ستر کی دہائی میں جب میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی پر بطور سینئرپروڈیوسر تعینات تھا تو وہاں ہمارے ایک ساتھی ہوتے تھے ابو تراب نقوی۔ ہم سے عمر میں بڑے تھے، اس لیے ہم سب ان کو بڑا بھائی کہتے تھے۔ بڑے بھائی پکے کمیونسٹ تھے اور اپنی بیٹی سے کہا کرتے تھے کہ تم میٹرک میں پوزیشن لے لو تو اعلیٰ تعلیم کے لیے تمہیں ماسکو بھیج دوں گا۔ اس پر ہم لوگ ہنسا کرتے اور بڑے بھائی سے کہہ بھی دیا کرتے تھے کہ'' اس طرح بات کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے آپ کی بیٹی ماسکو جانے کے خوف سے پڑھنے لکھنے میں دلچسپی لینا چھوڑ دے‘‘۔ مگر بڑے بھائی اس کا کوئی اثر نہیں لیتے تھے۔ لینن پیس پرائز کو نوبل انعام سے سو گنا سے بھی زیادہ باوقار انعام گردانتے تھے۔ ان کا تکیہ کلام تھا ''پیارے بھائی، انگریز بے ایمان ہے‘‘۔ تکیہ کلام اس لیے کہ ان کی تقریباً ہر گفتگو کی تان اسی جملے پر ٹوٹتی تھی کہ انگریز بے ایمان ہے۔ ہم تین چار نوجوان پروڈیوسروں نے تاش وغیرہ کھیلنے کے لیے بڑے بھائی کے گھر کواڈہ بنایا تھا۔ان کی بیگم شمیم بانو پاکستان کی معروف گلوکارہ مہناز کی خالہ تھیں۔ وہ ہم سب سے بہت تنگ رہتی تھیں۔ بڑے بھائی کی طبیعت میں چونکہ ازحد نرمی تھی، لہٰذا گھریلو زندگی میں کوئی تلخی وغیرہ نہیں تھی۔ ویسے بھی چونکہ موصوف کو محض کمیونزم کی لگن رہتی تھی، اس لیے وہ اپنے اعصاب پر کوئی اور چیز سوار نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہر وقت کمیونزم کی تعریف اور انگریز کو بے ایمان ثابت کرنا۔ ہمارے ایک ساتھی کا تو یہ خیال تھا کہ بڑے بھائی کو تاش میں دلچسپی محض اس غرض سے ہے کہ ہم لوگوں میں اشتراکیت کی تبلیغ کر سکیں۔
دنیا کا کوئی موضوع ہو، ہمارے بڑے بھائی کھینچ تان کر بات کو ایسے موڑ پر لے آتے تھے کہ انگریزوں کو بے ایمان کہنا ممکن ہو جاتا تھا۔ ہمارے ایک ساتھی پروڈیوسر کی منگنی ہوئی تو مبارک دینے کے بجائے بڑے بھائی نے بتانا شروع کیا ''یہ انگریز لوگ جب منگنی کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں پورا نقشہ ہوتا ہے کہ کس طرح عورت کو شادی کے سات آٹھ سال بعد طلاق دینی ہے۔ اوپر اوپر سے'' آئی لو یو ‘‘ وغیرہ کہہ رہے ہوتے ہیں ،دل میں بے ایمانی بھری ہوتی ہے‘‘۔
تاریخ کا ذکر آجائے تو کس طرح بے ایمانی سے آزاد ملکوں پر قبضہ کر کے اپنی نو آبادیاں قائم کی گئیں، اس کا تفصیلاً ذکر سننے کو ملتا۔ پھر اگر یورپ کے ملکوں کے باہمی تعلقات کی بات نکلتی تو بڑے بھائی کا استدلال ہوتا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہرگز عالمی نہیں تھیں۔ یہی بے ایمان آپس میں لڑ رہے تھے۔ جب جرمنی قابو نہ آیا تو بے ایمانی سے سوویت یونین پر حملہ کروا دیا۔ پھر سوویت یونین نے ہٹلر کو ہرایا۔ نو عمری کے زمانے کی سنی ہوئی یہ باتیں ضرور بھول بھال جاتیں مگر جوں جوں عمر بڑھتی گئی اور عالمی سیاسی حالات کی تھوڑی بہت سمجھ آنے لگی تو بڑے بھائی بہت یاد آتے رہے۔ موصوف کا ایک موذی مرض میں انتقال ہو گیا تھا۔ سوویت یونین ٹوٹنے سے بہت پہلے ہی بڑے بھائی دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اور میری رائے میں اس میں اللہ کی حکمت ہی ہو گی‘ وگرنہ سوویت اور اشتراکیت سے جس قدر بڑے بھائی کو محبت تھی ممکن ہے وہ سوویت یونین ٹوٹنے کا غم برداشت نہ کر پاتے بالکل اسی طرح جیسے 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کا غم کئی پرانے مسلم لیگی برداشت نہیں کر پائے تھے۔
یہاں میں ایک بات واضح کر دوں کہ ہمارے بڑے بھائی لفظ انگریز کے مفہوم میں تمام مغربی ملکوں کے سفید فام باشندوں کو شامل سمجھتے تھے۔ پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے ہم پاکستانی اسی انگریز کے چکر میں پھنسے رہے ہیں۔ اب بھی یہی صورت حال ہے، بلکہ اب تو پہلے کی نسبت اور بھی بُری صورت حال ہے۔ میری ذہنی کیفیت یہ ہے کہ جب بھی ہماری قیادت کا کوئی بھی Interactionکسی بھی مغربی ملک سے ہوتا ہے، بھلے وہ امریکہ ہو، برطانیہ ہو، یورپی یونین ہو یا آسٹریلیا ہو، میرے کانوں میں مرحوم بڑے بھائی کی آواز گونجتی ہے ''پیارے بھائی، انگریز بے ایمان ہے‘‘۔
اب تو ایسا ہو گیا ہے کہ اپنے جیسے کسی دوسرے ملک کے ساتھ بھی جب گورے کوئی Interactionکرتے ہیں تو، تب بھی یہ آواز سنائی دینے لگتی ہے کہ انگریز بے ایمان ہے۔ ابھی حال ہی میں مجھے یہ آواز اس وقت سنائی دی جب معلوم ہوا کہ برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھارت کو ساتھ ملا کر ''Big Three‘‘منصوبے کے ذریعے بین الاقوامی کرکٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ یہ برطانیہ اور آسٹریلیا کا باہمی طور پر کوئی طویل المیعاد منصوبہ ہے جس کے پہلے حصے میں بھارت کو اپنے ساتھ مجبوراً شامل کیا گیا ہے۔ کرکٹ کے حوالے سے بھارت سے سب سے زیادہ رقم جمع ہوتی ہے اور بھارت کو زیادہ حصہ دینے کا وعدہ کر کے اور نفسیاتی طور پر بگ تھری کا ایک بگ قرار دے کر ساتھ ملایا گیا ہے، ایک ایسے منصوبے میں جو اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے کی ایک عظیم الشان مثال ہے۔ ہم لوگ ہندوئوں کی بنیا ذہنیت کو کوستے رہتے ہیںاور ان کو چانکیہ کی شیطانی چالوں کے پُجاری گردانتے ہیں مگر معلوم ایسا ہوتا ہے کہ بھارت بھی گوروں کے جال میں پھنس چکا ہے۔
اس وقت بھی آپ برطانیہ اور آسٹریلیا کی چالاکی دیکھیں کہ بگ تھری کے منصوبے پر جتنی لعن طعن ہو رہی ہے، اس کا زیادہ تر ہدف بھارت کو بنایا جاتا ہے حالانکہ آپ تحقیق کریں تو بگ تھری کا مرکزی خیال گوروں کی طرف سے آیا ہو گا اور بھارت اس خیال سے محض متفق ہوا ہو گا۔
سیاسی میدان میں بھی آپ دیکھیں کہ کس طرح مغربی ملک بیساکھیوں کے سہارے بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدیوں کی غلامی کے بعد بھارتی جب گوروں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ بھارت مستقبل کی ایک بڑی طاقت ہے، تو بھارتی یہ سب بھول جاتے ہیں کہ سوا ارب نفوس کے اس ملک میں کروڑوں لوگ ایسی غربت کا شکار ہیں جو ابھی تک ہم پاکستانیوں نے کم ہی دیکھی ہو گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت کی مغرب کی طرف سے پذیرائی ہوتی ہے تو لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس شعبے میں زیادہ تر محنت بھارتی ورک فورس کرتی ہے اور زیادہ تر منافع امریکی لے جاتے ہیں۔
بھارت کبھی کبھی گوروں کو آنکھیں بھی دکھاتا ہے مگر یہ محض دکھاوا ہی ہوتا ہے۔ اپنے ہاں تو امریکہ نئے جوہری بجلی گھر نہیں لگا رہا اور سونامی کے بعد جاپان بھی تائب ہو گیا ہے مگر بھارت کی دھڑا دھڑ حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ جب میں دیکھتا ہوں تو وہی آواز سنائی دیتی ہے ''پیارے بھائی، انگریز بے ایمان ہے‘‘۔