تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     24-02-2014

فطرت کا انتقام

آج کل‘ گزشتہ دسمبر سے جاری طوفانی بارشیں برطانیہ کے مختلف جزیروں پر شدت سے برس رہی ہیں۔ کئی علاقے زیر ِآب ہیں۔ ان حالات میں بہتر یہی ہے کہ موقع پاتے ہی یہاں سے کھسک لیا جائے؛ چنانچہ طلعت کے لافانی نغمے۔۔۔''اے مرے دل کہیں اور چل‘‘۔۔۔ کی دھن گنگناتے ہوئے رخت سفر باندھا اور سری لنکا سدھارے ۔کیا کہنے اس دھرتی کے‘ جب سرخ انگارا سورج مشرق سے ابھرے اور کھیتوں، ندیوں، جھیلوں اور تالابوں کو روشن کردے۔ 
سری لنکا میں گاہے گاہے ہونے والی بارش ویسی سرد مہر نہیں جیسی انگلینڈ میں ہے؛ بلکہ جب سورج نکلنے کی آس ہو تو بارش اچھی لگتی ہے ۔ برطانیہ سے آنے والے سیاح طویل برسات کی، جس کے ختم ہونے کے آثار تاحال ظاہر نہیں‘ شکایت کرتے ہیں اور محکمہ موسمیات کی وارننگ کو خفگی سے سنتے ہیں کہ سرد بارشوںکا یہ سلسلہ فروری کے آخر تک بھی تھمنے کا کوئی امکان نہیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ ٹھٹھرا دینے والے موسم کا مارچ‘ مارچ کے کچھ دن بھی لپیٹ میںلے لے۔ میڈیا پر موسم میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلوں اور گلوبل وارمنگ کی تھیوری پر بھی بات ہوتی رہتی ہے۔ اگرچہ اہل ِ برطانیہ شکوہ و شکایت زبان پر لائے بغیر عام مشکلات کو غیر جذباتی انداز میں برداشت کرلیتے ہیں، لیکن موسم کے حوالے سے الزام تراشیوں کا سلسلہ عروج پر ہے۔ اس ضمن میں لفظ Bloody زبانِ زد ِ خاص و عام ہے۔ کاشت کار Environment Agency کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ اس نے دریائوں کی وقت پر ''بھل صفائی ‘‘ نہیںکی؛ جبکہ ایجنسی کے ماہرین کسانوں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اُن کے کاشت کاری کے تبدیل شدہ طریقے ہی دریائوں میں سیلاب کا باعث بنے۔ اس کے بعد فریقین مل کر حکومت کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ اس نے ماحول کے لیے رکھے گئے بجٹ میں کٹوتی کی۔ مسلسل بارشوں کے باعث شاہراہیں مفلوج، ائیرپورٹ معذور، مسافر خوار؛ چنانچہ الزام تراشی شروع۔ ٹرینوں اورجہازوں کے شیڈول متاثر ہونے کی وجہ سے مسافروں کو تاکید کی جاچکی ہے کہ وہ انتہائی ہنگامی حالات کے علاوہ سفر کرنے سے گریزکریں ۔ لندن کی ٹیوب سروس بند ہونے سے لاکھوںافراد متاثر ہوئے۔
موسم کے ہاتھوں پریشانی اٹھانے والوں کی تمام تر توپوں کا رخEnvironment Agency کے چیئرمین لارڈ سمتھ کی طرف ہے جنہیں لیبر پارٹی نے نامزد کیا تھا۔ موسم کی شدت سے‘ سب سے زیادہ متاثر علاقے سمرسٹ کے Levelsہیں۔ یہ سطح سمندر سے پچیس فٹ بلند چکنی مٹی سے بنائے گئے میدان ہیں۔ کبھی یہ سمندر کا حصہ تھے لیکن جب چھ ہزار سال پہلے سمندر پیچھے ہٹا تو انسان نے خالی جگہ کو بلند کرکے سطح مرتفع بنا ڈالی۔ اس پسِ منظر میں سمرسٹ کائونٹی میں موجود یہ Levels انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔موجودہ طوفانی بارشوں میں ان میدانوں کے زیر ِا ٓب آنے کی وجہ سے اس علاقے میں موجود کسانوں کے فارم اور گھر بھی پانی میں ڈوب گئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ماحولیاتی ایجنسی پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے وقت پر دریائوں کی صفائی نہیںکی، اس لیے پانی کا نکاس نہ ہوا؛ تاہم ایسا پہلی مرتبہ نہیںہوا، گزشتہ تین سال سے جب بھی طوفانی بارشیں ہوتی ہیں، یہ علاقے زیر ِ آب آجاتے ہیں۔ 
ماحولیات کے ماہر جارج مونبویٹ (George Monbiot) نے ''دی گارڈین‘‘ میں لکھا کہ اس سیلاب کی اصل ذمہ داری کسانوں پر عائد ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔۔۔''سیلاب آنے سے چھ ہفتے قبل سائنسی رسالے ''Soil Use and Management‘‘ نے خبردار کیا تھا کہ تباہی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ سطح زمین پر بہنے والے پانی کا رخ انگلینڈ کے جنوب مغربی علاقوں کی طرف ہے، جہاںسمرسٹ Levels واقع ہیں۔ اس کی وجہ سے ہنگامی صورتِ حال پیدا ہونے والی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کاشت کاری کے طریقوں میں تبدیلی ہے۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق اب کھیتوں میں پانی جذب ہونے کی بجائے باہر بہنے لگتا ہے۔ اب وہ رقبہ بھی زیرِ کاشت آچکا ہے جو ماضی میں ویران پڑا رہتا تھا۔ کاشت کار بھی موسم بہار کی بجائے موسم ِسرما میں فصلیں اگانے لگے ہیں جبکہ موسمِ برسات میں زمین کو خالی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بدترین بات یہ کہ کچھ عرصہ پہلے مکئی کی کاشت 1,400 ہیکٹر رقبے پر ہوتی تھی، لیکن 1970ء سے اب تک اس میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اب مکئی 160,000 ہیکٹر رقبے پرکاشت کی جاتی ہے۔ ‘‘
جارج مونبویٹ وضاحت کرتے ہیں۔۔۔ ''جس زمین پر مکئی کاشت ہوتی ہے ،ا س کی سطح خستہ ہونے کی وجہ سے پانی کھیتوں سے باہر بہنے لگتا ہے۔ ‘‘ انگلینڈ میں مکئی کی کاشت میں اضافہ جانوروںکو خوراک مہیاکرنے کے لیے کیا گیا۔ اس سے بائیو ایندھن بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے مکئی کی کاشت پر ماضی میں لاگوکیا گیا کنٹرول اب ختم کیا جاچکا ہے ۔ اس پر مونبویٹ کہتے ہیں۔۔۔'' جو فصل سب سے زیادہ سیلاب کا باعث بنتی ہے، اس پر حکومت کا کوئی کنٹرول ہی نہیں۔‘‘درحقیقت کاشت کاروں کی لابی کنزرویٹو پارٹی پر بہت اثر رکھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ کاشت کار وں کا یہ کہنا بجا ہے کہ Environment Agency کے فنڈز دیگر منصوبوں کی طرف منتقل کردیے گئے ، جس کی وجہ سے اُنہیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ 
اب جبکہ ہزاروں گھر اور فارم زیرِ آب ہیں، انشورنس انڈسٹر ی کو بھی بھاری کلیم ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ انشورنس ایسوسی ایشن کے چیف نے حزبِ اختلاف کے رہنما ایڈورڈ ملی بینڈ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ انشورنس کمپنیوں پر دبائو ڈال رہے ہیںکہ وہ ''ہفتوں کے اندر اندر‘‘ کلیم ادا کریں۔ اس سے خدشہ ہو چلا ہے کہ انشو رنس پریمیم میں اضافہ ہوجائے گا۔ ان بارشوں کی وجہ سے جائیداد کی مارکیٹ ویلیو بھی متاثر ہوگی۔ اس سے پہلے دریائوں کے قریب مکانات اس لیے شوق سے مہنگے داموں خریدے جاتے تھے کہ فطرت کا نظارہ کیاجاسکتا تھا، لیکن اب خریدار خریدنے سے پہلے علاقے کی فلڈ ہسٹری کا بھی جائزہ لے گا۔ برطانیہ کی معیشت طویل بحران کے بعد سنبھلنا شروع ہوئی ہی تھی کہ ان بارشوںنے آلیا۔ اگر یہ موسم چند ماہ تک جاری رہا تو پھر اہل ِ برطانیہ کو ایک اور دھچکے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چونکہ برطانیہ میں کاشت کاروں کو بھاری بھرکم امدادی رقوم دی جاتی ہیں، اس لیے اگرحکومت چاہے تو ان کے کاشت کاری کے طریقوں کو کنٹرول کرسکتی ہے، لیکن جارج مونبویٹ کے مطابق۔۔۔''ہم اب تک اس قدیم طرزِ فکر کو اپنائے ہوئے ہیں کہ دولت مند زمینداروں کو اربوں پائونڈ دے کر ہم ان سے بہت اہم چیز حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ ''نیشنل فارمر ز یونین‘‘ کے شکوے شکایت جاری رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اُنہیں تین ارب 60 کروڑ پائونڈ سالانہ ادا کرتے ہیں اور وہ اس کے عوض جنگلی حیات کوتباہ کرنے، دریائوںمیں طغیانی کا باعث بننے والی فصلیں کاشت کرنے اور زمین کو تباہ کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں بھی کئی سالوں سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ پہلے‘ مون سون میں دریائے سندھ میں طغیانی آتی تو پانی کھیتوں میں داخل ہوکر زرخیز مٹی بچھادیتا، اس کے بعد پانی اترجاتا تو زمین زرخیز ہوجاتی۔ لیکن اب کئی سالوں سے دریاکے کناروں پر آبادیوں کی تعمیر اورنہروں اور ڈیموں کی وجہ سے پانی واپس دریا میں جانے کی بجائے ہفتوں، بلکہ مہینوں تک کھیتوں میں کھڑارہتا ہے۔ اس سے قابل ِکاشت رقبہ بربادہورہا ہے۔ نہروں اور ڈیموں کی وجہ سے سیم بھی زمین کو خراب کررہی ہے۔سائنسی ترقی کے زعم میں مبتلا انسان نے یہ سمجھ لیا کہ وہ فطرت کو تسخیر کرسکتا ہے، لیکن یہ اس کی بھول ہے۔ اس تکبر کی اُسے بھاری قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved