حالیہ فوجی کارروائی کے نتیجے تک‘ طالبان سے مذاکرات معطل ہو چکے ہیں۔ یہ جنگ کا آغاز ہے۔ طالبان نے کوہاٹ میں پہلی جوابی کارروائی کر کے‘ اپنے ارادے ظاہر کر دیئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں‘ امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ادارے اور ایجنسیاں‘ تخریب کاری اور دہشت گردی روکنے کی حتی الامکان کوششیں کریں گی۔ لیکن دنیا کا کوئی بھی ملک‘ دہشت گردی سے پوری طرح محفوظ نہیں ہو سکتا۔ امریکہ اور یورپ کے ملکوں نے عمومی طور پر دہشت گردی سے بچائو کے انتظامات کئے ہیں‘ جو موثر ثابت ہوئے۔ مگر پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم دہشت گردی کی وارداتوں سے محفوظ رہ سکیں۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ ایک ہمہ گیر جنگ لڑتے ہوئے‘ ہم قومی یکجہتی سے محروم ہیں۔ یہ جنگ میں کامیابی کی پہلی شرط ہوتی ہے۔ ہم نے مذہبی حلقوں کے دبائو میں آ کر ‘ آئین کو اسلامی بنانے کی مسلسل کوششیں کیں۔ لیکن آج بھی ہم سب کو مطمئن نہیں کر پائے۔ طالبان تو برملا ہمارے آئین کو اسلامی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کے اور بھی کئی حلقے‘ ان کے ہم خیال ہیں۔ جماعت اسلامی کھل کر طالبان کی حمایت کر رہی ہے‘ وہ بظاہر آئین سے انکارنہیں کر رہی۔ لیکن انکار کرنے والوں کی حمایت میں پیش پیش ہے۔ امیر جماعت سید منور حسن کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ شہید ہے جبکہ پاکستان کے فوجی کو میں شہید نہیں کہہ سکتا۔ اپنے ہم وطنوں کے خلاف اس طرح کے جذبات کا اظہار ثابت کرتا ہے کہ یہ رویہ پاکستان اور یہاں کے رہنے والوں کے ساتھ کھلی دشمنی پر مبنی ہے۔
بہت سے دوسرے علمائے کرام کا طرزعمل بھی یہی ہے۔ کئی مدارس کے منتظمین‘ طالبان کے خاموش ہمدرد ہیں اور موقع بموقع ان کی حمایت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مدارس میں عمومی طور پر طالبان کے حق میں جذبات پائے جاتے ہیں۔ اسلام کے نام پر قوم کو تقسیم درتقسیم کرنے کے سلسلے طالبان کے خلاف ہماری دفاعی قوت کو بہت زک پہنچا رہے ہیں۔میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ یہ جنگ ہم اکیلے نہیںلڑ پائیں گے۔ ہر جنگ لڑنے والے ملک کا بیشتر علاقہ دفاعی اعتبار سے محفوظ ہوتا ہے۔ لیکن گوریلا جنگ میں ساراملک ہی محاذ جنگ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ دہشت گرد ہر شہر میں کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ گلی گلی مدرسے پھیلے ہیں اور جہاں جہاں مدرسہ ہے‘ اس میں طالبان کے لئے نرم گوشہ ضرور پایا جاتا ہے۔ ہم ان کی انتظامیہ اور طلبہ کو ‘ طالبان کا امکانی ساتھی تصور کر سکتے ہیں۔ یہ جنگ جلد ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اسے بہت دیر تک جاری رہنا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کی کارروائیوں میں تسلسل اور طول آتا جائے گا۔ ان کی نئی حکمت عملی لازمی طور پر یہ ہو گی کہ پاکستان کے ذرائع مواصلات کو نشانہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں ابتدائی کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ خصوصاً ریلوے پہلا ہدف ہے۔ آمدورفت کے دیگر ذرائع کو بھی ہدف بنانا مشکل نہیں ہوتا۔ مواصلات کا نظام درہم برہم ہو جائے تو معیشت پر زبردست ضرب لگتی ہے۔ طالبان کا اگلا شکاربازار‘ منڈیاں اور کارخانے ہوں گے، تاکہ پیداواری عمل میں خلل پڑے۔ گیس کی پائپ لائنیں اڑانے کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ یقینا آگے بڑھے گا۔ درآمد و برآمد میں بھی مشکلات پیش آئیں گی۔ ایسے حالات میں لامحدودمدت کے لئے جنگ جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اگر ہمیں بیرونی دوستوں اور ہمدردوں کی طرف سے مدد نہیں ملے گی‘ تو آخر کار دفاعی فورسز میں کمزوری کی علامات ظاہر ہونا فطری امر ہو گا۔
طالبان کو پہلے ہی سے بیرونی مدد مل رہی ہے۔ ان کے پاس افغانستان کی کمین گاہیں ہیں‘ جہاں وہ جب چاہیں محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ آج بھی وہ اپنی کارروائیوں کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا امیر ملا فضل اللہ خود بھی افغانستان میں موجود ہے اور اس کے ساتھی گوریلا کمانڈر بھی وہیں پر رہتے ہیں۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد‘ افغانستان کے طالبان کہیں زیادہ مضبوط ہو جائیں گے اور ان کی مضبوطی میں پاکستانی طالبان کی طاقت ہے۔ حامد کرزئی اور اس کے حواریوں کی حکومت بھی ہمارے خلاف طالبان کی پوری طرح مدد کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ جن پاکستانیوں کو طالبان اغوا کرتے ہیں‘ انہیں بھی افغانستان پہنچا دیا جاتا ہے۔ جس کا حالیہ ثبوت ایف سی کے 23 جوانوں کی شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ کوئی نہیں جانتا‘ ہمارے متعدد لاپتہ افراد بھی افغانستان میں ہی قید پڑے ہوں۔القاعدہ کا نیٹ ورک ساری دنیا میں پھیلا ہے۔ یہ تنظیم ہر جگہ موجود ہے اور جن دہشت گردوں کا ان سے کسی بھی طرح کا رابطہ ہے‘ وہ انہیں اسلحہ اور وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کی بیشتر طالبان تنظیمیں‘ القاعدہ سے منسلک ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے تعلقات روایتی دوستوں کے ساتھ بھی قابل اعتماد نہیں رہ گئے۔ امریکہ ابھی تک تذبذب کی حالت میں ہے اور اس کے پالیسی ساز ‘ پاکستان پر پوری طرح اعتماد نہیں کرتے۔ امریکی‘ ہمیں اپنے حامی اور مددگار کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ جو ہمارے لئے روزبروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب مہربان ہو گا‘ تو ہمیں تھوڑی بہت مالی امداد دے سکتا ہے۔ لیکن آج کی دنیا میں کوئی بھی مفت میں کھانا نہیں کھلاتا۔ جب کوئی پیسہ دیتا ہے‘ تو اس کے بدلے میں کچھ نہ کچھ ضرور مانگتا ہے۔ سعودی عرب کی نظر ہماری عسکری صلاحیتوں پر ہے۔ ان دنوں اسے بہت سے خطرے درپیش
ہیں۔ بے شک سعودی حکومت نے اپنے ملک میں فی الحال دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے۔ لیکن القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں‘ وہاں اپنے اثرات پھیلا رہی ہیں اور یہ بھی اطلاع ہے کہ وہاں بیرونی دہشت گرد بڑی تعداد میں داخل ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب کی سکیورٹی فورسز باقاعدہ تربیت یافتہ بیرونی تخریب کاروں سے پوری طرح نہیں نمٹ پائیں گی۔ اس مقصد کے لئے وہ پاکستان سے عسکری تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘ جو بلاشبہ سودے بازی ہو گی۔ ہم بھارت کے ساتھ اپنے معاملات کو ابھی تک درست نہیں کر پائے اور پاکستان اور بھارت ہمیشہ ہی کشیدگی کی صورتحال میں رہتے ہیں۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں۔ داخلی جنگ میں مبتلا پاکستان کسی بھی وقت‘ بھارتی جارحیت کا نشانہ بن سکتا ہے۔ ملک کے اندر خانہ جنگی کی فضا ہو‘ تو کسی دشمن کے ارادوں میں خلل پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ یوں تو ہم مشرقی پاکستان کی جنگ کے بعد فوجی تصادم سے بچتے آ رہے ہیں۔ لیکن ناقابل شکست امن حاصل نہیں کر پائے۔ ہمارے باہمی تعلقات ہمیشہ ہی کشیدگی کے قریب تر ہوتے ہیں۔ بے شک 1971ء کے بعد ہمارے درمیان جنگ نہیں ہوئی لیکن ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا کہ جب ہم اپنے آپ کو جنگ سے محفوظ سمجھ سکے ہوں۔ ہر دو تین سال میں ایک دو واقعات ضرور ایسے ہوتے ہیں‘جب ہماری سرحدوں پر سرگرمیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کئی مرتبہ تو سرحدوں پر فوجیں بھی لگتی رہی ہیں۔ ہمارے گھر میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ طول پکڑ گئی‘ تو ہم بھارت پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ تعلقات میں تو آج بھی سردمہری ہے۔ یہ کسی بھی وقت کشیدگی میں بدل سکتی ہے۔ مگر اس سے زیادہ ہمارے اپنے حالات کی اہمیت ہے۔ اگر بھارت نے یہ محسوس کیا کہ داخلی جنگ کے نتیجے میں پاکستان مشکل حالات سے دوچار ہو چکا ہے‘ تو وہ ان کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرے گا۔ ایران کے تیور بھی اچھے نظر نہیں آ رہے۔ہمیں طالبان کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے پہلے بڑی طاقتوں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی انڈرسٹیڈنگ ضرور کرنی چاہیے۔ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ ہماری حکومت کو بلاتاخیر خصوصی سفارتی نمائندے ان ملکوں میں بھیجنا چاہئیں‘ جو دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کا اصل پس منظر بیان کریں اور انہیں قائل کریں کہ پاکستان کی یہ جنگ‘ عالم انسانیت کی جنگ ہے۔ ہم یہ جنگ ساری دنیا کے پُرامن شہریوں کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں ہمدردی اور اعانت کی ضرورت ہے۔ علاقائی اور عالمی حمایت کے بغیر ایک طویل جنگ لڑنا انتہائی مشکل ہے۔ ہمارے ارادے کتنے بھی پختہ کیوں نہ ہوں، اگر بیرونی طاقتیں اس جنگ میں ہماری حمایت نہیں کریں گی‘ تومیدان جنگ میں ہماری کارکردگی پر بُرا اثر پڑے گا۔ دو باتیں ہمارے لئے ناگزیر ہو چکی ہیں۔ اندرون ملک تمام پاکستانیوں میں یکجہتی اور بیرونی ملکوںسے ہرممکن تعاون۔