تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-02-2014

پھول بننے کے بعد‘ قمر جمیل اور افتخار جالبؔ

لیجیے جناب‘ وہ غنچہ کھل کر پھول بن گیا ہے، یعنی ع 
تھا جس کا انتظار وہ شہکار آ گیا 
ماشاء اللہ وزنی اتنا ہے کہ اس کے بوجھ سے اچھی خاصی شاخ اس قدر جھک گئی ہے جیسے رکوع کی حالت میں ہو۔ پھول بننے سے قمر جمیل مرحوم کا یہ لاجواب شعر یاد آ گیا ہے ؎ 
ایک پتھر کہ دستِ یار میں ہے 
پھول بننے کے انتظار میں ہے 
قمر جمیل کراچی سے ''دریافت‘‘ نامی پرچہ نکالا کرتے تھے ، ان کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی اور احمد ندیم قاسمی وہ تین ایڈیٹر تھے جنہوں نے مجھے بے تحاشا چھاپا۔ قمر جمیل مجھے یہ بھی بتایا کرتے کہ بھارت میں ان غزلوں کا بہت چرچا ہے اور وہاں ان کی وجہ سے خوشی کی ایک لہر دوڑی ہوئی ہے جبکہ انہوں نے میری ڈیڑھ ڈیڑھ سو شعر کی تین غزلیں بھی یکے بعد دیگرے شائع کیں۔ ایک بار جب بیمار پڑے اور ریڈیو آنا جانا موقوف ہو گیا تو تھوڑی سی ان کی مدد میں نے بھی کی تھی ۔ میں ان دنوں (بھی) رائٹرز ویلفیئر فنڈ پنجاب کے انتظامی ارکان میں شامل تھا جبکہ یہ ادارہ بیمار اور ضرورتمند ادیبوں کی معاونت ہی کے لیے کام کرتا ہے۔ سو‘ میں نے ازخود ان کے لیے 35 ہزار روپے کا ایک چیک منظور کروا کر بھجوایا جس کی قاسمی صاحب نے بھرپور مخالفت کی۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ ادارہ پنجاب کے ادیبوں کے لیے ہے جبکہ قمر جمیل کا تعلق کراچی سے ہے۔ بہرحال‘ میں نے اپنے دلائل پیش کیے اور سرخرو ہوا۔ اگرچہ اس کا ذکر ہرگز ضروری نہیں تھا لیکن انہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جو میرے لیے انتہائی غیر متوقع اور افسوسناک تھا اور میں سمجھتا 
ہوں کہ خود نوشت میں ناگوار واقعات کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔ ہوا یوں کہ محبی افتخار جالب کا بعداز انتقال کراچی ہی سے شائع ہونے والے رسالے ''آئندہ‘‘ میں ایک مضمون بعنوان ''ظفر اقبال... بیک ٹو ساہیوال‘‘ شائع ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ قمر جمیل نے انہیں بتایا تھا کہ ظفر اقبال نے ان سے کہا کہ وہ ''گلافتاب‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کے لیے دیباچہ لکھ دیں کیونکہ وہ ان کا دیباچہ اب شامل نہیں کرنا چاہتے۔ حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ میں نے قمر جمیل سے اپنی شاعری کے حوالے سے ان کی رائے مانگی تھی جو میری کتاب ''رطب و یابس‘‘ کے پاکستانی ایڈیشن کے پس سرورق شائع کی گئی جبکہ اس کا پہلا ایڈیشن شمس الرحمن فاروقی الہ آباد سے شائع کر چکے تھے‘ نیز طبع ثانی میں افتخار جالب کا دیباچہ شامل تھا۔ افتخار جالب نے اپنے اس مضمون میں دیگر طعن و تشنیع کے علاوہ اپنے اسی پہلے دعوے کی جس میں انہوں نے مجھے صاحبِ عہد شاعر قرار دیا تھا‘ کی تردید اس طرح کی کہ اس وقت عہد تو کوئی تھا ہی نہیں۔ میں نے اسی مضمون کے حوالے سے ''آئندہ‘‘ کے مدیر محمود واجد کو‘ جو اب مرحوم ہو چکے ہیں‘ صرف اتنا لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ مضمون کسی وقتی اُبال کے تحت لکھا گیا ہوگا جو انہوں نے اپنی زندگی میں کہیں شائع نہیں کرایا ورنہ ان کی تحریر تو ہر جگہ چھپ سکتی تھی‘ تو میرے خیال میں یہ مضمون مرحوم کے کاغذات میں پڑا کسی کو مل گیا جو ''آئندہ‘‘ میں چھپوا دیا گیا‘ کیونکہ ''گلافتاب‘‘ کی طبعِ ثانی 
کے بعد بھی میری ان سے ملاقاتیں رہیں اور دوسرے ایڈیشن کا نسخہ انہیں پیش بھی کیا گیا اور جب وہ لاہور آ کر بیمار پڑے تو ان کی عیادت کے لیے بھی گیا۔ جبکہ اس سے پہلے قمر جمیل بھی انتقال کر چکے تھے ورنہ ان سے بھی اس کی تصدیق کی جا سکتی تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی غلط فہمی کا ہی نتیجہ ہو۔ نیز یہ کہ جیسا تعلق میرا افتخار جالب کے ساتھ تھا‘ کم ا ز کم انہیں مجھ سے اس کی تصدیق کر لینی چاہیے تھی۔ میرے خیال میں افتخار جالب کی اصل ناراضی اس پر تھی جو میں نے ''گلافتاب‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں اس کی کچھ غزلوں کو ان کی اصل حالت میں چھپوا دیا تھا جیسے وہ کسی زمانے میں رسائل میں شائع ہوئی تھیں اور پہلے ایڈیشن میں‘ میں نے ان کو لسانی تشکیلات کا تھوڑا تڑکا لگا دیا تھا۔ حالانکہ میں نے اس کی وضاحت بھی کردی تھی کہ پہلے ایڈیشن میں قاری کو جو ''صدمہ‘‘ پہنچانا مقصود تھا‘ وہ میں پہنچا ہی چکا تھا۔ لہٰذا اب اس کی ضرورت نہیں تھی جبکہ اصل کام اس ایڈیشن میں بھی موجود تھا‘ نیز یہ کہ قاری کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کرنا بھی چاہتا تھا‘ مزید برآں بعد کے کام میں بھی یہ ذائقہ جہاں تہاں موجود ہے۔ پھولوں کا ذکر بہت ہو چکا جبکہ میرے کلام میں جانوروں کے علاوہ پھلوں اور سبزیوں کا ذکر بھی ''تسلی بخش‘‘ مقدار میں موجود ہے‘ حتیٰ کہ میری ایک نیاز مند سیدہ سیفو کے ایک مضمون کا عنوان تھا ''ظفر اقبال کی شاعری میں پھلوں اور سبزیوں کا ذکر‘‘، یادداشت کے زور پر چند شعر نقل کر رہا ہوں: 
میرے نسخے میں ہے شامل ترے رُخسار کا سیب 
اور یہ ہونٹ کا جامن بھی مجھے چاہیے ہے 
رسیلے غضب تھے‘ ظفرؔ اس کے ہونٹ 
وہ شہتوت منہ میں گھلا دیر تک 
کھائیے کیا کہ وصل کے انگور 
تھوڑے کھٹے ہیں‘ تھوڑے کچے ہیں 
کھلائیں اس کو اوکاڑے کے امرود 
اگر آئے صلاح الدین محمود 
چھلکے سے پھسلے ظفرؔ 
کھا کر کیلا پیار کا 
پیڑ تو آم کا نہیں‘ لیکن 
شاخ پر آم سے لگے ہوئے ہیں 
روٹی تھی اس کے تھیلے میں 
روٹی پر بھنڈی توری تھی 
عربی فارسی کا ایم اے ہوں 
ساگ کو کہنا چاہتا ہوں سیاغ 
جسے کُتے نہیں قبولتے ہیں 
شعر ہے وہ سڑا ہوا آلو 
کلیاں بہہ کے کھاندا 
ظفراؔ یار کریلے 
ستویں وار وتائوں 
پہلی وار کریلے 
دی ہیں یہ گاجریں خدا نے
رکھ ہاتھ میں صبح و شام رمبا
جانوروں کا ذکرِ خیر پھر کبھی سہی کیونکہ بقول غالبؔ 
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے 
ان گزارشات کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ میری شاعری کے شوقین خواتین و حضرات خبردار رہیں کہ پھلوں‘ سبزیوں‘ جانوروں اور دیگر مخلوقات کے ذکر سے بھری اس شاعری کے حوالے سے کچھ بہت زیادہ خوش فہم نہ رہیں۔ میں ویسے بھی دیہاتی پس منظر کا آدمی ہوں اور ان مخلوقات سے میرا براہِ راست رابطہ رہا ہے ، یعنی ؎ 
ظفرؔ، میں شہر میں آ تو گیا ہوں 
مری خصلت بیابانی رہے گی
آج کا مقطع 
دوسروں کو تو یاد ظفرؔ، کیا ہو گا 
میں بھی نام تمہارا بھول گیا ہوں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved