ پچھلے سال عبوری وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے بھی بسنت منانے اور پتنگ اُڑانے کی اجازت دینے کی ہامی بھری تھی لیکن بعد میں عوام کے دبائو میں آ کر وہ بیان واپس لے لیا؛ حالانکہ دھاتی ڈور کی پابندی پر سختی سے عمل کیا جائے تو ایسے ناخوشگوار واقعات میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے جبکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تہوار پہلے ہی کتنے رہ گئے ہیں جبکہ کسی نہ کسی طرح کے چھوٹے بڑے نقصان کا خطرہ تو ہمیشہ اور ہر جگہ ہوتا ہے۔ 
لیجیے‘ اب آخر میں گلاب سے متعلق دو اور شعر یاد آ گئے‘ وہ بھی سن لیجیے ؎ 
میں وہ روش ہوں ظفرؔ، گلشنِ خیال و خبر کی 
کہ جس پہ بھول گیا ہے کوئی گلاب لگانا
.................. 
اُس کے گلاب‘ اُس کے چاند جس کی بھی قسمت میں ہیں 
آپ ظفرؔ، کس لیے اتنی مصیبت میں ہیں 
مذکورہ بالا غنچے کے پھول بننے تک اجازت چاہتا ہوں۔
آج کا مقطع 
امیدِ وصل میں سو جائیں ہم کبھی جو ظفرؔ 
تو اپنی خواب سرا میں پتنگ اُڑتی ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved