تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-02-2014

بھوک سے بلکتے بچّے

کیسے بچے ہیں کہ بھوک سے بلکتے ہیں مگر ماں کے سامنے روتے بھی نہیں ؟ 
دستِ ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
کھیل کا آغاز ہو گیا ۔ نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق قبائلی علاقوں میں قیامِ امن کے کارِ فضول سے دستبردار ہو کر پولیو پر ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے بھاگم بھاگ جدّہ تشریف لے گئے ۔ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد، وہ تشریف لائیں گے ۔ ایک بار پھر بتائیں گے کہ پاکستان دراصل امریکی ایجنٹ ہے۔ صرف بیس کروڑ انسانوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے‘ نفاذِ شریعت کی خاطر قیدیوں کے گلے کاٹنے والے مجاہدین پہ معترض رہتا ہے ۔ سبحان اللہ ۔ کیا مرتبہ پایا کہ اوّل وزیراعظم نواز شریف نے ذمہ داری سونپی ، پھر طالبان کے اعتماد سے بہرہ ور۔ 
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے 
عمران خان تو پارٹی کے دبائو کا شکار ہو کر دہشت گردوں کی بالواسطہ وکالت سے قدرے الگ ہوئے ۔ مولانا فضل الرحمن اور سیّد منور حسن کیا کریں گے؟ حکیم اللہ محسود کے مداح منوّر حسن کے بارے میں کچھ عرض نہ کرنا ہی بہتر ہے مگر مذہبی میکاولی کے آئندہ کردارکا مطالعہ دلچسپ ہو گا۔ ایک طرف تو انہیں وفاقی کابینہ میں دو عدد رسیلی وزارتیں درکار ہیں کہ اسلام کی خدمت کا حق اداہو‘ دوسری طرف طالبان کی حمایت سے وہ دستبردار نہیں ہو سکتے۔ یہ عقیدے کا سوال ہے۔ 1830ء کے عشرے کا سرحدی خطہ ، 1857ء کا لکھنؤ، ریشمی رومال تحریک، افغانستان میں ملّا عمر کا اقتدار اور اب پاکستان کے قبائلی علاقے میں فروغِ دین ۔ مجال ہے کہ ان لوگوں کے پائے استقلال میں کبھی لغزش آئی ہو ۔ 
2002ء میں امریکیوں نے عراق میں قتلِ عام کیا تو سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت تھی ۔ احتجاج کے لیے ان کے کارکن بے چین تھے مگر مولانا فضل الرحمن اوّل کرنل قذّافی سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے ، جنہوں نے نواز شریف سے یہ کہا تھا‘ اگر ضرورت پڑے تو پاکستان میں اپنے حامیوں کو آپ کی مدد کامشورہ دے سکتا ہوں ۔ پھر وہ حجازِ مقدس پہنچے ۔ وہاں سے اردن۔ شریفِ مکہ کی اولاد کے لیے، جس کے بارے میں ، اقبالؔ نے کہا تھا ؎ 
یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے 
گلیمِ بو ذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا 
اس وقت ، جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ، مولانا فضل الرحمن کے انتخابی حلقے سے پرے لونی اور کلاچی کے علاقوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں نے بمباری کی ہے ۔ بلوچستان اور فاٹا کا درمیانی علاقہ، جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے قائم ہیں ۔ اگرچہ پورے ملک میں ہیں ۔ بڑے شہروں سے متصل ، ایک خاص مکتبِ فکر کے بعض مدارس میں ، بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں ، کراچی میں جس کا خود ساختہ جلاوطن لیڈر اب یہ چاہتاہے کہ اس کی بوئی ہوئی فصل مسلح افواج کاٹیں ، مارشل لا نافذ کر کے ۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کو متحرک کر دیا گیا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ 
طالبان کے ممتاز کمانڈروں میں سے ایک عصمت اللہ شاہین انجام کو پہنچا ، جس کے سر کی قیمت ایک کروڑ تھی۔ 
آفتاب احمد شیر پائو نے سوال کیا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کے پاس معلومات کیا پہلے سے موجود تھیں یا اچانک ملی ہیں ۔ سوال نہیں، سابق وزیرِ داخلہ کو جواب دینا چاہیے ۔ سیاستدانوں نے طے کر رکھا ہے کہ ذمہ داری وہ کبھی کسی چیز کی نہ لیں گے ، بار ہمیشہ دوسروں پہ ڈالیں گے۔ حافظ حسین احمد نے فرمایا ''ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا‘‘۔ مولانا فضل الرحمن وزارتوں پر سودے بازی کے لیے تو آئے دن وزیراعظم سے ملاقات فرما سکتے ہیں، مذاکرات کے لیے کیوں نہیں؟ جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے باب میں حافظ حسین احمد کو اس کے لیڈر نے کبھی اعتماد میں لیا؟ 
سیّد خورشید شاہ کا فرمان یہ تھا کہ پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی سلامتی کی داخلی پالیسی سے کنفیوژن میں اضافہ ہوا ۔ کون سا کنفیوژن؟ اگر اس میں نقائص اور تشنگی ہے تو کس نے تجاویز پیش کرنے سے روکا ہے ؟ سیاستدانوں کی مگر چار ہی ترجیحات ہیں ۔ اقتدار، اقتدار ، اقتدار اور احمقانہ بیان بازی ۔ وزیراعظم نے خورشید شاہ کو دلاسا دیا کہ اگر کچھ کنفیوژن ہے تو دور کر دیا جائے گا۔ کیوں نہ کریں ؟ قومی سلامتی نہیں ، سیاسی حلیفوں کو آسودہ رکھنا ان کی ترجیح ہے ۔ طے پایا ہے کہ جناب آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں نے پانچ سالہ اقتدار میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے، اس پر کبھی باز پرس نہ ہوگی ۔ کھربوں کی لوٹ مار اگر ہوئی ، قوم اگر پچاس برس پیچھے دھکیل دی گئی اور قرضوں میں 8ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا تو یہ کون سا بڑا نقصان ہے ؟ جنرل کیانی کی سازشوں کے باوجود جمہوریت بچ رہی اور اس پر ایک جشنِ مسلسل چاہیے۔ رہیں افواجِ پاکستان تو وہ قربانی کے بکرے ہیں ۔ سیاچن میں وہ مریں ، قبائلی علاقوں میں وہ قتل کیے جائیں ۔ اس کے باوجود گالی دی جائے کہ کوئی فیصلہ نواز شریف کی اجازت کے بغیر نہیں۔ اس کے باوجود دی جائے کہ سیاست سے اب وہ گریزاں ہیں ۔ 
سچ کہا، اللہ کے آخری رسولؐ نے سچ کہاتھا: جسے شرم نہیں آتی ، وہ اپنی مرضی کرے۔ بلوچستان میں خرابی کا ذمہ دار، حامد کرزئی ہرگز نہیں، بھارت کی را بھی نہیں ، سی آئی اے اور عرب ممالک کے کارندے بھی نہیں، جو گوادر سے پریشان ہیں۔ براہمداغ اور ہربیار بھی نہیں، جو بھارت کاکھاتے ہیں۔ پاکستانی فوج ہے ، پاکستانی فوج ۔ 
ایک اخبار نویس نے لکھا ہے ۔ تین ہفتے میں کارروائی تمام ہو سکتی ہے ۔ ایک کا دعویٰ ہے کہ چار سے چھ ہفتے میں ۔ ہرگز نہیں ۔ دہشت گردوں کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ سیاسی اور مذہبی سرپرستی انہیں حاصل ہے ۔ حامد کرزئی حکومت اور ''را‘‘ کی مالی و اسلحی مدد بھی ، حتیٰ کہ بعض منصوبے دہلی اور کابل میں بنتے ہیں ۔ 
کیا چیز ہے جو بالآخر پورے امن کی ضمانت دے سکتی ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پوری یکسوئی ۔ سوفیصد نہیں ، دو سو فیصد پختہ عزم ، جیسا کہ 1995ء کے کراچی آپریشن میں بروئے کا رآیا تھا ۔ جیسا کہ طیب اردوان نے نواز شریف سے کہا تھا : سلامتی کے سول اداروں کی تشکیلِ نو ۔ پالیسی اچھی ہے اور مزید بہتر بنائی جا سکتی ہے لیکن عمل در آمد ؟ مولانا سمیع الحق ؟ مولوی عبدالعزیز؟ عرفان صدیقی؟ رستم مہمند اور مولانا یوسف ،جو خود ہی کمیٹی کے ترجمان ہو گئے ؟ جی نہیں ، مردانِ کار ۔حال یہ ہے کہ انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی کے دفتر کا کرایہ سال بھر سے ادا نہیں ہوا۔ حال یہ ہے کہ پنجاب سمیت کسی صوبے نے پالیسی کے لیے لکھے جانے والے خط کا جواب تک نہ دیا۔ پنجاب میں حمزہ ، سندھ میں فرعون کے زمانے کا قائم علی شاہ ، پختون خوا میں دھواں خور پرویز خٹک اور کوئٹہ میں بیچارہ عبدالمالک، جس کا نون لیگ کے وزرا نے بائیکاٹ کر رکھا ہے ۔ 
یکسوئی ، قومی اداروں میں ہم آہنگی اور مردانِ کار۔ انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی بھی کسی حمزہ شہباز کو نہ سونپ دی جائے ۔ 
احساس کی ایک مشعل تو آخر کار فروزاں ہے مگر لائحہ عمل ؟ قائداعظم ثانی اور ان کے مشیر ۔ اللہ رحم کرے گا مگر جیسا کہ عارف نے کہا تھا : بن مانگے بعض اوقات وہ گھاس بھی نہیں دیتا۔ کیسے بچے ہیں کہ بھوک سے بلکتے ہیں مگر ماں کے سامنے روتے بھی نہیں؟ 
دستِ ہر نا اہل بیمارت کند 
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved