تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     24-02-2014

میز اور میدان

ضروری ہے کہ پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ طاقت کا استعمال محض ردعمل میں نہ ہو بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جائے اور صرف نظر آنے والی ضربیں ہی نہ لگائی جائیں بلکہ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے طالبان کو بے عمل کرنے کی کوشش بھی ہو۔

 

معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ حکومت نے کہہ دیا کہ مذاکرات ہوں گے تو طالبان صرف بات چیت سے معاملہ حل کرنے پر مائل ہو جائیں گے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ طالبان کی کسی حرکت سے برانگیختہ ہوکر حکومت رجز پڑھتے ہوئے ان کے خلاف فوج حرکت میں لے آئے ۔ مذاکرات کے ساتھ ساتھ مسلسل تنگ ہوتا ہوا گھیرا اور کسی بھی دہشت گرد کارروائی کے بھیانک نتیجے کا خوف ہی ان راہ گم کردہ لوگوں کو واپسی کا راستہ دکھا سکتا ہے۔ گفتگو اوردباؤ ساتھ ساتھ چلانے کایہ طریقہ بالکل سادہ ہے لیکن اس طریقے پر کامیابی سے وہی عمل کرسکتا ہے جو طاقتور ہو اور اپنے اہداف کے بارے میں یکسو ہو۔کمزور فریق کبھی گفتگو کو اپنی طاقت سمجھ کر آگے بڑھتا ہے اور کبھی دوسری سمت سے آنے والا دباؤ اسے اس کی کمزوری کا احساس دلا دیتا ہے۔ اپنی طاقت اورکمزوری کے اسی الجھاؤ سے نکلنے کی کوشش میں وہ صورت حال میں پھنس کر تباہ ہوجاتا ہے یا تحلیل ۔ پاکستانی ریاست کے مقابلے میں اگر طالبان کو(بفرض محال) ایک فریق مان بھی لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست طالبان کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے پاس موجود جنگی سازوسامان امریکہ کے برابر نہ سہی لیکن شمالی وزیرستان میں پوشیدہ شدت پسندوں کے مقابلے میں بے حد وبے حساب ہے۔ طالبان کے پاس خواہ کتنے ہی آدمی ہوں ان کی تعداد پاکستان کی فوج کا عشر عشیر بھی نہیں اور ان کے پاس کتنا ہی اسلحہ ہو وہ ریاستی اداروں کی تباہی کے لیے ناکافی ہے۔ طاقت کا یہ توازن بتاتا ہے کہ بیک وقت مذاکرات اور آپریشن کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے، طالبان کے پاس نہیں۔ان کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ ہے الجھا دینے کی صلاحیت، ریاست کو واضح اہداف طے کرنے سے باز رکھنے کے حیلے اور کچے پکے نظریات جن کے ذریعے عوام میں وہ اپنے ہمدردڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
طالبان کی یہ کامیابی ہی سمجھی جائے گی کہ گزشتہ تیرہ سال سے ریاست ان کے بارے میں کوئی واضح رویہ اختیار نہیں کرسکی۔اگرچہ اس کامیابی کی بہت سی وجوہ ہمارے ریاستی نظام میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ طالبان نے بڑی مہارت سے کبھی کسی علاقے پر قبضہ جمانے کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ پاکستان کو توڑنے کی کسی بھی کوشش میں وہ اپنے ہمدردوں سے محروم ہوجائیں گے اورحکومت انہیں آسانی سے کچل دے گی۔ عملی طور پر قبائلی علاقوں کو اپنی عملداری میں رکھ کر بھی انہوں نے کبھی اس کو پاکستان کے جغرافیے سے الگ اکائی کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ ہر ممکن کوشش کی کہ اس علاقے کے کاروباری تعلقات پاکستان کے دیگر حصوں کے ساتھ بغیر کسی مشکل کے قائم رہیں۔ یہ ان کی کمزوری نہیں بلکہ حکمت عملی رہی ہے کہ میران شاہ کی منڈی میں چیچہ وطنی اور سرگودھا سے کینو لے جانے والے سوداگر بھی کام کر رہے تھے اور سندھ سے کیلا اورآم بھی بدستور پہنچ رہے تھے۔ منڈیوں کو اس طرح کھلا رکھ کر انہوںنے ہمیشہ حکومت کو ایک مخمصے میں رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ کسی بھی بڑی حکومتی کارروائی سے بچے رہے۔ کسی جغرافیے کا ذکر کیے بغیر انہوں نے اپنے نظریات کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا کہ عام آدمی توکیا، کئی خواص بھی ان سے نظریاتی حد تک متفق رہے۔ یوں اپنے نظریات کی آڑ میں وہ بخوبی اپنے مقاصد کو چھپانے میں کامیاب رہے اور پورا ملک کبھی تو نظریاتی ردوقبول کی بحث میں الجھ جاتا اورکبھی ان کی دہشت گردی سے سہم جاتا۔ نظریاتی بحث کا آہنگ میڈیا کی وجہ سے اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ ہماری پہلے سے کمزور ریاست کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے کترانے لگتی ہے ۔ بحث ختم ہوتی ہے نہ حکومت کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ 
حکومت میں یکسوئی کی کمی کی ایک وجہ یہ رہی کہ 2001ء سے لے کر 2008ء تک طالبان سے منسلک تمام معاملات عملی طور پر فوج کے ہاتھ میں رہے ہیں۔ 2002 ء سے لے کر 2008ء کے انتخابات تک ملک میں جو سیاسی بندوبست کام کرتا رہا ہے اس کی وقعت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس وقت کی وفاقی کابینہ کے چار وزراء نے مختلف اوقات میں مجھے بتایا کہ ملک میں دہشت گردی کے سدباب کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر کبھی کابینہ میں گفتگو نہیں ہوئی۔2008ء کے بعد آنے والی حکومت نے بھی طالبان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کو فوج کے پاس ہی رہنے دیا اور خود نظریاتی محاذ سنبھال لیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے اس طرز عمل سے طالبان کو ایک نظریاتی حریف مل گیا جس کا جواب دینے کی کوشش میں انہوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر ایک بیانیہ تشکیل دیا جس کے مطابق شریعت ، پاک فوج کی حیثیت ، جمہوریت اور افغانستان میں امریکی موجودگی جیسے نازک مسائل پر ایک واضح پوزیشن اختیار کرلی ، جس سے اس ملک کی عظیم اکثریت اتفاق نہیں کرتی لیکن ایک بڑی اقلیت کے نزدیک یہ بیانیہ قابل قبول ہے۔2013ء کے الیکشن کے بعد وفاق اور خیبرپختونخوا میں ایسی حکومتیں وجود میں آئیں جنہوں نے پاکستان میں طالبان کو افغانستان میں امریکی موجودگی کا ردعمل قرار دیا اور عوام سے یہ مینڈیٹ بھی حاصل کرلیا کہ ان سے نمٹنے کے لیے انتظامی اقدامات کے بجائے سیاسی طریقہ اختیارکیا جائے گا۔گویابارہ سال بعد ہی سہی یہ موقع آگیا کہ طالبان اور دہشت گردی پر پہلی بار سیاسی حکومتوں نے غوروخوض کے بعد (غلط یا صحیح کی بحث میں پڑے بغیر) کوئی پالیسی بنالی ۔ اب یہ پالیسی کابینہ میں زیر بحث بھی آتی ہے اورسو فیصد زمینی حقائق سے سیاسی حکومت باخبر بھی رہتی ہے۔ نظریاتی بحثیں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے طالبان کے بندوبست کا کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور بنا لیا ہے اور اس ابہام کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جو اس معاملے سے سیاسی قیادت کی دوری کی وجہ سے پیدا ہوچکا تھا۔ 
سیاستدانوں کی اس مسئلے کے حل کی تلاش میں شمولیت کی وجہ سے جہاں کئی چیزیں واضح ہوئی ہیں وہاں ایک نیا سوال یہ پیدا ہونے لگا ہے کہ کیا ذمہ دار ادارے اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس مسئلے کو ضرورت پڑنے پرطاقت کے ذریعے حل کرسکیں؟ شاید بار بار اس سوال کے اٹھنے کی وجہ سے طالبان نے بھی ریاستی مشینری کونرم چارا جان کر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے مذاکرات کو بے معنی ثابت کردیا ہے۔ کمزوری کے اس تاثر کو مکمل طور پر زائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ طاقت کا استعمال محض ردعمل میں نہ ہو بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جائے اور صرف نظر آنے والی ضربیں ہی نہ لگائی جائیں بلکہ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے طالبان کو بے عمل کرنے کی کوشش بھی ہو۔ حکومت کو اس بات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بڑی فوجی کارروائی کسی سیاسی طوفان کو جنم دے سکتی ہے، بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ اگر دہشت گردی کا سدباب نہ ہو سکا تو اس کے سیاسی نتائج کیا ہوں گے ۔ طالبان نے خود یہ اصول وضع کیا ہے کہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں بھی جاری رہیں گی، اسی سنہری اصول پر چلتے ہوئے حکومت کو بھی میز چھوڑنی چاہیے نہ میدان۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved