تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     24-02-2014

مسلمان گروہوں کی جنگ میں قرآن کی حکمت عملی

یہ تیسری دفعہ ہے کہ آنے والے دنوں کی خوفناک تصویر کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا ہے۔ میڈیا ایک ایسا جادوگر ہے جس کی کھڑکی سے جنگوں کے لیے فضا ہموار کی جاتی ہے‘ دشمن کا خوفناک چہرہ پیش کیا جاتا ہے‘ جنگ میں برتری کے افسانے بیان ہوتے ہیں‘ میڈیا پر ہاری ہوئی جنگ جیتی اور جیتی ہوئی جنگ ہاری جاتی ہے۔ مخصوص دانشوروں کے ذریعے ایسی گائیڈ لائن فراہم کی جاتی ہے جس سے ایک بحث کو منطقی انجام تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ کوئی دانشور ایک پھلجھڑی چھوڑتا ہے جسے شروع میں ایک معمولی سا واقعہ یا عام سی بات سمجھا جاتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ اس پھلجھڑی کے دائرے میں پورا میڈیا آتا ہے اور اس کی چنگاریوں سے سلگنے لگتا ہے اور پھر یہ پورے معاشرے کو اپنی آگ کی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
آج سے چار دن پہلے یہ مجھے ایک پھلجھڑی ہی لگی تھی‘ جب اسے ایک سیکولر دانشور نے‘ جو ایک پروفیسر بھی ہیں، ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے چھوڑا تھا۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نمٹنے کے لیے دُور کی کوڑی لاتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو مل کر پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینا چاہیے تاکہ ان کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔ میں نے ان کے جواب میں کہا کہ یہ عالمی برادری افغانستان میں کس بری طرح ناکام ہو کر بستر بوریا لپیٹ رہی ہے۔ اس پر انہوں نے وہ حیرت ناک تصور پیش کیا جس سے مجھے ایک لمحے کے لیے خوف محسوس ہوا، لیکن میں اسے دیوانے کی بڑ سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صرف یورپی برادری لڑ رہی ہے، عالمی برادری کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ بھارت‘ چین اور روس مل کر پاکستان سے دہشت گردی کا صفایا کریں۔ میں چند دن تک اسے ان کا ایک خواب یا ان کی ایک خواہش سمجھتا رہا لیکن کل ایک خود ساختہ دفاعی سیکولر تجزیہ نگار نے اس تھیوری کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اردگرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، امریکہ‘ بھارت‘ چین اور روس یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان ان کے مجرموں کی پناہ گاہ بن چکا ہے اور پوری عالمی برادری کو مل کر یہاں سے ان دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہو گا۔ یہ دانشور یوں تو اس عالمی منظرنامے کو اس لیے پیش کر رہے تھے کہ حکومت کو ایک سخت ترین آپریشن کے لیے تیار کیا جائے لیکن چونکہ میں گزشتہ دو ایسے ہی واقعات اور اس طرح کی دانشورانہ پھلجھڑیوں کے عالمی تانوں بانوں سے بنے جال کو جانتا تھا اس لیے مجھے آنے والے دنوں کے منظرنامے سے خوف آنے لگا۔
پہلی دانشورانہ پھلجھڑی بھی اسی طرح اس وقت چھوڑی گئی تھی جب سوات میں امن معاہدے کے لیے گفتگو جاری تھی اور سارا میڈیا چیخ رہا تھا کہ حکومت ان لوگوں سے مذاکرات کرنے جا رہی ہے جو اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں، یہ ظالم ہیں۔ اس دوران ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں ایک بہت بڑے وکیل کی بیگم اور ایک این جی او کی سرگرم کارکن نے انکشاف کیا کہ چند دنوں کے بعد ایک ویڈیو منظرعام پر آنے والی ہے‘ جو اس سارے امن کے کھیل کا پانسہ پلٹ دے گی اور آپ کو علم ہو جائے گا کہ آپ کن سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ وہی ہوا، چند دن بعد سوات کی کوڑوں والی ویڈیو سامنے آ گئی جو تکنیک کے ہر معیار کے مطابق ایک جعلی ویڈیو تھی۔ اس ویڈیو کے ایک ایک فریم پر تفصیل کے ساتھ بحث کرتے ہوئے میں نے کالم بھی تحریر کیا، لیکن میڈیا نے چوبیس گھنٹے اس ویڈیو کو سچ بنا کر بار بار اس طرح پیش کیا کہ سوات میں آپریشن کی راہ ہموار ہو گئی۔ آج برسوں گزرنے کے بعد جنرل شاہد عزیز یہ اعتراف کرتے ہیں کہ امن معاہدہ طالبان نے نہیں حکومت نے توڑا تھا۔ 
دوسری پھلجھڑی بھی ایک اور عظیم اور سینیئر صحافی نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں چھوڑی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بریلویوں کو طالبان کے خلاف متحد کر دیا جائے تو وہ خود ان سے نمٹ لیں گے کیونکہ دوسری جانب طالبان میں اکثریت دیوبندیوں کی ہے۔ میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ ابھی تک تو آپ ان طالبان کو دہشت گرد کہہ کر ان سے جنگ کر رہے ہیں لیکن اگر آپ نے اسے مسلکی جنگ میں تبدیل کر دیا تو پورا ملک اس آگ میں جلنے لگے گا۔ یہ پھلجھڑی اچانک نہ تھی۔ اس سے پہلے گزشتہ کئی برسوں سے امریکی سفارت خانہ مزاروں کی تزئین و آرائش کے نام پر ڈالروں کی بارش کر چکا تھا۔ لاہور میں امریکہ کا قونصلیٹ جنرل برائن ڈی ہنٹ اس مشن پر انتھک کام کر چکا تھا۔ پھر ایسا ہی ہوا، ایک مسلک کو دوسرے مسلک کے خلاف استعمال کیا گیا‘ لیکن ان عقل کے اندھوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس امت کا کوئی بھی مسلک ہو اسلام کے بنیادی اصولوں پر وہ ان کے سیکولر نظریات کا ساتھی نہیں ہو سکتا۔ 
اسی ترنگ میں آ کر ان سیکولر قوتوں نے توہین رسالت قانون سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ بریلوی مکتبہ فکر کے سرفروشان تو عشق رسول سے سرشار ہوتے ہیں۔ امریکی انہیں اپنا ہمنوا سمجھتے تھے لیکن وہاں غازی علم الدین کی یاد پھر تازہ ہو گئی۔ گورنر سلمان تاثیر جان سے گئے اور وہ ساری پھلجھڑیاں سرد پڑ گئیں جو ان دانشوروں نے چھوڑی تھیں۔
یہ ہے وہ منظرنامہ جو مجھے خوف کا شکار کر رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کا مجاہد میجر مست گل ایف سی اہل کاروں کی ظالمانہ موت میں شامل تھا۔ خوف کے راستے دکھائے جا رہے ہیں کہ اگر علاقائی ملک بھارت‘ ایران‘ چین اور روس امریکہ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ چلے گئے تو انہیں ان دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاکستان میں کارروائی کا لائسنس دے دیا جائے گا۔ حکومت کے لیے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ آپریشن کر کے خود اس دہشت گردی کو ختم کر دے۔ ایسی صورت حال ہوئی تو امریکہ، مغرب اور بھارت کی زبان بولنے والے دانشور چیخنے لگیں گے کہ فوج پوری تندہی اور خلوص سے آپریشن نہیں کر رہی۔ یہ اپنے اثاثوں (Assets) پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ ان کے نزدیک آج بھی ''گڈ‘‘ اور ''بیڈ‘‘ طالبان کے تصورات زندہ ہیں؛ حالانکہ ان برسوں میں فوجی اور سکیورٹی اداروں نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی لیکن ان دانشوروں اور دفاعی تجزیہ نگاروں کو تو وہی کہنا ہے جو ان کے آقا کے زیر تسلط مغربی اخباروں میں تجزیاتی طور پر لکھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہر آپریشن کے آغاز میں اس کا ساتھ دیا اور پھر جب فوج اس میں الجھ گئی تو اس پر انگلیاں اٹھائیں۔ بلوچستان سے لے کر سوات تک ہر جگہ انہیں انسانی حقوق کی پامالی اور لاپتہ افراد کی کہانیاں یاد آنے لگیں۔
اگر اس دفعہ بھی ایسا ہوا تو وہ منصوبہ جو ان کے ذہنوں میں پک رہا ہے، جس میں علاقائی طاقتوں ۔۔۔ بھارت‘ چین اور ایران کو امریکہ کے ساتھ ملا کر پاکستان میں کارروائی کا آغاز کرنا ہے، یہ سب اس کے لیے راہ ہموار کریں گے۔ یہ بڑی بڑی رپورٹیں شائع کریں گے، دونوں طرف سے انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کریں گے، فوج کو نیم دلانہ کارروائی کا طعنہ دیں گے اور ٹاک شوز میں شور مچے گا۔ یہ ہے وہ دلدل جس میں دھکیلنے کے لیے وہ ساری قوتیں جمع ہو چکی ہیں جو کراچی سے گلگت تک اور 1947ء سے آج تک فوج کو لعن طعن کرتی رہی ہیں اور جو آج بھی مشرقی پاکستان کی جھوٹی کہانیوں سے لوگوں کے دل فوج سے منتفر کرتی ہیں۔
راستہ کیا ہے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ دونوں جانب انتقام کی آگ ہے۔ شریعت میں کسی صورت میں قیدی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں لیکن طالبان کے کچھ گروہ یہ کر گزرے ہیں۔ ادھر ریاست اگر انتقام پر اتر آئے تو آگ بھڑکتی ہے، اس آگ میں وہ لوگ بھی جھلستے ہیں جو امن چاہتے ہیں۔ ان کی امن کی خواہش اسی وقت سامنے آ سکتی ہے اگر وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے گفتگو کی میز پر آتے ہیں۔ جو امن پر راضی ہو اسے ساتھ ملائو اور پھر جو مخالفت کرے اسے کچل کر رکھ دو۔ یہی قرآن کا حکم ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: ''اور اگر دو گروہ اہل ایمان میں آپس میں لڑ پڑیں تو صلح کرا دو ان دونوں کے درمیان۔ پھر اگر کوئی زیادتی کرے ان میں سے ایک دوسرے گروہ پر تو جنگ کرو اس سے جس نے زیادتی کی یہاں تک کہ وہ پلٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو صلح کرا دو ان دونوں گروہوں میں عدل کے مطابق اور انصاف کرو۔ بے شک اللہ پسند کرتا ہے انصاف کرنے والوں کو‘‘ (الحجرات:8) اللہ نے جنگ کا راستہ ایک دفعہ اور صلح کا راستہ دو دفعہ دکھایا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved