حکمرانوں کے لیے بہت تھوڑی سی مہلت باقی ہے کہ فیصلہ صادر کریں وگرنہ رسوائی اور ناکامی ان کے انتظار میں ہے ؎
تیری رسوائی کے‘ خونِ شہدا درپے ہے
دامنِ یار‘ خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
اگر آپ یہ سمجھنا چاہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنا کس طرح ممکن ہے تو کسی طرح پولیس شہری رابطہ کمیٹی کراچی کے سابق چیئرمین جمیل یوسف کو تلاش کریں ۔ممکن ہے کہ چھوٹی سی خوبصورت داڑھی والا یہ گندم گوں آدمی آپ کو ایک خوبصورت کلب میں شام کے کھانے پر مدعو کرے ۔تامّل اور تاخیر کے بغیر ، ایسی روانی سے وہ گفتگو کا آغاز کرے گاکہ آپ دنگ رہ جائیں ۔
ماہرین کے ایک اجتماع میں ،میں نے انہیں بات کرتے سنا اور مبہوت سنتا رہا۔'' 250دہشت گردوں کو تو خود میں نے گرفتار کرایا تھا‘‘اس نے کہا ''حالانکہ میں ایک کھوجا ہوں‘‘۔ آداب کے خلاف تھا مگر پکار کر میں نے کہا ''دل چھوٹا نہ کیجئے۔ یہ ملک بھی ایک کھوجے نے بنا یا تھا‘‘ اور ع
...میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
نواز شریف نے جمیل یوسف کو سندھ کا گورنر بنانے کا ارادہ کیا تھا ۔ معلوم نہیں ،زیرِ زمین کیا ہوا کہ عشرت العباد اب تک براجمان ہیں ۔ اگر یہ جہاندیدہ اور روشن خیال وہاں ہوتا تو کیسی کمک مل رہی ہوتی ۔ بار بار برطانوی پولیس کی یاددہانی کے باوجود اگر اب تک وہ دونوں ملزم حوالے نہیں کیے گئے ، جو سالِ گزشتہ گرفتار ہوئے تھے تو کیا یہ کسی سمجھوتے کا نتیجہ نہیں ؟ ایک طبعِ نازک ہے اور ذاتی پسند و ناپسند، وگرنہ دہشت گردی سمیت ملک کا کوئی مسئلہ ایسا نہیںکہ فاتحانہ پیش قدمی کا امکان موجود نہ ہو ۔
چوہدری نثار کو ذمہ داری سونپی گئی اور وہ جُت گئے ۔ ریاضت کا انہوں نے آغاز کیا اور دریچے کھلنے لگے ۔ پھر معلو م نہیں، کیوں وزیراعظم نے ان کے بارے میں تحفظات تخلیق کر لیے ۔ اچانک ایک دن سمیع الحق انہیں سُوجھے۔ اچانک ایک کمیٹی بنانے کی انہیں سوجھی اورجھاڑ جھنکار اس میں جمع کر دیا۔ پھر چوہدری نثار ملاقاتیوں کی ایک قطار میں دیکھے گئے ۔
وزیرِ داخلہ نے 86صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ مرتّب کی ہے ، جو انکشافات اور اعداد و شمار سے لبریز ہے ۔ پاکستان دنیا کی سب سے خطرناک سرزمین ہو چکا۔ بارہ برس میں دہشت گردی کے 13721واقعات ۔ انتہا پسندجماعتوں کو سیاسی پلیٹ فارم میّسر ہیں اور بیرونِ ملک دشمن ممالک سے رابطے ۔ ایران ، عرب کشمکش کے اثرات اس کے سوا ہیں ۔ حال ہی میں کراچی سے تخریب کار گرفتار ہوئے، جنہوں نے ایران میں تربیت پائی تھی ۔ مولوی فضل اللہ سمیت ، بہت سوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے ۔ ڈرتے ڈرتے وزیراعظم نے چند ہفتے قبل سعودی عرب ، قطر اور ایران سے رابطہ کیا کہ خدا کے لیے یہ سلسلہ بند کیاجائے ۔ ملّا عمر کے طالبان سے ہمارے تباہ کاروں کا رابطہ برقرار ہے ۔ جنرل معین الدین حیدر کا کہنا یہ ہے کہ وزیرداخلہ تھے تو تین بار وہ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ گزارش کی کہ ان کی حوصلہ شکنی کیجئے مگر جواب تک نہ دیا۔
ریاست کے باغی طاقت سے ٹلا کرتے ہیں ، التجا سے نہیں ۔ رانا ثناء اللہ ایسے لوگ جب دربار میں بارسُوخ ہوں تو دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کس طرح ممکن ہے۔ ایک گائوں سے اعظم طارق کے بھانجے کو پکڑ کر لائے اور ایک یونین کونسل اسے سونپ دی ۔
فوج کے علاوہ بھی پولیس اور 13خفیہ ایجنسیوں سمیت، 6لاکھ افراد سلامتی کے اداروں سے وابستہ ہیں مگر سب کاٹھ کباڑ ۔ تیرہ برس میں انہیں فولاد کی دیواروں میں ڈھال دیاجاتا۔ سنگا پور ، بھارت ، امریکہ ، کینیڈا، ترکی اور جرمنی کی طرح ۔ پنجاب میں الگ سے ایک فورس تشکیل دی جارہی ہے ۔ کوئی بتانے والا نہیں کہ بھرتی، تربیت اور تنظیم میں دو تین برس برباد ہوجائیں گے ۔ چیلنج کا آج سامنا ہے ۔ عمران خان کو بھی یہی سُوجھی تھی ، جن کے صوبے کو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے 20ارب روپے زائد دیے جاتے ہیں ۔ اے این پی کے اقتدار میں اس کاایک حصہ لُوٹ لیا جاتا۔ اب ژولیدہ فکری ہے ۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک ہمہ وقت سرکاری افسروں سے الجھتے ہیں ؛حتیٰ کہ چیف سیکرٹری نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ باغیوں کے سامنے جب آپ جھکتے ہیں تو پولیس اور انٹیلی جنس ہمت ہارنے لگتی ہے ۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل پر حملہ ہوا تو پولیس نے فقط پانچ گولیاں چلائی تھیں...پانچ! بلوچستان بدتر ہے ۔پچھلی اسمبلی نے بی ایریا ختم کرنے کا منصوبہ لپیٹ دیا تھا۔ اب بھی اقدام واپس نہیں لیا گیا اور صرف پانچ فیصد علاقے میں قانون کی عمل داری ہے ۔ کیا امن اس تامل اور تذبذب سے خریدا جاتا ہے یا قانون کی ہیبت و شوکت سے ؟ جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والا، ہائیکورٹ کا ایک سبکدوش جج یاد آیا۔ عالی جناب نے مجھے بتایا : جب کبھی ممکن ہوا ، میں نے ملزم کو رہا کر دیا۔
ہر انحراف بنیادی طور پر فکری ہوتاہے ۔ اب وہ بے خبر نہیں ۔ وزیراعظم جب تک ڈٹ کر میدان میں نہیں آئیں گے ، رائے عامہ ہموار نہ کریں گے، اپنے سب سے فصیح وزیر چوہدری نثار کو عنان نہ سونپیں گے ، یہی گومگو رہے گا ۔ یہی تشکیل اور خوف کے یہی سائے ۔
ابراہام لنکن یکسو نہ ہوتا تو امریکہ منقسم ہو کر برباد ہو گیا ہوتا۔ اپنے کمانڈر انہوں نے طلب کیے اور یہ کہا: تمغوں والے جنرل نہیں ، جنگ جیتنے والا ایک جنرل مجھے چاہیے ۔تب باغیوں پہ بے رحم جنرل گرانٹ کو کمان سونپی گئی۔ یورپ کے مقابل ترکی تباہ حال تھا تو موصل کے بریگیڈ کمانڈر مصطفی کمال کو امانت دی گئی ۔ جنگ جذبے، انہماک ، یکسوئی اور حکمتِ عملی سے لڑی جاتی ہے ۔ رستم شاہ مہمند، مولانا یوسف، عرفان صدیقی اور سمیع الحق ایسے محرّر کارنامے انجام نہیں دیا کرتے ۔ انٹیلی جنس بیورو کو آج بھی اخبار نویسوں اور سیاسی کارکنوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے سے فرصت نہیں ، کچرا جمع کرنے سے ۔ طیب اردوان نے وزیراعظم نوا ز شریف سے کہا تھا : فوج پہ انحصار کیوں ؟ سول سکیورٹی اداروںکو آپ کیوں مستحکم نہیں کرتے ۔ فوج اسی لیے غالب ہے کہ سول اداروںکو دیمک نے چاٹ لیا۔ان کی تعمیرِ نو چاہیے ۔ ادھر نواز شریف کے گرد دانشور ہیں ، جو ہمہ وقت فوج سے انہیں ڈرایا کرتے ہیں ۔ بھاڑے کے ٹٹو،جن میں سے ایک کی جائیداد واشنگٹن میں واقع ہے ۔ اگر جنرل راحیل شریف بھی انہیں سازگار نہیں تو اور کون ہو گا؟ ان کی پیشہ ورانہ مہارت پر دو آرا ہو سکتی ہیں ، نجابت اور معقولیت پر نہیں ۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایک مرکزی سیکرٹریٹ کام کا آغاز کرے ۔ خفیہ ایجنسیوں کی معلومات یکجا ہوں اور فیصلے تیزی سے صادر کیے جائیں ۔کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ نواز شریف ٹی وی پر نمودار ہوں اور قوم سے خطاب کریں ۔ وقت ہے کہ گزرتا جاتا ہے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ چوہدری نثار کو کھو دیں گے اور کوئی رحمٰن ملک ان کی جگہ لے گا۔خدا نہ کرے کہ خلا بڑھتا جائے اور پھر سے کوئی حادثہ برپا ہو۔ بربادی کی بنیاد پرویز مشرف نے رکھی اور عفریت انکل سام ہے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مواقع بحرانوں کے اندر ہی چھپے ہوتے ہیں ۔ حکمرانوں کے لیے بہت تھوڑی سی مہلت باقی ہے کہ فیصلہ صادر کریں وگرنہ رسوائی اور ناکامی ان کے انتظار میں ہے ؎
تیری رسوائی‘ کے خونِ شہدا درپے ہے
دامنِ یار‘ خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا