کائنات کیا ہے اور زندگی کیا ؟ ہر ایک نے مجھے مختلف اور متضاد جواب دیا۔ اپنی اپنی جگہ وہ سب سچّے تھے ۔
سب سے پہلے میں نے ایک سائنسدان سے یہ سوال کیا۔ اس نے یہ کہا کہ ابتدا میں مادہ جڑا ہوا اور بے حد کثیف تھا۔ کائنات کی یہ جو صورت ہم دیکھ رہے ہیں کہ اجرامِ فلکی ایک دوسرے سے لاکھوں میل کے فاصلے پہ تیر رہے ہیں ، اس کا تو تصور تک نہ تھا۔ پھر ایک عظیم دھماکہ (بگ بینگ) ہوا۔ روشنی کی رفتار سے سب کچھ بہنے لگا۔ پھر ایک ذرّہ ''ہگز بوسون‘‘ روبہ عمل آیا۔ وہ سیکنڈ کے ایک مختصر سے عرصے میں اپنا جلوہ دکھاتا اور مادے کو وزن عطا کر کے فنا ہو جاتا۔ وہ نہ ہوتا تو مادہ توانائی کی شکل میں محوِ سفر رہتا اور کبھی ٹھوس شکل اختیار نہ کر پاتا۔ اس کارنامے کی بنا پر اسے ''خدائی ذرّے‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس نے کہا کہ یہ جو عظیم دھماکہ تھا، اس سے ہائیڈروجن نے جنم لیا۔ ہائیڈروجن کے انہی بادلوں سے ستارے وجود میں آئے ۔ ''تارے‘‘ اس نے کہا ''ستارے ہی وہ بھٹیاں ہیں ، جہاں ہائیڈروجن جیسے سادہ اور ہلکے عنصر سے لوہے جیسے بھاری عناصر نے وجود پایا۔ دوسرے الفاظ میں یہ وہ کارخانے ہیں ، جہاں موجودہ کائنات میں نظر آنے والی ہر شے بنی ہے‘‘۔
پھر اس نے تفصیل بتائی ۔ ستارے کے مرکز میں غیر معمولی درجہ حرارت اوردبائو میں ہائیڈروجن کے ایٹم‘ ہیلیم میں بدلتے ہیں ۔ یہی وہ عمل ہے ، جس میں گاما ریزنامی وہ شعاعیں پھوٹتی ہیں ، جو سورج کو چمک عطا کرتی ہیں ۔ چند ارب سال میں ،جب تمام ہائیڈروجن ہیلیم میں بدل جاتی تو ستارے کی موت کا عمل شروع ہوتا ۔ اب درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا کہ نسبتاً پیچیدہ عناصر بھی تشکیل پانے لگتے ۔ ہیلیم سے کاربن بنتااور کاربن سے آکسیجن۔ آخر کار لوہا وجود میں آتا اور تب ستارہ فنا ہو جاتا۔ہمارے اجسام میں موجود تمام عناصر بھی اسی عمل میں بنے ؛لہٰذا ہم انسان ستاروں کی اولاد ہیں۔اس نے کہا کہ کائنات میں سب سے زیادہ اہم چیز شاید وہ ہے ، جسے ہم زندگی کہتے ہیں ۔ بے جان عناصر کے برعکس ایک زندہ خلیہ اپنی نسل بڑھاتا ہے ۔ کرّہ ارض کی ابتدا میں مخصوص درجہ حرارت اور دبائو میںامونیا اور میتھین جیسے کیمیکل پانی کے ساتھ اشتراک سے امائینو ایسڈ بنانے لگے اور وہ زندہ اجسام کا بنیادی جزو ہیں ۔ پہلا زندہ خلیہ بنااور اپنی افزائشِ نسل کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ زیادہ خلیات پر مشتمل زندگی جنم لینے لگی۔ ''یہ آج جو ہم جاندا ر دیکھتے ہیں ، بشمول انسان ،یہ کھرب ہا کھرب خلیات پر مشتمل انتہائی پیچیدہ جاندار ہیں اور قدرت کی اربوں سالہ ریاضت کا نتیجہ ۔ سب سے خوبصورت زندگی وہ ہے ، جو ذہین ہے ۔ یہ راز اب تک منکشف نہیں ہو سکا کہ ایک خاص مخلوق ذہانت میں دوسروں سے آگے کیسے بڑھنے لگی ؛حتیٰ کہ وہ کرّء ارض کا مالک بن بیٹھی ۔بہرحال، یہ اقتدار لمحاتی ہے۔ ساڑھے چار ارب سال کی کرّہ ارض کی حیات میں انسانی عروج کے چالیس پچاس ہزار سال کوئی معنی نہیںرکھتے ؟ پھر یہ کہ کوئی بھی حادثہ آنِ واحد میں ہمیں مٹا سکتا ہے ۔ مثلاً ساڑھے چھ کروڑ سال قبل خلا سے دس کلومیٹر قطر کی ایک چٹان میکسیکو میں آگری۔ اس ٹکرائو سے پیدا ہونے والی تباہی ، زلزلوں اور سونامی سے سیارہ ارض کی ستّر فیصد زندگی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ یہ واحد واقعہ نہ تھا، جب زندگی اپنے مکمل خاتمے سے بمشکل تمام ہی بچ پائی ‘‘
پھر ایک مولوی صاحب ہمارے پاس آبیٹھے ''ایک ملحد ذہن کی خرافات‘‘انہوں نے کہا ''خدا نے کائنات کو تشکیل کا حکم دیا اور آنِ واحد میں وہ بن گئی‘‘ ۔''کن فیکون‘‘۔ اتنی سی بات ہے ، جس کا تم نے بتنگڑ بنا لیا ہے ۔ اسی نے انسان کو عقل عطا کی اور اسے زمین پر اترنے کاحکم دیا۔ سائنسدان نے کہا کہ جو کچھ اس نے بتایا، وہ ثابت شدہ ہے ۔ کرّہ ارض کی ابتدا کا ماحول پیدا کر کے مصنوعی طور پر امائینو ایسڈ بنائے جا چکے ہیں ۔اس نے مولوی کو ایک ایسا ضعیف الاعتقاد شخص قرار دیا، جسے نفسیاتی طور پر ایک مضبوط سہارا درکار تھا ؛چنانچہ اس نے خدا کا وجود گھڑ لیا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ وہ اس کے کسی ثبوت کو نہیں مانتے اور بات ختم ہو گئی۔
جب وہ لڑتے جھگڑتے وہاں سے چلے گئے تو ایک کم عمر سا نوجوان میرے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ وہ ایک ایسے عالم اور صوفی کا شاگرد ہے‘ جو زندگی کو آسمان سے دیکھتا ہے ۔ جس نے ساری زندگی تحصیلِ علم میں گزاری ہے اور جو بغیر کسی تعصب کے ، ثبوت اور دلیل کی بنیاد پر مذہب اور سائنس کا مطالعہ کرتاہے ۔ اس نے کہا کہ مولوی نے الہامی کتب میں درج شدہ حقیقت بتائی۔سائنسدان نے جو کچھ کہا ، وہ تفصیلی طریقہ ء کار (Procedure)ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک حکمران فخریہ بتائے کہ اس نے ملک میں موٹر وے تعمیر کرائی۔ ادھر سائنسدان کہتاہے کہ پہلے زمین ہموار کی گئی تھی ، پھر بجری منگوائی گئی ۔ شواہد کا جائزہ لیتا ہوا ،وہ تفصیلات میں اس قدر کھو جاتاہے کہ کسی منصوبہ ساز کاتصور ہی گم ہو جاتاہے ۔ ادھر مولوی کی تمام توجہ خدا پہ مرکوز ہے اور وہ کائنات کی کسی تدریجی تعمیر یا بالفاظ دیگر نظریہ ارتقاکو ماننے پہ تیار نہیں ۔
اس سارے قصے سے معلوم یہ ہوا کہ ہر ایک کا سچ اپناہے اور اس سچ کی تعمیر میں اس کی ذاتی زندگی کا دخل بے حد زیادہ ہے ۔ ایک شاعرکی زندگی غموں اور مسرّتوں کی تصویر کشی تک محدود ہے ۔ ایک تاریخ دان دو چار بادشاہوں کی کہانیاں بیان کرے گااور ایسی کہانیاں ہر سو بکھری ہیں ۔تو کامیاب کون ہے ؟ وہ ، جو کائنات کو تھوڑا سا سمجھ لے اور کچھ اپنے اند رجھانک سکے۔ جو دو بادشاہوں کی جنگوں میںنہ کھو جائے ۔ جسے معلوم ہو کہ ایک چھوٹی سی جبلّت انہیں غلبے پہ اکساتی ہے ۔ جو کائنات میں بکھری نشانیوں پہ غور کرتا ہوا، خالق تک پہنچ جائے ۔ پھر وہ اپنی اوقات کے مطابق ایک ذرا سا تعلق اس عظیم منصوبہ ساز سے استوار کر سکے۔ زندگی میں جو آزمائشیں درپیش ہوں ، ان سے وہ صبر اور عقل کی مدد سے تدبیر کرتا ہوا گزر جائے اور ایک دن جان‘ جان آفریں کے سپرد کر دے ۔اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے ؟