وفاقی وزیر امور کشمیر چودھری برجیس طاہر نے کہا ہے کہ چودھری مجید کرپٹ وزیر اعظم ہیں اور ان کے پاس موصوف کی چارج شیٹ موجود ہے جس کے جواب میں صدر پیپلز پارٹی پنجاب میاں منظور وٹو نے کہا ہے کہ برجیس طاہر آزاد کشمیر کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ اور یہ اُن کا بیحد جائز مطالبہ ہے کیونکہ کرپشن واقعی پیپلز پارٹی کا داخلی معاملہ ہے اور پیپلز پارٹی کے نزدیک کرپشن ایک طرزِ حیات کا نام ہے۔واضح رہے کہ خود میاں صاحب کو صوبائی صدارت سے ہٹائے جانے کے بارے میں بھی خبریں آ رہی ہیں اور ساتھ ہی پنجاب میں پارٹی کی تنظیمِ نو کے بھی چرچے ہیں اور روٹھے ہوئے کارکنوں کو منانے کا ٹاسک بھی کئی حضرات کو دے دیا گیا ہے جن میں خود میاں منظور احمد خاں بھی شامل ہیں ۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بیگم عابدہ حسین سے رابطہ کر کے انہیں پارٹی کے حق میں دوبارہ مائل کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی جس پر موصوفہ نے یہ بیان دیا تھا کہ بیٹے کو پارٹی ٹکٹ دلوا کر انہوں نے فاش غلطی کی تھی‘نیز یہ کہ انہوں نے عملی سیاست ترک کر دی ہے‘ البتہ ضمنی الیکشن میں وہ پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کی مخالفت کریں گی۔
یہ بات ریکارڈ پر آ چکی ہے کہ اس جماعت کے لیے حالیہ عام انتخابات میں مناسب امیدوار دستیاب ہونا بھی ایک مسئلہ بن گیا تھا جبکہ بلاول بھٹو زرداری کے دورۂ پنجاب کو بھی نامعلوم وجوہ کی بناء پر ملتوی کر دیا گیا ہے اور پارٹی کی تنظیمِ نو کا معاملہ فی الحال کھٹائی میں پڑتا نظر آتا ہے۔آزاد خیال لوگوں کے لیے یہ پارٹی اپنے اندر ہمیشہ سے ایک کشش رکھتی ہے۔ پھر ‘کئی نہایت قیمتی جانوں کی قربانی کا کریڈٹ بھی اسے جاتا ہے لیکن اپنے حالیہ دور میں اس نے میگا کرپشن کے جو ریکارڈز قائم کئے اور خوداپنے ریکارڈز بھی توڑے ہیں اس سے عوام کی واضح تعداد نہایت بددل ہو چکی ہے جبکہ اربوں کی کرپشن کا کوئی نہ کوئی نیا سکینڈل آئے دن سامنے آ رہا ہے۔
ان حالات میں پارٹی کی تنظیمِ نو کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ پارٹی کُتا کنوئیں میں سے نہ نکالے جس نے سارے پانی کو بدبودار کر رکھا ہے۔پارٹی کم از کم اتنا تو کر ہی سکتی ہے کہ اُن لوگوں سے اپنی جان چھڑوالے‘ کرپشن جن کے ماتھے پر لکھی ہوئی بھی پڑھی جا سکتی ہے۔لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں جنہیں اگر فارغ کر دیا جائے تو پارٹی کے پاس شاید ہی کچھ بچ رہتا ہو۔تاہم ایک طریقہ اس ضمن میں یہ ضرور موجود ہے کہ پارٹی سے نکالنے کی بجائے انہیں اہم معاملات پر آگے نہ آنے دیا جائے اور ایک فاصلے پر رکھا جائے اور تنظیم نو وغیرہ جیسے معاملات پر ان کا سایہ نہ پڑنے دیا جائے۔اگرچہ یہ بھی اس کے لیے کوئی آسان کام نہ
ہو گا۔نیز‘ پارٹی کے اندر اب بھی کئی بے داغ او ر نیک نام لوگ موجود ہیں جنہیں آگے لایا جا سکتا ہے تاکہ پارٹی کا کھویا ہوا مقام بحال ہو سکے ۔
پیپلز پارٹی اگر روٹھے ہوئوں کو منانے کے بارے میں واقعی مخلص ہے تو اسے سب سے پہلے غنویٰ اور فاطمہ بھٹو کے ساتھ اپنے رشتے بحال کرنا چاہئیں جس سے پارٹی کو ایک اضافی اعتبار ملے گا اور بہت سے روٹھے ہوئے مایوس کارکن پھر سے آ ملیں گے۔ اس کے علاوہ ناہید خان اور صفدر عباسی کی طرف رجوع کیا جائے تو کارکنوں کا ایک اچھا گروہ پارٹی کو پھر سے دستیاب ہو سکتا ہے۔ممتاز بھٹو کو بھی اپروچ
کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جبکہ بابر اعوان جیسے ناراض لوگوں کو بھی دوبارہ قریب لایا جا سکتا ہے۔یہ محض چند مثالیں ہیں کیونکہ ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ اصل بدقسمتی تو یہ رہی کہ جو لوگ خود بینظیر کے قریبی تھے‘انہیں بھی خود سے دور کر دیا گیا اور جنہیں دوبارہ قریب لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے بھی کہ پارٹی اس وقت ایک پریشان حال جماعت ہے‘یہ نظریاتی طور پر تو اپنی جڑیں پہلے ہی کاٹ کر پاور پالیٹکس کی اسیر ہو کر رہ گئی تھی لیکن اس کے علاوہ یہ اپنے آپ کو مجتمع بھی نہ رکھ سکی۔ انتہائی لالچی لوگ نہ صرف آگے آ گئے بلکہ کلیدی مناصب پر قابض ہو گئے اور پارٹی کا امیج رفتہ رفتہ خراب سے خراب تر ہوتا چلا گیا اور لوٹ مار پارٹی اس کا دوسرا نام ہو کر رہ گیا ہے۔ اس اندھیر گردی پر بلاول کی معذرت بھی ضروری ہے ‘لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی بکھرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں گیا اور اس قحط الرجال میں بھی پارٹی کے پاس سینیٹر اعتزاز احسن جیسے لائق اور صاف ستھرے لوگ موجود ہیں جو آگے بڑھ کر ساری صورتِ حال کو سنبھال سکتے ہیں ‘بشرطیکہ انہیں تنظیمی معاملات میں واقعتاً بااختیار رہنے دیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ کم از کم پنجاب کی حد تک موصوف حیرت انگیز طور پر مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں پوری پارٹی کا چارج بھی دیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس وقت جو لوگ پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘ ان کی اپنی ترجیحات ہوں گی اور یہ غلط ترجیحات اب تک پارٹی کو شدید نقصان سے دوچار کر چُکی ہیں‘اگرچہ پارٹی کے پاس مزید نقصان اٹھانے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
خود بلاول کو اس وقت گرومنگ کی سخت ضرورت ہے اور جس کا ایک طریقہ یہ بھی ہو گا کہ اُسے بہتر لوگوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا موقع دیا جائے کیونکہ جب تک پارٹی کا چہرہ مکمل طور پر تبدیل کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی جائے گی تب تک پارٹی صحیح پٹڑی پر چڑھ ہی نہیں سکتی۔وہ نوجوان ہے اور نوجوان طبقے کے لیے باعثِ کشش بھی بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ ان عفریتوں سے ذرا دور دور رہے جن کی وجہ سے پارٹی ان حالوں کو پہنچی ہے ۔اس کی خصوصی اپیل اگر بنیادی طور پر نوجوانوں سے ہو گی تو اس کے بارآور ہونے کے امکانات زیادہ ہیں جبکہ مذکورہ بزرجمہروں کو پارٹی مفاد میں خود بھی چاہیے کہ وہ کچھ وقت کو پارٹی کے سر سے اپنا سایہ شفقت ہٹا لینے کا کارنامہ سرانجام دے سکیں کیونکہ ان کی اپنی بقا بھی اس میں ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے پاس کوئی گیدڑ سنگھی نہیں ہے جس کے زور پر صحیح معنوں میں گم شدہ وراثت حاصل کر سکے جبکہ سردست تو پارٹی کٹڑ دائیں بازو کے مخالف عنصر کے زور پر ہی چل رہی ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسے اپنے نظریاتی تشخص کو بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ غریب عوام اور لبرل طبقے کا ایک بڑا حصہ اب بھی اس کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھتا ہے جنہیں بار بار مایوس نہیں کیا جا سکتا۔
آج کا مقطع
باقی بچی ہوئی جو محبت ہے‘ اے ظفرؔ
کچھ دن چلے گی یہ بھی ابھی میرے ساتھ ساتھ