تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-02-2014

میرٹ صرف لاہور اور اہلِ لاہور کا حق ہے؟

لاہور میں کامیابی سے چلنے والے میٹرو بس منصوبے کو اب پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی شروع کرنے کا اعلان ہو چکا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس کا منصوبہ بڑے ریکارڈ وقت میں مکمل کروایا اور ہر رکاوٹ دور کرتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی یہ ساری پھرتیاں‘ صلاحیتیں اور کاوشیں صرف اور صرف لاہور کے لیے دستیاب ہیں۔ملتان جیسے شہروں میں بسنے والے‘ لگے بندھے روٹین والے کاموں سے بندھے ہوئے ہیں۔ اول تو ملتان جیسے شہروں کی باری ہی نہیں آتی‘ آ جائے تو کام شروع نہیں ہوتا ‘کام شروع ہو جائے تو فنڈز نہیں ملتے‘ مل جائیں تو اس طرح ملتے ہیں جیسے فقیروں کو خیرات۔ قسط در قسط۔ نہ کام کا معیار لاہور جیسا اور نہ رفتار لاہور جیسی۔ خود وزیراعلیٰ لاہور میں کسی کی نہ تو مداخلت پسند کرتے ہیں اور نہ کسی کی سفارش قبول کرتے ہیں۔ ادھر ہم جیسے دو نمبر شہروں کا حال بالکل الٹ ہے۔ یہاں سارا نظام نا اہل اور نالائق سیاسی قیادت کے سپرد ہے۔ دور کسی کا بھی ہو اور کیسا ہی ہو‘ اہلِ ملتان کو ''جھونگے‘‘ میں ملنے والے منصوبے بھی سیاسی رہنمائوں اور سفارشیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور اچھا بھلا منصوبہ کاغذوں سے نکل کر تکمیل تک کے دوران اتنا تبدیل ہو جاتا ہے کہ پہچانا ہی نہیں جاتا۔ گیلانی دور میں بھی ایسا ہی ہوا اور خادمِ اعلیٰ دور بھی اسی قسم کا ہے۔
لاہور میٹرو ستائیس کلو میٹر طویل ہے۔ اس میں آٹھ اعشاریہ تین کلو میٹر کا فلائی اوور ہے۔ اس فلائی اوور کے تین سو چھ ستون ہیں اور یہ فلائی اوور دو سو تیس دن میں بنا ہے۔ اس فلائی اوور کے ستونوں کے لیے ڈالی جانے والی بنیادوں کی لمبائی پینتالیس کلو میٹر اور اس میں دو ہزار دو سو نواسی گارڈر استعمال ہوئے ہیں۔ اوسطاً باسٹھ گارڈر روزانہ ڈالے گئے۔ اس طویل فلائی اوور کے اوسطاً تین دن میں 
چار ستون بنے جبکہ ملتان میں رشید آباد چوک پر بننے والا سات ستونوں پر مشتمل ''فلائی اوور کا بچہ‘‘ ساڑھے دس مہینے میں بنا۔ اگر لاہور میٹرو کا فلائی اوور اسی رفتار سے بنتا تو اس پر سوا اڑتیس سال لگتے مگر وہ محض ساڑھے سات ماہ میں بن گیا۔ نہ کوئی سیاسی مداخلت ہوئی نہ کوئی سفارش سنی گئی۔ منصوبہ جیسا تھا ویسا بن گیا؛ جبکہ یہ شہر ناپرساں سدا سے نااہلوں اور نالائقوں کے ہاتھوں خراب و خستہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور کا کیا کہنا۔ کسی منصوبے کو ڈوگروں نے تبدیل کروا دیا کسی پر جاوید صدیقی نے نظر کرم کردی۔ کوئی فلائی اوور کمشنر صاحب نے تبدیل کروا دیا اور کسی کو ایم پی اے نے خراب کروا دیا۔ اب خادمِ اعلیٰ کا دور آیا ہے تو ملتان کی قسمت صرف اس حد تک بدلی ہے کہ پہلے مدارالمہام پیپلز پارٹی والا ڈوگر ہوتا تھا‘ اب ''مخدوم شکن‘‘ ن لیگ والا ڈوگر ہے جس میں کوئی ایک بھی خوبی ایسی نہیں جسے بغیر شرمندہ ہوئے بیان کیا جا سکے۔ یہی حال دیگر سیاسی قیادت کا ہے۔
قریب ڈیڑھ عشرہ پہلے کی بات ہے ملتان میں کچہری چوک پر فلائی اوور بننے کا منصوبہ بنا۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ ملتان میں ایک تھرتھلی مچ گئی۔ شہر میں پہلا فلائی اوور بننے جا رہا تھا ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کہے سڑک کھلی کردیں فلائی اوور نہ بنائیں۔ ایک سیاسی کھڑپینچ کی زمین کنارے پر تھی‘ وہ کہنے لگا کہ نہیں‘ فلائی اوور بننا چاہیے۔ اسے خدشہ تھا کہ سڑک کھلی ہوئی تو اس کی کمرشل زمین اس توسیع کی زد میں آ جائے گی۔ اس نے وہاں پلازہ بنانا تھا۔ لہٰذا طے پایا کہ فلائی اوور ہی بنے گا۔ اب اس کی لمبائی پر فساد شروع ہو گیا۔ ماہرین اور ٹریفک انجینئرنگ والوں کا کہنا تھا کہ یہ فلائی اوور چوک کچہری سے گزر کر آٹھ نمبر چونگی تک ہونا چاہیے تا کہ نیچے سے گزرنے والی مزید دو سڑکوں کو بائی پاس کر کے ٹریفک کی روانی کو بہتر کیا جا سکے اور ہر وقت کے ٹریفک جام سے نجات مل سکے۔ اب نیا جھگڑا شروع ہو گیا۔ ایک ایم پی اے کا گھر نیچے آنے والی دو سڑکوں میں سے ایک پر تھا۔ اسے لمبا فلائی اوور پسند نہ آیا بلکہ یوں کہیں کہ وارا نہ کھاتا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ فلائی اوور اس کے گھر کو مڑنے والی سڑک سے پہلے ختم ہو جائے۔ ایک سینیٹر کا بھی یہی اصرار تھا۔ لہٰذا فلائی اوور چھوٹا ہو گیا۔ ایم پی اے کے گھر کو جانے والی سڑک اور سینیٹر کے گھر کی سڑک ''بچ‘‘ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں فلائی اوور چھوٹا کروانے سے نقصان ہوا کیونکہ کچہری روڈ پر سڑک کے درمیان ڈیوائڈر بن گیا اور ہر دو حضرات کو اپنی سڑک پر پہنچنے کے لیے آتے یا جاتے وقت لمبا چکر لگانا پڑ گیا۔ اب دو سال پہلے اس فلائی اوور کو دوبارہ پرانے ڈیزائن کے مطابق لمبا کردیا گیا ہے اور نیچے والی دونوں سڑکوں پر آنا جانا بھی آسان ہو گیا ہے‘ ٹریفک زیادہ رواں اور تیز رفتار ہو گئی ہے۔ عوام کو اس مداخلت کے باعث تیرہ چودہ سال مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ منصوبے کی لاگت کئی گنا بڑھ گئی۔ اب اس منصوبے کی قسط وار تکمیل سے یہ نقصان ہوا ہے کہ جہاں توسیعی حصے کو جوڑا گیا ہے وہاں فلائی اوور میں ایک فالتو گہرائی نما ڈھلوان پیدا ہو گئی ہے۔ اسے کہتے ہیں سو پیاز اور سو جوتے کھانا۔ 
اب جن شہروں میں میٹروبس کا منصوبہ بنا ہے ملتان ان میں شامل ہے۔ گزشتہ روز اس سلسلے میں سنا ہے کوئی میٹنگ ہوئی ہے۔ اس میٹنگ میں ضلعی انتظامیہ اور مسلم لیگ ن کے نمائندے تھے۔ سیاسی طور پر صورتحال یہ ہے کہ ملتان شہر کی دونوں قومی اسمبلی کی نشستیں تحریک انصاف کے پاس ہیں مگر شہر کی نمائندگی مسلم لیگ ن کے ہاتھ آئی ہوئی ہے۔ اس میٹنگ میں مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں آنے والی خواتین ارکان اسمبلی اور غیر منتخب مسلم لیگی عہدیدار بھی شریک تھے۔ میٹروبس کے روٹ کے بارے میں تجاویز دی گئیں۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ایم این اے اور ایم پی ایز نے بھی بساط بھر تجاویز دیں اور ان کی تجاویز پڑھ کر پھر ڈیڑھ عشرہ پرانی تجاویز یاد آ گئیں جو اس وقت کے منتخب ارکان اسمبلی و سینیٹ نے دی تھیں جن میں عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد اور سیاسی فوائد کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ اس میٹنگ میں بجائے اس کے کہ سوسائٹی کے مختلف طبقوں کو جن میں تاجر‘ دکاندار‘ طالب علم‘ اساتذہ‘ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو اعتماد میں لیا جاتا اور اس دوررس نتائج اور فوائد کے حامل پراجیکٹ بارے آرا لی جاتیں حسب سابق معاملہ پھر سیاستدانوں کے ہاتھ میں دیا جا رہا ہے بلکہ صرف ایک سیاسی پارٹی کے کھڑپینچوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ عوامی مفاد کا یہ منصوبہ بے شک مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں بننے جا رہا ہے مگر یہ عوام کے پیسوں سے عوام کے لیے بننے جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن بجاطور پر اس کا کریڈٹ لینے کی حق دار ہے مگر منصوبہ بناتے وقت اسے سیاسی کے بجائے عوامی امنگوں کے مطابق بنانا چاہیے۔ 
میں ذاتی طور پر رجائی شخص ہوں اور تب تک منفی نتائج اخذ نہیں کرتا جب تک ایسی کوئی بات دیکھ نہ لوں۔ الیکشن لڑنے والے سیاستدانوں کی سوچ کسی صورت بھی اپنے حلقے سے باہر نہیں نکلتی اور ا ن کی کل ذہنی استعداد ووٹوں کے حصول سے آگے سوچنے سے قاصر ہے۔ سینیٹر جاوید علی شاہ کے نزدیک اس بس منصوبے کے لیے بہترین روٹ یہ تھا کہ یہ چوک ناگ شاہ سے شروع ہو اور متی تل روڈ پر بننے والی نئی کچہری پر ختم ہو۔ یہ عظیم الشان روٹ شجاع آباد اور جلال پور پیروالہ (جو ان کا خاندانی حلقہ ہے) سے ان کے متوقع ووٹروں کو ضلعی کچہری تک سہولت سے پہنچانے کے لیے بڑا کارآمد ہوگا تاکہ وہ اپنے مقدمات کی بہ آسانی پیروی کر سکیں۔ اگر ان کے تجویز کردہ روٹ پر میٹروبس کو چلایا جائے تو اس کے کئی دیگر فوائد بھی ہوں گے۔ پہلا یہ کہ یہ روٹ صبح عدالت لگنے کے وقت ناگ شاہ سے کچہری تک اور عدالتی وقت ختم ہونے پر کچہری سے ناگ شاہ تک کے علاوہ باقی سارا دن خالی ہوگا اور دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ روٹ شہر میں نہ تو داخل ہوگا اور نہ ہی عوام کے لیے کسی ''تنگی‘‘ کا باعث بنے گا۔ 
یہ ملتان والوں کی بدقسمتی ہے کہ انہیں ایک عرصے سے بھتہ خور‘ قبضہ گروپ اور جہالت سے لبالب قیادت مل رہی ہے۔ اگر کبھی سیاسی قیادت تبدیل بھی ہوئی تو یہ تبدیلی محض نام اور چہروں تک محدود رہی ہے‘ عملی طور پر رتی برابر فرق نہیں پڑا۔ پہلے مخلوق رانا صاحبان کی چیرہ دستیوں کا شکار تھی۔ آج ڈوگر بادشاہ کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ملتان کو اول تو کچھ ملتا نہیں اور بفرض محال مل جائے تو جہالت ماری مفاد پرست سیاسی قیادت ہر شے برباد کر دیتی ہے۔ اللہ جانے لاہور کے علاوہ میرٹ خادم اعلیٰ کی پہلی ترجیح کیوں نہیں؟ کیا میرٹ صرف لاہور اور اہلِ لاہور کا حق ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved