تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     25-02-2014

شوق سیاحت‘ اتوار کے اخبار اور میمفیلا ریمفیلا

آپ یہ کالم 25 فروری کو پڑھیں گے جبکہ یہ سطور2 فروری کو لندن میں ایک سرد رات کے دوران لکھی جا رہی ہیں۔ باہر تند و تیزبارش ہو رہی ہے۔ انگلستان کے کئی علاقے سیلاب میں ڈوب گئے ہیں۔ میرا دھیان چھ ہزار میل دُور وطن عزیز پر مرکوز ہے۔ آٹھ فروری کو مشرق بعید جاتے ہوئے اور پندرہ فروری کو برطانیہ واپس آتے ہوئے میرا طیارہ پاک سر زمین سے تیس ہزار فٹ اُوپر پرواز کرتے ہوئے گزر جائے گا۔ افسوس کہ دبئی سے سنگاپور کی پرواز کراچی نہیں رُکتی ،ورنہ میں شایدجان ہتھیلی پر رکھ کر اس شہر کا رُخ کرتا اور احباب سے مل لیتا۔میں برطانیہ سے مشرق بعید جانے والے ایک سرکاری تجارتی وفد کا رُکن ہوں۔ ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ تجارتی وفد میں ایک وکیل کو شامل کرنے کا جواز کیا ہو سکتا ہے؟ میں خود کو یہ سوال کرنے سے بار بار روکتا ہوں، کیونکہ آم کھانے والے کو پیڑ گننے سے کیا غرض اور کیا مطلب؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وفد کے دورے کا انتظام کرنے والوں نے پطرس کاسائیکل والا مضمون پڑھ رکھا ہو جس میں ایک بے حد پرانی سائیکل کے بند سوراخوں پر تیل انڈیلنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا تھا کہ یہ بھی مفید ہوتا ہے۔ انگریز بڑے شاطر اور کائیاں لوگ ہیں۔یقینا وہ میری اس افادیت سے واقف ہوں گے جس کی مجھے خود خبر نہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ میری اپنی ذات کا تعلق بھی مجھے ذاتیات کی سطح تک اُترنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اہم بات یہ ہے کہ وفد کے اراکین کا تعلق تجارت اور صنعت سے ہے اور مقصد برطانوی برآمدات کو فروغ دینا ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کام نیک ہو تو اس میں ہر شخص کو حصہ لینا چاہئے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ میں شیخ سعدیؒ تو نہیں جو ہر انسانی سرگرمی میں اخلاقی پہلو تلاش کر کے اُس پر ایک دلچسپ کہانی لکھتے اور موزوں اشعاربھی ،جو مجھے ساٹھ سال پہلے بار بار پڑھنے کا موقع ملا۔ اتنے یاد ہوئے کہ ابھی تک از بر ہیں۔
شیخ سعدی ؒ اخلاقیات کا درس دیتے دیتے اپنے نام کے ساتھ رحمت اللہ علیہ لگوانے میں کامیاب رہے۔ اس سے بڑا اعزاز دُنیا میں کسی اور مسافر اور کوچہ گرد کو نہیں ملا۔ آپ یاد رکھیں کہ شیخ سعدی ؒنے سفر ہمیشہ پیدل کیا۔(جس کا مطلب ہے کہ انگریزی میں بھی Suffer کرتے تھے) جہاں جی چاہتا رُک جاتے۔ مقامی لوگوں سے گھل مل جاتے۔ ان کے ذاتی معاملات میں خوب دخل اندازی کرتے۔ جب اُنہیں دعائیں دے کر رخصت ہوتے تو اپنے تجربہ کو ایک حکایت (جو نہ بھولنے والے اشعار سے مزین ہوتی) میں ڈھال دیتے۔ اُن کا مقابلہ اپنے کالم نگار سے کریں تو آپ کے دل میں میرے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں گے۔ تیس ہزار فٹ کی بلندی پر مجھے دن کو سورج اور رات کو چاند ستاروں کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا۔ وطن کی مٹی میں لاکھ کشش سہی مگر وہ مجھے چند لمحوں کے لئے بھی پاک سر زمین پر اُترنے اور اہل وطن سے دُکھ سکھ کی باتیں کرنے کی خواہش کو عملی شکل دلانے میں کامیاب نہ ہو سکے گی۔ جو طیارہ کشش ثقل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اُونچی پرواز کر سکتا ہے وہ ہر طرح کی کشش کو پرکاہ جتنی وقعت بھی نہیں دیتا۔ 
جیسا کہ پہلے عرض کیا آج جبکہ میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو دو فروری اتوار کا دن ہے۔ جس کامطلب ہے اتوار کے ضخیم اخباروں کا مطالعہ۔ گارڈین کے برعکس ٹائمز اتوار کو سنڈے ٹائمز کے نام سے اپنا خصوصی ایڈیشن شائع کرتا ہے۔ فربہ بدن اور معلوماتی اخبار کا مطالعہ اتوار کا آدھا دن لے جاتا ہے۔ (مچھلی کا شکار کرنے والے کئی ہزار لوگوں کی معلومات اس لئے وسیع ہوتی ہیں کہ وہ ساتھ ساتھ سارا دن اخبارات بھی پڑھتے رہتے ہیں) اخبار کے ساتھ 70 صفحات کا رنگین اور باتصویر رسالہ بھی ملتا ہے جو میں عموماًسرسری طور پر دیکھتاہوں۔ آج اس رسالہ کی ورق گردانی کرتے ہوئے صفحہ نمبر42 تک پہنچا تو جو کچھ پڑھا اور تصویروں میں دیکھا وہ خوف اور دہشت کی ناقابل فراموش کیفیت پیدا کرنے کے لئے کافی تھا۔ ایک تصویر میں پتھر کی دیوار پر ارجنٹائن میں گھر پر غائب کروائے جانے والے اور فوجی آمریت کے ہاتھوں قتل کر دیئے جانے والے تیس ہزار افراد کے کندہ کئے ہوئے نام نظر آتے ہیں اور ایک غم زدہ خاتون (ماں یا بہن یا بیٹی) دیوار پر اپنا سر رکھے کھڑی ہے۔ نہ ہم اُس کو روتا ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور نہ اس کی ہچکیوں کی آواز سن سکتے ہیں۔ دُوسری تصویر میں وہ ہوائی جہاز اُڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن سے پانچ ہزار باضمیر عوام دوست اور انسانی حقوق کی خاطر لڑنے والوں کو نیچے پھینک کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان پروازوں کا انچارج نیوی کا جو افسر تھا وہ ان دنوں انسان دشمن جرائم کا مرتکب ہونے پر تیس سال کی قید بھگت رہا ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ خدائی قانون کے تحت دیر ہے، اندھیر نہیں۔ جو لوگ بھی سیاسی اختلاف رکھنے والے پر امن سیاسی کارکنوں کو قتل کر کے یا غائب کر کے (اور اُنہیں پھر اجتماعی قبروں میں دفن کر کے) سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سیاسی مسئلہ حل کر لیا وہ اُبو جہل کی اولاد ہیں۔ آمریت کو پاکستان کی طرح لاطینی امریکہ کے ہر ملک میں بری طرح شکست ہوئی اور بدترین مجرموںکو سزائیں ملنے کا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہی سزا ایک دن مصر کے فوجی حکمرانوں کو بھی ملے گی۔ آج فیضؔ صاحب زندہ ہوتے تو دوسرے ملکوں میں ہونے والے قتل عام کا مرثیہ لکھنے پر اکتفا نہ کرتے، ارجنٹائن اور چلی کے شہدا کا بھی مرثیہ ضرور لکھتے۔ چاہے کتنی برساتیں گزر جائیں، خون کے دھبے نہیں مٹ سکتے۔ امریکہ میں روزن برگ جوڑا تاریک راہوں میں مارا گیا۔ فیض صاحب کے مرثیہ نے اُنہیں زندہ جاوید بنا دیا۔ 
افسوس کہ میں جن دنوں مشرق بعید کے جنگلوں اور بیابانوں میں شوقِ سیاحت پورا کروں گا۔ میرے گھر میں بہار آئی ہوگی جس سے میں غالب ؔکی طرح محروم رہوں گا۔ بہار کا نام ہے Mamphela Ramphila ، 66 سالہ سیاہ فام خاتون۔ جنوبی افریقہ کی رہنے والی۔وہ صرف ڈاکٹر نہیں یونیورسٹی پروفیسربھی ہیں۔وہ ورلڈ بینک کی سابق ڈائریکٹر، کیپ ٹائون یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر اور بڑی کامیابی سے بزنس کرنے کی بدولت افریقہ کی دس امیر ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔ اُن کا جنوبی افریقہ کے سب سے بڑے ہیروSteve Biko کے ساتھ جذباتی رشتہ تھا، جو جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خاتمہ تک قائم رہا۔ موجودہ بدعنوان (اور وہ بھی پرلے درجہ کی) حکومت کے سربراہ کا نام Zuma ہے۔ حزب اختلاف نے متفقہ طور پر اُنہیں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے۔ یہ معزز خاتون وسط فروری میں لندن آئیں گی۔ آمد کا مقصد ایک اور بلند ہمت اور روشن دماغ خاتون کی سربراہی میں چلائے جانے والے پروگرام کا بچشم خود مطالعہ کرنا ہے۔ پروگرام کا نام ہے کڈز کمپنی اور کام ہے بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے انداز اور طور طریقے سکھانا۔ (کتنا اچھا ہو کہ میں بھی وقت نکال کر سیکھنے کا یہ سنہری موقع نہ گنوائوں) لندن میں زندگی کے ہر شعبہ کے لوگ تیاری کر رہے ہیں کہ اس معزز مہمان کے لئے صرف سرخ قالین ہی نہیں، اپنی آنکھیں بھی بچھا دیں۔اس خاتون کا ارادہ ہے کہ اپنی ساری انتخابی مہم صرف ایک نکتہ اچھی حکمرانی یعنی(Good Governance) پر چلائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مصیبت یہ ہے کہ لوگ برے حکمرانوں سے تنگ آکر اُن سے نجات حاصل کرنے کے لیے جن نئے لوگو ں کو برسر اقتدار لاتے ہیں وہ شروع میں تو اچھے ہوتے ہیں مگر آگے چل کر اپنے پیش رو کی فوٹو کاپی بن جاتے ہیں۔ سچ بتائیں ، ان کا یہ قول پڑھ کر آپ کو کون سا ملک یاد آیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved