گہری سانولی رنگت والی 32 سالہ شکُنتلا بائی کا تعلق سندھ کے پسماندہ ضلع تھرپارکر سے ہے۔ وہ اس ضلع کی تحصیل مِٹھی کے مضافاتی گائوں میں تنکوں سے بنی عارضی جھونپڑی میں رہتی ہے۔ اس کے آس پاس ایسے سینکڑوں گھر ہیں جہاں غربت کے مارے ناخواندہ لوگ اپنی گزربسر کرتے ہیں ۔ مِٹھی کے علاقے میں ہندو اور مسلم آبادی صدیوں سے اکٹھے رہ رہی ہے۔ شکنتلا کا تعلق ہندو مذہب سے ہے‘ لیکن اس کے علاقے میں ہندو اور مسلمان پیار و محبت سے رہتے ہیں‘ کوئی کسی سے نالاں نہیں ۔ شکنتلا کے گائوں میں صحت اور تعلیم کی سہولتیں نہیں ہیں ۔ عورتوں اور بچوں کی صحت ایسے حالات میں بُری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ بیماری کی صورت میں کوئی ڈاکٹر یا کوئی ڈسپنسری میسر نہ ہو اور پھر روایات یہ ہوں کہ خواتین کا ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے پاس جانا معیوب سمجھا جاتا ہو تو ان حالات میں ان کی اذیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
ایسے ماحول میں شکنتلا اپنی کمیونٹی اور اپنے غربت زدہ گائوں کے لیے امید کی کرن ہے کیونکہ وہ لیڈی ہیلتھ ورکر ہے۔ وہ پڑھی لکھی نہیں‘ اس نے چھ ماہ کی تربیت حاصل کر کے چند بنیادی معلومات حاصل کر رکھی ہیں ۔اور اب وہ بڑی دل جمعی کے ساتھ صحت کے کارکن کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ اس سے پہلے وہ خود اور دوسری خواتین کئی طرح کے صحت کے مسائل کا شکار رہتی تھیں ۔ ہسپتال جا کر علاج کروانے کا تصور نہیں تھا ، ہاں کبھی بات بہت بگڑ جاتی تو مریض کو ہسپتال لے جایا جاتا ۔ مِٹھی کے سرکاری ہسپتال تک پہنچنا بھی ان کے لیے ایک بڑے مرحلے کو طے کرنا تھا۔
شکنتلا کے گائوں کی ان پڑھ غریب خواتین ایسی باتوں سے بے بہرہ تھیں کہ ماں اور بچے کی صحت کے تحفظ کے لیے کن چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے‘ لیکن اب حالات مختلف ہیں کیونکہ شکنتلا لیڈی ہیلتھ ورکر کی حیثیت سے ان کے درمیان موجود ہے۔ وہ تھرپارکر کی پسماندہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ناخواندہ خاتون ہے‘ رنگین کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا گیا گھاگھر اور روایتی زیور پہنے جب وہ ویکسینیشن کا باکس اور ہیلتھ بیگ اٹھا کر بستی میں نکلتی ہے تو یہ دلچسپ منظر لگتا ہے۔ ہر روز وہ پانچ سے سات گھروں میں جاتی ہے، حاملہ خواتین کو صحت کے حوالے سے مشورے دیتی ہے۔ ماں اور بچے کی بنیادی صحت کے مسائل کے حوالے سے شکنتلا کے پاس ابتدائی طبی امداد کے لیے ادویات موجود ہیں۔ وہ اپنے بیگ سے ضروری دوائیں نکال کر مریضہ کو دیتی ہے ، اسے سمجھاتی ہے کہ وہ اپنی غذا کا خاص خیال رکھے کیونکہ یہ اس کے اور آنے والے بچے کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ بستی کے گھروں میں موجود پانچ سال تک کے بچوں کی ویکسینیشن کرنا بھی شکنتلا کی ذمہ داری ہے۔ ویکسینیشن حاصل کرنے کے لیے وہ صبح اپنے کام پر آنے سے پہلے سپروائزر کے دفتر سے ویکسین لیتی ہے اور شام کو اپنا کام ختم کرنے کے بعد اسے اپنے ہیلتھ سپروائزر کو پورے دن کی کارکردگی کی رپورٹ دینا ہوتی ہے۔ وہ چونکہ تربیت یافتہ مڈوائف بھی ہے‘ اس لیے خواتین کے ڈیلوری اور زچگی کے معاملات بھی بخوبی سنبھال لیتی ہے۔ مِٹھی کی اس پسماندہ بستی میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کی وجہ سے یہاں بسنے والی ماں اور ان کے بچوں کی عمومی صحت بہتر ہوئی ہے۔ اپنے ہی جیسی ہیلتھ ورکر کو اپنے درمیان پا کر بستی کی عورتیں خوش ہیں ، ان کے مردوں کو بھی اس پر اعتراض نہیں ، یہی وجہ ہے کہ شکنتلا جس کیس کو شہر کے سرکاری ہسپتال بھیجنے کا کہتی ہے‘ وہ اس کی بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اب یہاں دوران زچگی مائوں کی اموات کی شرح کم ہوئی ہے جو شاندار کامیابی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں صحت ایک ایسی لگژری ہے جسے امراء تو بآسانی حاصل کر سکتے ہیں مگر غربت زدہ 60 ملین آبادی کو صحت کی بنیادی سہولتوں تک رسائی نہیں ہے۔ایسے میں شکنتلا جیسی ہزاروں صحت کارکن یا لیڈی ہیلتھ ورکرز کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں جو دور دراز گائوں‘ بستیوں‘ گھوٹھوں میں گھر گھر جا کر صحت اور تندرستی کا پیغام پہنچاتی ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جہاں صحت کے معاملات حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتے۔ ترقی یافتہ ملک اپنے جی ڈی پی کا 5 سے 14 فیصد صحت پر خرچ کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس میں سے بھی پبلک ہیلتھ سیکٹر کے لیے صرف 0.86 فیصد مختص ہوتا ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو صحت کے بحران کا سامنا ہے، خصوصاً ماں اور بچے کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بنیادی صحت کے مراکز مناسب تعداد میں نہ ہونے کی وجہ سے 89 فیصد زچگیاں گھروں پر غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھ سے ہوتی ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق ہر ایک ہزار میں سے چھیاسی مائیں زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور ہر ایک ہزار میں سے 86 بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے جان ہار جاتے ہیں۔ ماں اور بچوں کی شرح اموات کے حوالے سے یہ اعدادو شمار جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ ہیں۔
صحت کے حوالے سے ان مسائل کا حل یہی ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں تک بنیادی صحت کے مراکز قائم ہوں اور تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد بڑھائی جائے۔ اس وقت ملک بھر
میں تقریبا ایک لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کر رہی ہیں (کہیں یہ تعداد 106000 بھی درج ہے ) یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز صحت کے میدان میں قابل قدر خدمات سرانجام دے رہی ہیں ، مگر دوسری طرف حکومت کی بے قدری کا عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ان کو مستقل کرنے اور پچھلے واجبات ادا کرنے کے معاملے پر مجرمانہ غفلت اور سستی کی وجہ سے پنجاب میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اپنے جائز حقوق کے لیے سڑکوں پر آنا پڑا۔ دھرنا دیا‘ ننھے بچوں کو گودوں میں لے کر سخت سردی میں 32 گھنٹے کی بھوک ہڑتال کی ، تب کہیں جا کر حکومت کے سر پر جُوں رینگی اور پھر مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے بیان دیا کہ 30 اپریل تک حکومت لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تمام واجبات ادا کردے گی اور مارچ 2014ء سے وہ نئے پے سکیل کے مطابق تنخواہیں حاصل کریں گی۔ سوال یہ ہے کہ ان جائز مطالبات کو حکومت نے پہلے کیوں نہ مانا؟ اگر یہ صحت کارکن کام کرنے سے انکار کردیں تو پاکستان کی ستر فیصد آبادی بنیادی صحت کی سہولتوں سے محروم ہو جائے گی۔ حکومت‘ اپنے ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کو تو دور دراز علاقوں میں کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی اور نہ ہی لاکھوں روپے سے تعلیم حاصل کر کے بیرون ملک میں جانے والے ڈاکٹروں کو روک سکتی ہے ، لیکن صحت کے میدان میں ہیلتھ ورکرز جیسی بنیادی اکائی کو تو مضبوط کر سکتی ہے کیونکہ جیسے شکنتلا تھرپارکر کی پسماندہ بستی میں بیماروں کے لیے امید کی کرن ہے‘ ویسے ہی ہزاروں لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنے اپنے علاقوں میں اچھی صحت اور اچھی زندگی کی امید ہیں۔