تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-02-2014

خوفزدہ حکمرانوں کے خفیہ اجلاس

اگر میں یہ کہوں کہ جس سکیورٹی پالیسی کا اتنا بڑا چرچا کیا گیا ہے، وہ دراصل 2008ء میں اقوام متحدہ کی بنائی گئی ایک پالیسی کا چربہ ہے تو کیسا رہے گا؟
وزارت داخلہ کے جن افسروں کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا‘ انہوں نے گوگل کی مدد سے نکات لے کر یہ رپورٹ بنائی ہے۔ خیر اس میں کوئی ہرج نہیںہے۔ آپ دنیا بھر کی سکیورٹی پالیسیوں کا جائزہ لے کر اپنی پالیسی بنالیں لیکن ایمانداری کا تقاضا ہے کہ اس کا حوالہ دیا جائے تاکہ اس کی ساکھ میں اضافہ ہو‘ نہ کہ کسی کا مال‘ اپنا کر کے بیچا جائے۔ کیونکہ جن لوگوں نے اقوام متحدہ کی وہ رپورٹ پڑھ رکھی ہے، وہ اس پر ہنسیں گے۔ کچھ پیرے تو ویسے ہی اٹھا کر پیسٹ کر دیئے گئے ہیں اور ایسی چیزیںبھی ڈال دی گئی ہیں جو صرف مغربی ممالک کے لیے ہیں۔ 
یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ وزارت داخلہ جس سے اسلام آباد میں چار نوجوان ڈاکوئوں کا ایک گروہ پچھلے ایک سال سے نہیں پکڑا گیا وہ کیسے پورے ملک کی سکیورٹی کا بیڑا اٹھا رہی ہے؟ اسلام آباد جیسے چھوٹے شہر میں روزانہ ہر گھر میں یہ ڈاکو داخل ہوتے ہیں، گھر والوں کو یرغمال بناتے ہیں، کچن میں ناشتہ، لنچ یا ڈنر خود تیار کرتے ہیں‘ پورے گھر کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں اور سارا سامان باندھ کر چلتے بنتے ہیں‘ جبکہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ فکر نہ کریں۔ وزارت داخلہ اور دیگر اداروں کے پاس 26 ایجنسیاں ہیں۔ ان ایجنسیوں کا ہم کیا کریں جو ایک سال سے چار ڈاکوئوں کو نہیں پکڑ سکیں جو دندناتے پھرتے ہیں اور شہر کی پولیس کو ''باجی پولیس‘‘ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس چیف سکندر حیات اور ایس ایس پی آپریشن ڈاکٹر رضوان کی ایک دوسرے سے بول چال تک نہیں ہے۔ دونوں کے سفارشی مختلف ہیں لہٰذا وہ ایک دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ڈاکٹر رضوان اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے ساتھ بارہ کمانڈوز کا دستہ پھرتا ہے جب کہ وزیرداخلہ کے پاس صرف دو گن مین ہیں ۔ کوئی بتائے گا کہ ڈاکٹر رضوان کو کس سے خطرہ ہے جو چوہدری نثار اور دیگر سیاستدانوں کو نہیں ہے‘ جن کی سکیورٹی وزارت داخلہ نے واپس لے لی ہے کہ اپنا بندوبست خود کرو؟ اور تو اور چیئرمین سینٹ نیر حسین بخاری کی بھی سکیورٹی ہٹا لی گئی۔ شاید بخاری صاحب کے گارڈز ہی ہٹا کر ڈاکٹر رضوان کو دیے گئے کیونکہ ایس ایس پی کا سفارشی بہت تگڑا ہے۔ اسی اسلام آباد میں بیٹھ کر وزیرداخلہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ بہت جلد سب کچھ ٹھیک کردیں گے۔ 
رحمن ملک دور میں وزارت داخلہ میں جو تباہی مچی‘ اس کے اثرات بڑی دیر تک محسوس ہوتے رہیں گے لیکن چوہدری نثار کا اب تک کا دور بھی ان سے مختلف نہیں‘ جس میں باتیں زیادہ اور عمل کم ہے۔ دوسری طرف واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ جس سکیورٹی پالیسی یا طالبان کے ساتھ ڈیل کے معاملے کو میڈیا اور سیاسی جماعتیں کنفیوژن کہتی ہیں‘ وہ دراصل ایک خوف کا نتیجہ ہے۔ جب وہ بڑے‘ جنہوں نے طالبان کے خلاف لیڈ کرنا تھا‘ ایسے لوگوں کو بلا کر اپنا خوف ان کے ساتھ شیئر کریں گے جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ طالبان تک ان کا پیغام پہنچا سکتے ہیں توپھر کون اور کیسے لڑے گا؟ جب ایک وزیر ہی ایک بہت ہی معتبر آدمی کو بلا کر کہے گا کہ بھائی طالبان کو بتائو کہ میں نے ان کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی تو پھر سکیورٹی پالیسی بنا کر آپ نے کیوں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کیا؟ جب اس ملک کو چلانے پر مامور ایک بڑا لیڈر بھی اس سے ملتی جلتی گفتگو اس لیے کرے گا کہ 
طالبان تک یہ بات پہنچ جائے کہ اس نے کبھی ان کے خلاف کھل کر آپریشن کا لفظ استعمال نہیں کیا اور اپنی تقریروں میں بھی بہت احتیاط کرتا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے، وہ ردعمل کے طور پر فوج کررہی ہے تو پھر اس ملک کے لیے کون لڑے گا؟ جن کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ چوہدری نثار علی خان نے پنجاب ہائوس میں حکومتی اور طالبان کمیٹی کے ارکان کا خفیہ مشترکہ اجلاس کیوں بلایا تھا‘ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس اجلاس کو بلانے کی اجازت وزیراعظم نواز شریف نے دی تھی اور اس کی وجہ غالباً مشترکہ خوف تھا کہ طالبان کا ردعمل ان کے خلاف نہ ہو۔ اس اجلاس کا مقصد بھی یہی تھا کہ طالبان کو کسی طرح یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اگرچہ ایف سی کے 23 نوجوانوں کو بے دردی سے شہید کرنے کے بعد فوجی ردعمل ایف سولہ طیاروں کے حملوں کی شکل میں ہوا تھا لیکن وہ پھر بھی طالبان سے بات چیت کو تیار ہیں‘ اگر وہ ان کی اتنی مدد کردیں کہ سیزفائر پر مان جائیں ۔ جب ہمارے لیڈر اس طرح کے پیغامات پنجاب ہائوس میں خفیہ اجلاس منعقد کر کے بھیجیں گے تو پھر کون سی لیڈرشپ اور کہاں کے لیڈر! اگر یہ لیڈر واقعی اپنے خاندان اور بچوں کے لیے اتنے پریشان ہیں تو انہیں کچھ عرصے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کیوں نہیں بھیج دیا جاتا؟ بیشتر وزرا کے بچے تو پہلے ہی امریکی شہری ہیں لہٰذا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کے بچے بھی لندن میں کاروبار کرتے ہیں، پھر بھی یہ سب طالبان کے ردعمل سے کیوں اتنے خوفزدہ ہیں کہ انہیں اس کام کے لیے حکومتی اور طالبان کمیٹی کے خفیہ اجلاس کی ضرورت پیش آتی ہے؟ تو کیا ہم سمجھ لیں کہ اس ملک کو وہ وزیر چلا سکے گا جس کے جنرل نصیراللہ بابر کی طرح بچے نہیں ہوں گے اور وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرے گا؟ 
بہادری کی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے انسانی تاریخ میں قوموں اور انفرادی حیثیت میں بھی بہادری کے لازوال کارنامے دکھائے گئے۔ آخر ڈیرہ اسماعیل خان کے سپوت‘ سندھ کے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات میں اتنی جرات کہاں سے آگئی کہ وہ اکیلا کراچی میں ڈٹ گیا ہے۔ اس کے بھی تو بیوی بچے ہیں۔ پوٹھوہار کے فرزند سی آئی ڈی کراچی کے چوہدری اسلم کے بھی تو بیوی بچے تھے، مگر وہ بھی ڈٹ گیا تھا ۔ اس نے دھمکی آمیز فون کالز کے بعد بھی کراچی میں کوئی خفیہ اجلاس نہیں بلایا تھا۔ 
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہی پوٹھوہار دھرتی کا ہیرو راجہ پورس بھی تو سکندر یونانی کی فوج کے آگے ڈٹ گیا تھا جب کہ ایران کا بڑا سورما دارا میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا۔ راجہ پورس‘ جسے میں اس دھرتی کا ہیرو سمجھتا ہوں‘ کے بھی بیوی بچے تھے۔ ہم کس قدر احساس کمتری کا شکار ہیں کہ سکندر نے تو پورس کی بہادری کی قدر کی لیکن ہم نے آج تک اسے پوٹھوہار کی دھرتی کا ہیرو نہیں سمجھا۔ نواب مظفر خان شہید بھی ملتان کو سکھوں کی یلغار سے بچانے کے لیے اپنے سات جوان بیٹوں کے ساتھ رنجیت سنگھ کی فوجوں کے خلاف میدان جنگ میں اترا تھا اور وہ ساتوں بیٹے ایک ایک کر کے کٹتے گئے۔ نواب مظفر کو علم تھا کہ اس کے کندھوں پر اپنے سات جوان بیٹوں سے زیادہ اس عوام کے بچوں کا بوجھ ہے جنہوں نے اسے اپنا حکمران مان رکھا تھا ۔ ابراہیم شاہ لودھی بھی اپنے بیوی بچوں کی پروا کیے بغیر، بابر کی فوج سے لڑ گیا تھا‘ چاہے ہار ہی گیا۔ شیر شاہ سوری نے بھی اپنے بچوں کی پروا نہ کرتے ہوئے مغلوں کو ہندوستان سے مار بھگایا تھا اور جب تک وہ زندہ رہا، ہمایوں ایران میں پناہ لے کر بیٹھا رہا! اگر کسی کو اپنے بیوی بچوں کی فکر عوام کے بچوں سے زیادہ ہے تو پھر بہتر ہے وہ گھر بیٹھے اور عوام کا لہو بہتے دیکھے، جیسے باقی دیکھ رہے ہیں ۔ 
اس کم لکھے کو زیادہ جانیں کیونکہ میں ابھی اس موڈ میں نہیں ہوں کہ وہ سب تفصیل بتائوں کہ ترکی میں جب وزیراعظم نواز شریف اور آرمی قیادت کی ملاقات افغان صدر کرزئی اور ان کے افسران سے ہوئی تو کرزئی نے کیسے پاکستان کے خلاف طویل چارج شیٹ پڑھی۔ وزیراعظم بھی چُپ رہے اور پوچھنے کی جرأت نہ کر سکے اگر پاکستان کی طرف سے افغانستان کے اندر سب کچھ ہورہا ہے تو پھر افغان بھی تو یہی کچھ ہمارے ساتھ کررہے ہیں۔ گلہ کس بات کا؟ دونوں پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 
ایف سی کے 23نوجوان جو نواز کرزئی ملاقات کے بعد قتل ہوئے‘ وہ بھی افغانستان کے اندر قید رکھے گئے تھے اور تحریک طالبان کے اکثر لیڈر وہیں سے آپریٹ کر رہے ہیں، تو کیا ان کے بہیمانہ قتل میں کرزئی کو شریک جرم سمجھا جائے ؟ 
سنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام نے ہمت کی اور کرزئی کے الزامات کا جواب دیا، وگرنہ کرزئی جس نے اپنے محسن امریکیوں تک کو ٹف ٹائم دے رکھا ہے، کے خوفناک الزامات سن کر سیاسی قیادت کو تو سانپ سونگھ گیا تھا!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved