تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-03-2014

دستی کی مستی

ممبر قومی اسمبلی جناب جمشید دستی آئین کی شق 62 اور 63 کے معیار پر پورا اترنے والے غالباً واحد منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں۔ جب وہ جعلی ڈگری میں پکڑے گئے‘ تو کوٹ ادو کے ایک بزرگ نے انہیں کہا کہ ''تم شق 62 اور 63 کی خلاف ورزی کر کے ایک صالح کے رتبے سے محروم ہو چکے ہو۔‘‘ جس پر دستی صاحب بہت گھبرائے اور پوچھا کہ ''میںگناہ گاروں کے جھرمٹ میں رہتا ہوں۔ جعلی ڈگری پر الیکشن لڑ کے‘ جو چھوٹی سی غلطی کر بیٹھا تھا۔ اس کی سزا میں قومی اسمبلی کی رکنیت گنوا چکا ہوں۔ کیا اب بھی میرا گناہ معاف نہیں ہو گا؟‘‘ بزرگ نے کہا ''گناہ کی وجہ سے تم نے جو عزت حاصل کی تھی‘ اس کی واپسی سے‘ حساب تو برابر ہو گیا۔ لیکن کفارہ ادا نہیں ہوا۔ تمہارے دامن سے جعل سازی کے گناہ کا داغ‘ صرف اسی صورت میں دھل سکتا ہے‘ جب تم کوئی نیک کام کر کے‘ پارلیمنٹ کے تمام اراکین کے گناہوں کو بے نقاب کرو۔‘‘ اسی دن سے دستی صاحب نے اپنا مشن بنا لیا کہ وہ دوچار نہیں بلکہ ہزار منتخب اراکین اسمبلی کے گناہوں کے داغ داغ کپڑے ٹیلی ویژن چینلز کی برقی لہروں پر ٹانگا کریں گے۔ موصوف کئی ماہ تک انتہائی خاموشی‘ رازداری اور چھپتے چھپاتے اپنے ساتھیوں کے گناہوں کے نظارے کرتے رہے۔ کبھی وہ پارلیمنٹ لاجز کے صدر دروازے کے کسی کونے میں چھپ کر‘ آنے جانے والیوں کو چوری چھپے دیکھنے لگے۔ جو بھی برقع پوش یا چادر میں ڈھکی چھپی خاتون‘ اندر جاتی دکھائی دیتی‘ وہ نظروں ہی نظروں میں اس کا تعاقب کر کے سراغ لگاتے کہ یہ کس کے کمرے میں گئی ہے؟ 
پارلیمنٹ لاجز میں بیشتر منتخب اراکین اپنی فیملیز کے ساتھ آتے ہیں۔ دستی صاحب کفارہ ادا کرنے کے لئے گناہوں کی تلاش میں تھے۔ ان کی عقل و فہم پر کفارے کا غلبہ تھا۔ وہ آنے والی ہر خاتون کو ایک ہی نظر دیکھ کر‘ اپنی نیکیوں کی فہرست میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کی دوسری ڈیوٹی یہ رہی کہ وہ برآمدوں میں ٹہلتے ٹہلتے رہائشی کمروں کے دروازوں کے سامنے سے گزرتے اور اندر سے آنے والی آوازوں پر دھیان سے کان لگائے رکھتے۔ جہاں سے بھی ریکارڈ پلیئر‘ ٹیلیویژن یا ریڈیو سے موسیقی کی آواز سنائی دیتی‘ وہ باور کر لیتے کہ اندر مجرا ہو رہا ہے۔ کچھ دیر کے لئے مجرے کا تصور کر کے‘ اپنی آنسو بہا کر سوئی ہوئی حسرتوں کو جگاتے۔ انہیں مجروں کے جلوے دکھاتے اور حسرتوں کے رخساروں پر ڈھلکتے آنسو پونچھ کر‘ دوبارہ ڈیوٹی دینا شروع کر دیتے۔ یہاں تک تو نظام قدرت دستی صاحب کی کارستانیوں کو نظرانداز کرتا رہتا مگر جب تجسس کا غبار‘ دماغ کو زیادہ ہی چڑھ جاتا تو خود بخود‘ ان کا رخ برآمدے کے کسی موڑ کی طرف ہو جاتا۔ جہاں ڈرائیور اور چوکیدار وغیرہ بیٹھے چرس کے مزے اڑایا کرتے تھے۔ (تھے۔ اس لئے لکھنا پڑا کہ ڈرائیوروں کی چرس نوشی بھی دستی صاحب کے کفارے میں ادا ہو جاتی) دستی صاحب جیسے پاکباز اور گناہوں کی دنیا سے دور رہنے والے شخص کے لئے‘ چرس کا دھواں ہی بہت ہوتا ہے۔ مستی کی کیفیت میں‘ دستی صاحب ایک ایسے فیملی فلیٹ کی طرف جا نکلتے‘ جہاں برآمدے میں بچوں کا جھولا لٹکا ہوتا۔ کہتے ہیں چرس کے نشے میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بہت مزا دیتے ہیں۔ دستی صاحب جھولے میں بیٹھ کے زور زور سے ہوا لینے لگتے۔ آس پاس کے کمروں میں آئے ہوئے بچوں کو‘ جیسے جیسے خبر لگتی کہ دستی صاحب جھولے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں‘ تو وہ دائرے کی صورت ان کے گرد کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے اور دستی صاحب یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں‘ عوام ان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں۔ 
ٹھنڈی ہوا سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے بعد‘ موصوف کو اچانک خیال آتا کہ صدر دروازے پر کھڑے ہو کر‘ اندر آنے والی مزید خواتین کا جائزہ لیا جائے۔ تہجد کے وقت‘ جب وہ اپنے کمرے کی طرف واپس جانے لگتے‘ تو مختلف دروازوں پر ہاتھ لگا کر دیکھتے جاتے کہ کسی کا دروازہ کھلا تو نہیں رہ گیا؟ ایک دروازے کو ذرا سا دبا کر دیکھا‘ تو وہ کھل گیا۔ اندر سے میوزک کی آواز آ رہی تھی اور 40 انچ کا ٹیلیویژن چل رہا تھا۔ بھارتی فلم کا گانا آ رہا تھا‘ جس پر مادھوری ''میرا گھاگرا‘‘ گاتی ہوئی رقص کر رہی تھی۔ دستی صاحب اتنا سرور میں آئے کہ باقی کمرے کی طرف دیکھ ہی نہ سکے کہ کمرے کے رہائشی سوئے پڑے ہیں۔ رقص ختم ہونے پر‘ وہ دبے پائوں پلٹے اور واپس اپنے کمرے میں آ کر سو گئے۔ جب اس طرح کے مشاہدات کافی تعداد میں جمع ہو گئے‘ تو انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب کفارہ ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ دستی صاحب کے بزرگ اکثر بدھ کی رات کو ان کے خواب میں آ کر‘ بتایا کرتے تھے کہ صبح جمعرات آرہی ہے۔ پہلی فرصت میں کوئی نہ کوئی نیکی کا کام ضرور کرنا۔ جمعرات کی صبح دستی صاحب بیدار ہوئے۔ اس دن مسواک کی بجائے ٹوتھ برش سے منہ صاف کیا۔ نوکر سے بطور خاص نہانے کا صابن منگوایا۔ غسل کے بعد سرسوں کے تیل سے بال چوپڑے۔ عطر لگایا۔ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا۔ کھڑے ہو کر مختلف پوز بنائے اور پھر چنائو کیا کہ اسمبلی کے ہال میں تقریر کرتے وقت‘ وہ کس کس اینگل سے کیا بات کریں گے؟ اس کے بعد ایک کرسی اٹھا کر‘ آئینے کے سامنے رکھی اور ٹی وی کیمرے کے لئے مختلف پوز بنا کر‘ ان میں سے بہترین کا انتخاب کر کے‘ حافظے میں محفوظ کر لئے اور پھر یہ سوچتے ہوئے پارلیمنٹ ہائوس کی طرف چل دیئے کہ کون سے چینل پر کیا پوز بنائیں؟ حسب عادت بیرونی دروازے سے نکل کر‘ اس پوائنٹ پر کھڑے ہو گئے‘ جہاں میڈیا والے باہر نکلتے ہوئے ہر ممبر سے ریمارکس لیتے ہیں۔ دستی صاحب کے ساتھ عموماً یہ اتفاق ہوتا ہے کہ وہ دروازے سے باہر نکلنے کے بعد‘ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے‘ میڈیا والوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ان کے قریب سے گزرتے اور جیسے ہی ذرا آگے نکلتے‘ تو ان کے پیچھے سے کوئی دوسرا رکن آ جاتا۔ میڈیا والے‘ اس کی طرف لپکتے اور دستی صاحب کو دور کا چکر لگا کر واپس دروازے کی طرف آنا پڑتا۔ دوبارہ پھر اس طرح چلتے ہوئے‘ میڈیا والوں کی طرف رخ کرتے کہ شاید اس مرتبہ کوئی انہیں دیکھ کر سوال پوچھنے آ جائے گا۔ اگر آ جاتا‘ تو اسے صبح کے بنائے ہوئے پوزز‘ میں سے دوچار پوز بنا کر‘ انٹرویو دیتے اور اگر اس بار بھی ان کی طرف کوئی نہ آتا‘ تو پھر سے چکر کاٹ کر صدر دروازے کی طرف جاتے اور بظاہر ایسا انداز بنا کر باہر نکلتے‘ جیسے پہلی بار آ رہے ہوں۔ کبھی پہلی برآمدگی پر ہی ان کا کام بن جاتا اور کبھی پانچ دس چکر لگانے کے بعد بنتا۔
اس دن دستی صاحب نے ٹھان رکھی تھی کہ آج کفارہ ضرور ادا کرنا ہے۔ ایوان میں کارروائی کسی اور موضوع پر چل رہی تھی۔ دستی صاحب پوری طرح جلال میں آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو۔ اپنی نشست کی طرف گئے۔ ذرا دیر سستائے اور پھر کھڑے ہو کر مائیک کو گردن سے دبوچا اور مستی کے عالم میں یوں گل افشانی شروع کی کہ لابیوں اور کیفے ٹیریا میں گئے ہوئے ممبران بھی لپک لپک کر واپس اپنی نشستوں کی طرف آنے لگے۔ قائم مقام خاتون سپیکر نے انہیں بہت روکا۔ لیکن دستی صاحب کے سر پر کفارے کا بھوت چڑھا تھا۔ وہ کسی کی کیوں سنتے؟ بولتے چلے گئے۔ بولتے چلے گئے۔ بولتے چلے گئے اور رات کے 12 بجے وہ آخری چینل پر بول رہے تھے‘ تو اسٹوڈیو بوائز نے لائٹیں بند کر دیں۔ واپس آنے کے بعد‘ لاجز کے صدر دروازے پر رک کر پھر سے آنے جانے والوں کو تاڑنے لگے۔ پتہ نہیں اس رات وہ کیوں ایسا کرتے رہے؟ کفارہ تو ادا ہو چکا تھا۔ ان کی نگاہیں آمدورفت پر ٹکی تھیں اور ذہن یہ معما سلجھانے میں لگا تھا کہ گزشتہ روز وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں چوہدری نثار اور عرفان صدیقی کی ایک ساتھ تعریف کیوں کی؟ اس کی وجہ کیا تھی؟ وزیر اعظم‘ چوہدری نثارکا قد مزید لمبا کرنا چاہتے تھے یا صدیقی صاحب کا قد مزید چھوٹا کرنا؟ ہمیں کیا؟ دستی صاحب جانیں اور وہ گتھیاں جانیں‘ جو وہ اکثر سلجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ رہ گئیں شراب کی بوتلیں؟ تو آج وہ ٹرک والا پارلیمنٹ کی طرف آیا ہی نہیں‘ جو سفارتکاروں کی آبادی سے ہوتا ہوا دستی صاحب کی فرمائش پر لاجز کا چکر لگا کے جایا کرتا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved