تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     25-02-2014

مذاکرات یا مذاق رات؟

الطاف بھائی نے جس انداز میں ''دنیا نیوز‘‘ کے پروگرام ''مذاق رات ‘‘ کی تعریف کی ہے اس پر میری حالت بھی میرزا غالب جیسی ہے کہ ؎
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں 
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
متحدہ کے قائد الطاف حسین نے حکومت اورطالبان کے مابین مذاکرات کو'' دنیا نیوز‘‘ کے پروگرام ''مذاق رات‘‘سے تشبیہ دی ہے۔ میں بطورایک پروگرامر خوش ہوں کہ میرے لکھے اورترتیب دئیے پروگرام ''مذاق رات‘‘ کی تحسین الطاف بھائی نے فرمائی ہے جن کی حسِ مزاح خود بھی بڑی زبردست ہے۔حسِ مزاح کی بابت الطاف بھائی اورمیاں برادران کونمبر ز دیتے ہوئے جیوری کو مشکل پیش آسکتی ہے۔لیکن یہ حقیقت بھی ریکارڈ پر ہے کہ ججز اورجیوریوں والے مراحل میاں برادران نے ہمیشہ امتیازی نمبروںسے طے کئے ہیں۔الطاف بھائی کی حسِ مزاح بھی خاصی تگڑی ہے۔ ان کے لانگ ڈسٹنس خطابات میں سنتا رہتاہوں۔وہ ایک ماہر خطیب کی طرح رُلانے کی جگہ رلاتے ہیں اورہنسانے کے مقام پر بذلہ سنجی ،پھبتی ،ضلع جگت،طنز اورطعن وتشنیع سے بھرپور انداز میں کام لیتے ہیں۔زیر نظر بیان میں بھی ظاہری طور پر تو انہوں نے ہمارے پروگرام ''مذاق رات ‘‘ کی تعریف کی ہے لیکن دراصل الطاف بھائی نے ان حکومتی کاوشوں اورکمیٹیوں کو تنقید وطنز کا نشانہ بنایا ہے جن کے تحت طالبان کے ساتھ مذاکرات کو امن کے لئے گولڈن چانس قراردیاجارہاتھا۔
ایک طرف الطاف بھائی 'مذاکرات‘ کو' مذاق رات‘ کہہ کر حکومت کی اس حکمتِ عملی پر شدید تنقید کررہے ہیں،دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیر منور حسن وزیر اعظم کو تحمل اوربردباری سے کام لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔وہ کہہ رہے ہیں کہ طالبا ن کے ساتھ مذاکرات کی میز دوبارہ بچھائی جائے۔منور حسن صاحب بادشاہ آدمی ہیں، ان سے اب کیاکہا جائے؟ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں اب تک ہمارے 60ہزار سے زیادہ سویلین اورفوجی شہید ہوچکے ہیں، لیکن منور حسن صاحب نے کبھی اظہار تعزیت نہیں کیا۔ ہم سبھی جانتے ہیںکہ جماعت اسلامی اوراس کے امیر منورحسن افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی آمد کے خلاف ہیں۔جماعت اسلامی کی طرح ہم سب بھی افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج(نیٹو) کے خلاف ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم سپر پاور کے ساتھ نہیں لڑ سکتے۔اس حقیقت کو مان لینا چاہیے کہ ہمارے پاس حرب وضرب کے تمام ہتھیار امریکی ہیں، ویسے بھی امریکہ سے ہماری عسکری اورمعاشی رفاقت چھیاسٹھ سال پرانی ہے اور جماعت اسلامی بھی طویل عرصہ تک اس بندھن میں بندھی رہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہم اپنے لیے بجلی، گیس اور روزگار پیدا کریں یا امریکہ سے جنگ لڑیں؟ہم امریکہ سے جنگ کیوں لڑیں؟کیا صرف اس لیے کہ جماعت اسلامی اوراس کے امیر ہمیں سپر پاور سے متھا لگانے کی ہلاشیری دے رہے ہیں؟پنجابی کا محاورہ ہے کہ ''ساڈے ولوں ناں ای سمجھو‘‘۔سندھ ،کراچی اور باقی آل پاکستان پر یمیر کے لئے اس پنجابی سنیما سکوپ فلم کا قومی ورژن یوں ہوسکتا ہے کہ ''ہمارے طرف سے ناں ہی سمجھیں‘‘۔
جماعت اسلامی اورمنور حسن صاحب طالبان سے دوبارہ مذاکرات کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات دوبارہ ،سہ بارہ بلکہ بالترتیب بارہ مرتبہ ہونے کے بعد ناکام ہوچکے ہیں۔اسی نسبت سے الطاف بھائی نے مذاکرات کو مذاق رات قراردیا ہے۔یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے مگر دکھوں ، غموں، حادثات اورسانحات کو تڑکا لگاتی بریکنگ نیوز اورٹاک شوز کے سونامی میں ''مذاق رات‘‘دکھی پاکستانیوں کی لافٹر تھراپی کررہاہے۔دنیا نیوز کا پہلے سے مقبول پروگرام ''حسب حال‘‘یہ مسیحائی گزشتہ چار سال سے کررہا ہے، جس میں خوشیوں اورقہقہوں کے ایف آر سی ایس ڈاکٹر پروفیسر سہیل احمد المعروف عزیزی دکھی اورڈپریسڈاہل وطن کو ہفتے میں ''حسب حال‘‘ کی چار خوراکیں مہیا کررہے ہیں، باقی تین دن کی ڈوز''مذاق رات‘‘ کی شامل کرلیں تو ہفتہ مکمل ہو جاتا ہے۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین، چوہدری اعتزاز حسین، فاروق ستار، خوش بخت شجاعت، بابر اعوان، مصطفی کھر، چوہدری پرویزالہٰی، شیخ رشید احمد، سابق صدر آصف علی زرداری اورخادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور دوسرے بہت سے لوگ اس کے فارمیٹ، پیٹرن اور طنز ومزاح کے معیار کو وقتاً فوقتاًسراہ چکے ہیں۔
خادم اعلیٰ پنجاب جب ''مذاق رات ‘‘ میں جلوہ گر ہوئے تو انہوں نے پروگرام کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اس میں اپنی طرف سے حصہ ڈالاتھا۔خادم اعلیٰ نے سکھوں کا ایک عدد لطیفہ سنایاجس سے ''مذاق رات‘‘ دو آتشہ ہوگیاتھا۔شیخ رشید ایک عرصہ سے ٹاک شو نیوز انڈسٹری کے لئے ''بگ بی ‘‘ بن چکے ہیں۔ انہوںنے ''مذاق رات‘‘ کے فارمیٹ اورظریفانہ معیار کو بہت پسند کیاتھا۔شیخ رشید ''مذاق رات‘‘ میں شرکت کرنے والے پہلے خصوصی مہمان تھے۔شیخ صاحب جب ریکارڈنگ سے فارغ ہوکر چائے نوش فرمارہے تھے تو انہوں نے کہاتھاکہ بہت جلد ''مذاق رات‘‘ پاکستان کے سیاسی طنز ومزاح کے پروگراموں کا سرتاج ثابت ہوگا۔شیخ صاحب نے پیشین گوئی کی تھی کہ Audience base(تماشائیوں کے ساتھ)سیاسی طنز ومزاح کے پروگراموں میں مذاق رات سب سے مقبول پروگرام ہوگا۔شیخ صاحب رونق لگانے اوربات چیت کے میدان کے ٹارزن سمجھے جاتے ہیں،ان کے منہ سے ''مذاق رات ‘‘ کے لئے اس قسم کی داد اورتحسین''فلم فیئر ایوارڈ‘‘ سے کم نہیں۔ 
سیاستدانوں کے علاوہ نامور صحافیوں اوراینکر پرسنز نے بھی ''مذاق رات ‘‘ کو سراہا ہے۔سوشل میڈیا پر مذاکرات اورمذاق رات دونوں کو '' ہٹس‘‘ مل رہے ہیں۔دنیا بھر میں Political satire(سیاسی طنز ومزاح) کے پروگراموں میں یوں تو کئی ایک فارمیٹ ہیں لیکن ان میں عمومی طو ر پر ہنسی مذاق کے نام پر اکثر ''ہارڈ ٹاک ‘‘ کردی جاتی ہے۔ متذکرہ پروگراموں میں سیاستدانوں کی سیاست پر تنقید کرنے کے بجائے ان کی ذاتی ''آتما ہتیہ ‘‘ کردی جاتی ہے۔سیاسی طنز ومزاح کے علاوہ دیگر پروگراموں اورٹاک شوز کے لیے بھی یہی معیار قرارپاتاہے لیکن ''مذاق رات‘‘ میں مزاح کے نام پر ''خودکش حملہ ‘‘ نہیں کیاجاتابلکہ ڈرانے دھمکانے سے ہی کام چلایاجارہاہے۔زیادہ سے زیادہ ہوائی فائرنگ کرلی جاتی ہے ، یعنی ہنسنے ہنسانے اورقہقہوں کے لئے صرف ''سرجیکل آپریشن ‘‘ ہی کیاجاتاہے۔
الطاف حسین صاحب نے کہا ہے کہ پاک فوج قدم بڑھائے، قوم اس کے ساتھ ہے۔انہوںنے نعرہ بلند کیا ہے کہ طالبان کا جو یار ہے وہ قوم کا غدار ہے۔ حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ وادی تیراہ، ہنگواوروزیر ستان میں کارروائیاں کراچی اور مہمند کارروائیوں کا ردعمل ہیں،اتنا ردعمل کافی ہے، حکومت کو اب مذاکرات کی طرف پلٹنا چاہیے۔ طالبان کے حمایتیوں میں شامل مولانا سمیع الحق اوریوسف شاہ بھی پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رابطوں کے باوجود حکومتی کمیٹی ملاقات نہیں کررہی۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے ایک مرتبہ پھر زور دے کر کہاہے کہ وزیر اعظم حکومت اورطالبان کی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بلائیں اور امن کی راہ ہموار کریں ۔امیر جماعت اسلامی نے یہ بھی کہاہے کہ وزیر اعظم افغان طالبان کے امیر ملا عمر سے رابطہ کریں،انہیں وہاں سے مثبت جواب ملے گا۔ پروفیسر منور حسن سے پہلے میرزا غالب نے بھی مذاکرات کی بابت مثبت جواب ملنے کی تسلی یوں دی تھی کہ ؎
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آئو نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
منور حسن ہوں یا میرزا غالب ،طالبان کسی کی گارنٹی نہیں مانتے۔ طالبان کے حامیوں اوران کی کمیٹی کے اراکین کی طرف سے مذاکرات کی میز دوبارہ بچھانے کے لیے اصرار کرنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ ان کی طرف سے مثبت جواب کیسے ملتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ،فوج اور ساری قوم ایک ہوکر دہشت گردی کے ''کوہ طور‘‘ کوفتح کرلے تاکہ پھر کبھی مذاکرات کو مذاق رات نہ سمجھا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved