تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     28-02-2014

ٹیک اوور کہانی

الطاف بھائی کی طرف سے ''ٹیک اوور‘‘ کہانی پر تبصرہ بعد میں کریں گے‘ پہلے نون اورپی پی کی کہانی سن لیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہورہاہے یا کیاجارہاہے کہ وہ نون لیگ کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے بجائے اس سے مک مکا کر بیٹھی ہے۔اس مفروضہ کا میثاق جمہوریت کی طرز کا کوئی دستاویز ی ثبوت تو نہیں ہے لیکن ''محب وطن حلقوں‘‘کاکہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نون لیگ کی حکومت کو اس کی ٹرم یوں پوری کرارہی ہے جیسے دائیاں ، کام والی ماسیاں اور Maid (ملازمہ) اپنے مالک کے بچوں کی پرورش انہیںمیٹھی میٹھی لوریاں سنا تے ہوئے کررہی ہوتی ہیں: 
راج دلارے او میری اکھیوں کے تارے 
میں تو واری، واری جائوں راج دلارے
قومی اسمبلی میں قائد حزب مخالف سید خورشید شاہ نے اپنے خطاب میں سپیکر اوروزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ شدت پسندوںکے ساتھ مذاکرات یا جنگ ہو ہم حکومت کے ساتھ ہیں، عرض صرف یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن اورپارلیمانی لیڈروں کو اعتماد میں لیا کرے۔سید خورشید شاہ نے جس دھیمے انداز سے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کو مخاطب کیا‘ اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ قائد حزب اختلا ف جس لب ولہجے میں قائد ایوان کو مخاطب کئے ہوئے تھے‘ وہ ہماری سیاست کا رواج نہیں سمجھا جاتا۔ یوں لگ رہاتھا کہ اسمبلی کا اجلاس لکھنؤ میں ہو رہاہے۔یہ سب دیکھ کر بطور پاکستانی میں بہت خوش ہوا کہ ہماری سیاست ،شرافت کے پیکروں میں ڈھل رہی ہے اور ہم بھی یہ قرینے اورسلیقے سیکھ رہے ہیں کہ نیشنل ایشوز پر کس طرح حکومت اوراپوزیشن کو یک جان دوقالب ہونا چاہیے۔یہ نظارہ دیکھتے ہوئے مجھے ماضی قریب کا وہ زمانہ بھی یاد آگیا جب پیپلز پارٹی حکومت اورنون لیگ اپوزیشن میں ہوا کرتی تھی۔''محب وطن حلقوں‘‘ نے اگرچہ نون لیگ کو فرینڈلی اپوزیشن کا خطاب دے رکھا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ نون لیگ ،پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اس کی پوری ٹرم کے دوران فرنٹ فٹ پر کھیلتی رہی۔میمو گیٹ سیکنڈل والی نون لیگ کی سنچری پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اس کی بہترین مثال ہے۔اس سیچوایشن پر مجھے نواب میرزا داغ دہلوی کی لکھی اور غلام علی کی گائی وہ غزل یاد آگئی جسے گلوکار نے استفہامیہ لب ولہجے میں گایا ہے۔پیپلز پارٹی اورنون لیگ کی ''سیاسی پریم کہانی ‘‘ کے سلسلہ میں داغ اور غلام علی کی یہ غزل بیک گرائونڈ میوزک کے طور پر استعمال کی جائے تو ڈرامہ سیریل اوربھی پر اثر ہوجائے گی ؎ 
وفا کریں گے، نبھائیں گے، بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا؟
میاں نوازشریف صاحب نے قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔اس کے مندرجات میڈیا کے سامنے آچکے ہیں۔دہشت گردوں اوردہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیاجائے گا۔پالیسی کا پہلا حصہ خفیہ ، دوسرا سٹر ٹیجک اور تیسرا آپریشنل ہوگا۔اس وقت ملک کی لگ بھگ تما م سیاسی جماعتیں جنہیں انتخابات میں عوامی مینڈیٹ حاصل رہتا ہے‘ حکومت کے اس فیصلے کودرست قراردے رہی ہیں۔لیکن جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کا معاملہ اور ہے۔قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے عمران خان کا ''یوٹرن‘‘ بھی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ عمران خان اس سے قبل شدت پسندی کو قبائلی روایات کا امین قرار دیتے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ چونکہ امریکہ قبائلیوں پر ڈرون برسا کر ظلم کررہاہے‘ اس لیے قبائلی ردعمل کااظہار کرتے ہوئے انتقامی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں۔عمران خان سے لوگ پوچھتے تھے کہ ڈرون حملہ تو امریکی افواج کرتی ہیںلیکن طالبان براہ راست امریکیوں کو نقصان پہنچانے کے بجائے ہمارے بچے قتل کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیںکہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے لگ بھگ 55ہزار سویلین اورفوجی شہید کئے گئے ہیں۔ اس جنگ میں75سے 80ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ہماری معیشت برباد ہوگئی ہے ،ہماری صنعتیں تباہ ہوچکی ہیں، ہمارا انفرا سٹرکچر جل کر راکھ ہورہا ہے اور یہ سب کچھ کرنے والوں سے متعلق کہاجارہا ہے کہ... اپنے لوگ ہیں ،گمراہ ہوگئے ہیں‘ انہیں پیار سے ٹریک پر لانا چاہیے۔ طالبان کے مٹھی بھر ہمدردوں کی طرح کپتان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں مگر وہ قبائلی روایات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے'' ہولی سولی‘‘ (واحد) ترجمان بنے ہوئے الٹا ان کے سکورز بڑھاتے رہے ہیں۔لیکن اب عمران خان کی رائے قدرے بدل گئی ہے۔کپتان کی بدلی ہوئی سوچ کے بارے میںکہاجارہاہے کہ'' عمران خان کی سوچ کی تبدیلی میںفوج کا ہاتھ ہے‘‘۔زیر نظر سیاسی صورت حال‘ جس میں عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا کھلاڑی قراردیاجارہا ہے‘ پر گلوکارہ حمیرا ارشد کا گایا گیت ملاحظہ ہو: 
بُرا نہ منانا لوکو میری گل دا 
میرے تے نا ہُن میرا زور چل دا
میں نئیں بولدی
میں نئیں بولدی 
وے لوکو میں نئیں بولدی 
میرے چ میرا یار بولدا
درج بالا پنجابی استھائی کا مختصر اردو ترجمہ یوں ہوسکتا ہے کہ لوگو! میری بات کا برانہ منانا ، میں نہیں بول رہی ،مجھ میں میرا یار بول رہا ہے۔ زیر نگاہ پنجابی اشعار میرزا نواب داغ دہلوی کی طرح کسی مستند شاعر کے نہیں ہے اورنہ اسے غزل گائیک غلام علی نے گا یا ہے لیکن برموقع اوربرمحل ضرور ہیں۔ کپتان خان کے سیاسی یوٹرن اوراس پر تبصرہ نگاروںکی تیزابی قسم کی حاشیہ آرائی سے یہ گیت کپتان کی سیاست کا عنوان بن گیا ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو تو فوج نے اپنی رائے بدلنے پر آمادہ کیاہے اورکابینہ کو وزیر اعظم نے منا لیا ہے‘ لہٰذا فیصلہ کیاگیا ہے کہ اب مذاکرات بھی ہوں گے اورکارروائی بھی ہوگی۔ مختلف سیاسی پارٹیوں نے حکومت کو یہ جنگ لڑنے کے لئے ووٹ دے دیا ہے۔لگتا ہے کہ پہلے ایئر سٹرائیکس (فضائی حملوں) سے طالبان کے اسلحہ ڈپو اور ٹھکانوں کو تباہ کیاجائے گا۔ اس کے بعد بری فوج آگے بڑھے گی‘ لیکن تاحال بری فوج بھیجنے کا فیصلہ نہیںکیاگیا ۔اس کا فیصلہ طالبان کے آئندہ ردعمل پر ہوگا۔اگر تو طالبان نے یہ کہاکہ وہ مذاکرات کے میز پر آتے ہیں تو حکومت مذاکرات کا میز دوبارہ بچھا ئے گی مگر اس کے لیے طالبان کو سرنڈر کرنا ہوگا۔
آخر میں بھائی کی طرف سے پیش کی گئی ''اوور ٹیک ‘‘ بمپر آفر پر با ت کرلیتے ہیں۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین نے ایک مرتبہ پھر لندن سے ہی بیٹھے بیٹھے اونچے سُروں میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ ''فوج ٹیک اوور کرلے ‘‘۔قائد تحریک نے یہ تجویز پہلے بھی کئی بار پیش کی ہے لیکن فوج نے اسے Feasible(کارآمد) نہیں سمجھا۔ ہم سب جانتے ہیںکہ پاکستان اورجمہوریت میں سے پاکستان بچانے کی سلسلہ وار ڈرامہ سیریل ''ٹیک اوور ‘‘ نے ہمیں اس مقام تک پہنچایاہے۔ بانیِ پاکستان تو حضرت قائداعظم محمدعلی جناح ؒ ہیں لیکن ہمارے دکھوں کے بانیان بالترتیب فیلڈمارشل جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاالحق، جنرل پرویز مشرف اوران کے ہم نوا ہیں۔ڈکٹیٹروں کے ہم نواوں اورہم پیالوں میں جرنیلوں کے ساتھ ساتھ سویلین بھی شامل رہے جن کی ''ٹیک اوور‘‘ سنگتوں کے طفیل ہی ہم برباد ہوئے ہیں۔الطاف بھائی کی ''ٹیک اوور‘‘ والی سدا سہاگن غزل کے حضور پنجابی کی جواب آں غزل کا مطلع پیش خدمت ہے کہ ''ہن ساڈے ولوں ناں ہی سمجھو‘‘ یعنی ''اب ہماری طرف سے ناں ہی سمجھیں‘‘۔ خدا حافظ
والسلام۔ یتیم مسکین دکھیارے اہلِ پاکستان 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved