تحریر : وصی شاہ تاریخ اشاعت     25-02-2014

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

میرے دوست حافظ احمد نے سپین سے اپنے ایک ریڈیو پروگرام میں اپنی طرز کے منفرد شاعر غلام محمد قاصر کی برسی کے حوالے سے گفتگو میں مجھے شریک کیا تو اس بانکے سجیلے اور منفرد شاعر کو ہمیشہ کی طرح یاد کرتے ہوئے کیا کیا نہ یاد آتا رہا۔ غلام محمد قاصر کو پڑھنا ہمیشہ سے میرے لیے خوبصورت تجربہ رہا ہے۔ میڈیا سے لے کر میدانوں تک سنسنی خیزی و ہیجان انگیزی کے اس دور میں غلام محمد قاصر کی شاعری دھیمے سُروں میں بہتی ہوئی ندی کا سا سکون دیتی ہے۔ اگر بریکنگ نیوز سے فرصت ملے اور غلام محمد قاصر کی شاعری کی انگلی تھام کر کچھ سفر ان کے ساتھ کیا جائے تو یقیناً چند لمحوں کے لیے ہی سہی مگر جسم و جاں کو وہ سکون نصیب ہو سکتا ہے جس کی یہ ساری قوم متلاشی ہے، البتہ غلام محمد قاصر کے افکار و اشعار سے جو راہنمائی میسر ہو گی وہ جزوقتی نہیں ، بہت دیرپا ہو گی۔ غلام محمد قاصر کی شاعری کا بغور مطالعہ کریں تو ان کی تمام تر شاعری کو بہت سہولت اور ذمہ داری سے ایک لفظ کا عنوان دیا جا سکتا ہے اور وہ ہے محبت۔ تبھی تو یہ شعر قاصر کی پہچان بنا۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
قاصر کے ہاں اپنے ارد گرد کی فضا پہ جتنا اعتبار اور جتنی خوش گمانی پائی جاتی ہے یقیناً اس میں شدت کی محبت کی طلب کا احساس بھی نمایاں ہے۔ سچ یہ ہے کہ محرومیاں منفی رویوں کو بھی جنم دیتی ہیں مگر قاصر کی شاعری ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر انسان کے اندر زندگی اور معاشرے کے حوالے سے ایک مثبت رویہ پایا جاتا ہو تو محرومیاں صرف بدگمانیوں کو نہیں خوش گمانیوں کو بھی جنم دیا کرتی ہیں۔ وہی محرومی جو کچھ انسانوں کو تشدد اور نفرت پہ مائل کرتی ہے، ذرا دیکھیے قاصر کے ہاں اس محرومی کا رویہ کیا ہے ؎
یہ بھی اک رنگ ہے شاید مِری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
ہر اچھے شاعر کی طرح غلام محمد قاصر کے ہاں بھی بات کہنے کا اپنا ہی ایک رنگ ڈھنگ اور سلیقہ تھا۔ وہ کلیشے سے بھی نئی بات نکالنے کا ہنر جانتے تھے ؎
تم ناحق ناراض ہوئے ہو‘ ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
محبت اور معاملات کے اشعار بھی قاصر کے ہاں خاص قاصر کا رنگ لیے ہوتے ہیں:
زندگی جب بھی تری یاد سے گھبراتی ہے
پیڑ سے ایک امر بیل لپٹ جاتی ہے
خواب گوں سائے نظر آتے ہیں بے خوابی کے
میرے کمرے کی فضا کتنی طلسماتی ہے
یا چھوٹی بحر کی یہ غزل دیکھیے:
جس طرف دیکھنا‘ جدھر جانا
مسکرا کر اداس کر جانا
مشغلہ اپنی چاند راتوں کا
دیکھنا خواب اور ڈر جانا
ایک کالم میں زندگی کو اتنے تنوع میں دیکھنے والے شاعر کے فن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا‘ مگر 19 فروری 1987ء کو گڑھی قمر دین پشاور میں بموں کے دھماکے سے اللہ کو پیار ہو جانے والے معصوم بچوں کے سوگ میں کہے گئے غلام محمد قاصر کے یہ اشعار یہ احساس دلاتے ہیںکہ غلام محمد قاصر آج ہم میں نہیں مگر ہوتے تو آج اس حسّاس شاعر پہ کیا بیت رہی ہوتی، کہ صبح شام دھماکے یہاں معمول ہو چکے ہیں، گلیوں گلیوں موت کا رقص جاری ہے اور غلام محمد قاصر جیسے حساس شاعروں کی طرح زندگی اور اس کی خوشیاں پاکستانیوں سے روٹھتی چلی جا رہی ہیں۔ 19 فروری 1987ء کے دھماکے پر جو کچھ غلام محمد قاصر نے لکھا، افسوس، وہ آج بھی تازہ لگتا ہے:
یہ کوئلے ہیں، یہ کچھ لوتھڑے ہیں ملبے میں
زیادہ راکھ بھی ملنے کا احتمال نہیں
بدن بموں میں اُدھر اور دل غموں میں اِدھر
سِتم شعاروں کو اس ربط کا خیال نہیں
کتاب قتل ہوئی ہے، لہو لہو ہے ورق
نیا سبق ہے یہ تاریخ کا سوال نہیں
ہمارے کم سن و معصوم جانے والوں کے پاس
وہ زندگی ہے جو پابندِ ماہ و سال نہیں 
غروبِ جاں کی قیامت گھڑی میں اُبھرا ہے
تمہاری یاد کا سورج جسے زوال نہیں
اور آخر میں غلام محمد قاصر کی نمائندہ غزل کے تین اشعار جن میں غلام محمد قاصر نے چالاک اور زہریلے عہد کی حقیقت بھی بیان کی ہے:
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گِھستے گِھستے گِھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بِین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے
کون غلام محمد قاصرؔ بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
مگر سچی بات یہ ہے کہ عہد کیسا ہی چالاک اور زہریلا کیوں نہ ہو، قاصر کے اس شعر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved