تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     26-02-2014

تنہائی کا پہلا سال

گائوں جاتے ہوئے خود کو ڈپریسڈ محسوس کیا۔
نعیم بھائی کی پہلی برسی پر جانے کا خیال ہی کئی دنوں سے مجھے بے حال کر رہا تھا۔ ہر سال گائوں جانا ہوتا تو مجھے اور میرے بچوں کو سب سے زیادہ رومانس اس بات کا ہوتا تھا کہ وہاں نعیم بھائی ہوں گے۔ چھوٹے بیٹے کے پرچے ہو رہے ہیں‘ لہٰذا وہ نہیں جا سکتا تھا۔ بڑے بیٹے نے خود کہا کہ وہ میرے ساتھ جانا چاہتا ہے۔ لانگ ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ ان کی وفات سے کچھ ماہ قبل سلیم بھائی نے فون کیا تھا۔ وہ فون پر سسکیاں بھر رہے تھے۔ میں پریشان ہو گیا۔ بڑی دیر بعد بولے: 'ہم سب نعیم کو کھو دیں گے‘۔ انہیں نعیم بھائی کے لائف سٹائل پر اعتراض تھا۔ نعیم نے اپنی ساری زندگی بھائی بہنوں کے لیے گزاری اور اپنی پروا کبھی نہیں کی تھی۔ سلیم بولے: ''نعیم زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ اماں میرے خواب میں آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تم نعیم کو کیوں نہیں سمجھاتے۔ میں اسے اپنے پاس بلاتی ہوں لیکن وہ نہیں آتا۔ تم اس کے بڑے بھائی ہو۔ اسے بتائو اماں بلا رہی ہے‘ وہ میرے پاس آ جائے‘‘۔ 
میں یہ سن کر پریشان ہو گیا تھا۔ خاصی دیر تک سلیم بھائی کو تسلیاں دیتا رہا کہ خواب ایسے ہی ہوتے ہیں، کچھ نہیں ہوگا۔ آپ نعیم بھائی کے لائف سٹائل سے خوش نہیں، لہٰذا آپ کو یہ وہم خوابوں کی شکل میں آتے ہیں۔ میں سلیم بھائی کو تسلیاں دیتا رہا لیکن اندر سے خوفزدہ ہو چکا تھا۔ 
اس واقعے کے دس ماہ بعد نعیم بھائی کی میت گائوں لے جاتے ہوئے مجھے سلیم بھائی کا وہ خواب یاد آیا کہ اماں نعیم کو بلا رہی ہیں۔ گھر پہنچا تو ہارون بھائی اور میرے کزن نے بتایا کہ انہوں نے فوت ہونے سے کچھ ماہ قبل بہاولپور اپنے گھر میں ان دونوں سے کہا تھا: ''یار گائوں کے قبرستان میں کچھ درخت لگوائو۔ وہاں گرمیوں میں دھوپ بہت تیز ہوتی ہے اور مجھے گرمیاں ہرگز پسند نہیں ہیں‘‘۔ ہارون اور کزن شبیر کچھ نہ سمجھے تو بولے: ''آئو انٹرنیٹ پر دکھائوں کہ قبرستان کیسے ہوتے ہیں‘‘۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر امریکہ اور برطانیہ کے قبرستان دکھائے جہاں ہر طرف ہریالی اور صفائی ہوتی ہے اور کہا؛ ''میں ایسے قبرستان میں دفن ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ 
اب ان کی وفات کے ایک برس بعد گائوں جاتے ہوئے اکیس فروری 2013ء کی وہ صبح یاد آئی‘ جب میں نے ہسپتال میں ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے کے بعد گھر واپس آکر سات بجے بچوں کو سکول جانے کے لیے جگایا تھا۔ بیوی نے پوچھا کہ نعیم بھائی کا کیا حال ہے۔ میں نے کہا: ''وہ ٹھیک ہیں‘‘۔ وہ میرے چہرے سے اندازہ نہ لگا سکی کہ دنیا لٹ چکی تھی۔ جب بچے سکول چلے گئے تو میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ ایک لمحے میں سمجھ گئی کہ قیامت گزر گئی ہے۔ وہ کافی دیر تک روتی رہی۔ میں چپ بیٹھا رہا۔
گھر میں اپنے ہم زلف کو چھوڑا اور ہدایت کی کہ بچوں کو پتہ نہ چلنے دیں کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے سو چ رکھا تھا کہ بچوں کو واپس آ کر آرام سے بتائیں گے اور اس دوران انہیں ذہنی طور پر تیار کریں گے۔ میانوالی کے قریب پہنچے تو سکول سے لوٹنے والے چھوٹے بیٹے کا فون آیا: ''تایا ابو کہاں ہیں؟ آپ لوگ کدھر ہیں؟‘‘ اس کی ماں نے اسے بتایا کہ تایا ابو بیمار ہوگئے تھے، انہیں لیہ لے کر جا رہے ہیں۔ وہ تقریباً چیخ پڑا: ''اگر بیمار ہیں تو پھر لیہ کیوں لے کر جا رہے ہیں‘ اسلام آباد میں علاج کیوں نہیں کرایا؟‘‘ میری بیوی نے جواب دیا کہ ان کے ڈاکٹر دوست نے کہا ہے کہ اسے لیہ لائیں، 
میں اس کا علاج کروں گا۔ چھوٹا بیٹا قدرے مطمئن ہو گیا۔ 
اگلے دن دوپہر کے وقت جب نعیم بھائی کو دفن کر چکے تو میرے ہم زلف کا فون آیا کہ تمام احتیاطیں ضائع گئیں۔ دونوں بچوں کو سکول سے لوٹتے ہی پتہ چل گیا تھا کہ تایا ابو فوت ہوچکے ہیں اور اب دونوں بیٹھے رو رہے ہیں۔ ''کیسے پتہ چلا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے بتایا: ''اگلے روز ''دنیا‘‘ اخبار میں یہ خبر فوٹو سمیت فرنٹ پیج پر چھپی تھی۔ جونہی بچوں نے سکول سے واپسی پر فلیٹ کا دروازہ کھولا‘ سامنے اخبار پڑا تھا۔ بڑے بیٹے نے حیران ہوکر تایا ابو کا فوٹو دیکھا تو بھاگ کر اخبار اٹھایا اور وہیں پھینک کر فرش پر لیٹ گیا اور دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ چھوٹے بیٹے نے بھی اخبار اٹھا کر تایا ابو کا فوٹو دیکھا اور پھر دونوں زاروقطار رونے لگے‘‘۔ چھوٹے نے کہا: ''یہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ رات تو ان کے ساتھ کھیلتے رہے تھے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ بابا سے بات کرائو‘‘۔ مجھے علم تھا کہ میں اس وقت بات نہیں کر سکوں گا۔ اس لیے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ بات کرے۔ چھوٹے بیٹے نے بار بار ایک ہی بات کہی کہ اسے گائوں آنا ہے۔ اسے تایا ابو کی قبر پر جانا ہے۔ جب تک وہ خود تایا ابو کی قبر نہیں دیکھے گا‘ کسی کی بات کا یقین نہیں کرے گا۔ 
میری بیوی کو ابھی تک مجھ سے شکایت ہے کہ ہمیں بچوں کو ساتھ لانا چاہیے تھا۔ وہ اپنے تایا ابو کو خود قبر میں اتارتے۔ میں چُپ رہا۔ جب اس نے پھر یہ بات دہرائی تو میں نے کہا: ''تمہیں پتہ ہے کہ میرا اپنا ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس کو میں بچپن سے اپنے ساتھ لیے چل رہا ہوں۔ میں نے پہلے باپ‘ پھر ماں اور اب نعیم بھائی کا آخری بار چہرہ نہیں دیکھا۔ سب نے قبرستان میں زور لگایا کہ چہرہ دیکھ لو لیکن میں نے کہا‘ نہیں میں کبھی اپنے پیاروں کا خاموش چہرہ لے کر ساری عمر نہیں جی سکتا۔ میں بھی اپنے بچوں کے ذہنوں میں نعیم بھائی کا ہنستا مسکراتا گپیں لگاتا چہرہ رکھنا چاہتا تھا۔ 
میں نے اپنے ہم زلف سے کہا کہ وہ بچوں کو گائوں لے آئے۔ مجھے علم تھا کہ ان کی زندگی کا وہ مشکل ترین سفر تھا۔ چھوٹے بیٹے کو توقع تھی کہ ان کا تایا ابھی زندہ ہو گا۔ جب ان دونوں کو اگلے دن قبرستان لے کر گیا تو چھوٹا بیٹا صدمے کی حالت میں چُپ بیٹھا رہا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ بڑا بیٹا قبر کے قریب بیٹھا آنسو بہاتا رہا۔ شام ڈھل چکی تھی اور مجھے علم تھا کہ گارشیا کے ناول ''تنہائی کے سو سال‘‘ جسے نعیم بھائی نے خود ترجمہ کیا تھا‘ کی طرح ہمارے لیے بھی ان کے بغیر طویل تنہائی کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ 
تنہائی کا پہلا سال گزر گیا تھا۔ اکثر مجھے محسوس ہوتا‘ شاید میری بیوی درست کہتی تھی۔ مجھے بچوں کو نعیم بھائی کی میّت کے ساتھ گائوں لے جانا چاہیے تھا۔ کیا میں نے وہی کام کیا تھا جو روایتی باپ کرتے ہیں کہ اپنی مرضی بچوں پر مسلط کر دو؟ یا پھر میں نے وہی کچھ ان کے ساتھ کیا تھا جو میں اپنے ساتھ بچپن سے کرتا آیا تھا کہ پہلے باپ کا چہرہ نہ دیکھ سکا، پھر ماں کا چہرہ اور اب نعیم بھائی کا چہرہ بھی نہیں دیکھا۔ یوں میرے ذہن میں ماں باپ اور عزیز بھائی نعیم کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہر وقت رہتا ہے اور اس سے مجھے سکون ملتا ہے کہ شاید وہ اب بھی میرے ساتھ ہیں۔ 
ایک ماہ قبل میں نے ول ڈیورنٹ کی ایک کتاب خریدی اور تعارف پڑھتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی کہ ویل ڈیورنٹ کے ساتھ بھی اس کے خاندان نے یہی کچھ کیا تھا۔ وہ ہسپتال میں داخل تھے کہ ان کی بیوی‘ جس نے ان کے ساتھ Story of Civilization لکھی تھی‘ طویل رفاقت کے بعد انتقال کر گئی۔ خاندان کو علم تھا کہ اگر ول ڈیورنٹ کو اس بات کا پتہ چل گیا تو وہ سہہ نہ پائے گا‘ اس لیے خبر چھپا لی گئی؛ تاہم خاندان کے لوگ بھول گئے تھے‘ ول ڈیورنٹ کے ہسپتال کے کمرے میں ٹی وی بھی تھا‘ جیسے ہم بھول گئے تھے کہ بچے اخبار سے تایا کی خبر پڑھ سکتے تھے۔ یوں ول ڈیورنٹ کو ٹی وی خبروں سے پتہ چل گیا کہ اس کی بیوی مر چکی ہے۔ چند دنوں بعد ول ڈیورنٹ نے بھی آخری سانس لی۔
نعیم بھائی کی قبر کے قریب بیٹھ کر میں ان کی روح کی بخشش کی دعائوں سے فارغ ہوا تو یونان میں جنم لینے والے ادیب Nikos Kazantzkis کا ناول Freedom and death یاد آیا۔ نکوس نے اپنے اس ناول کا ایک خوبصورت جملہ اپنی قبر کے کتبے پر لکھنے کی ہدایت کی تھی جو آج بھی وہاں جانے والوںکو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ 
I hope for nothing,I fear nothing..I am free
ڈھلتی شام میں قبرستان پر چارسُو چھائی اداسی کے درمیان چائے، سگریٹ اور گیبریل گارشیا مارکیز اور ہنری ڈی بالزاک کے ناولوں کے بغیر اپنی قبر میں تنہا لیٹے من موجی نعیم بھائی پر بھی یہ فقرہ صادق آتا ہے۔ جہاں ہم طویل اور اداس تنہائی کی قید میں سانس لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے‘ وہاں وہ اب آزاد ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved