تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     01-03-2014

امتِ مسلمہ کا انتشار

گزشتہ چودہ سو سال میں مسلمانوں نے اپنی تاریخ پر ان گنت کتابیں تحریر کیں، بلکہ دنیا کو تاریخ نگاری کا فن اگر کسی نے سکھایا تو وہ مسلمان ہی تھے، ابنِ خلدون کا مقدمہ آج تک تاریخ دانوں کے لیے تاریخ شناسی کی وہ مشعل ہے جس کی لو روز بہ روز تیز ہوتی جا رہی ہے۔ یوں تو تاریخ‘ لکھنے والے کے تعصبات سے کبھی پاک نہیں ہوتی اور نہ ہی حکومتوں کے خوف سے آزاد، پھر بھی دو تین مختلف مورخین کی تحریروں سے اصل سچ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اس وادی میں یورپ کے ان تاریخ دانوں نے قدم رکھا‘ جنہیں مستشرقین کہا جاتا ہے‘ تو انہوں نے اسلامی تاریخ کے متنازعہ ادوار کو ہی اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور ان گروہوں پر کتابیں تحریر کیں جو مسلم امہ میں اختلاف کا باعث بنے تھے۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ سازی میں خوارج پر معلومات انتہائی بکھری ہوئی اور مواد خاصہ محددو ہے‘ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جو حضرت علی ؓ سے لے کر بنو اُمیّہ کے پورے دور تک حکومتوں کے لیے مسئلہ بنے رہے۔ شیعہ اور سنی دونوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو ان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہو‘ پھر بھی ان کے بارے میں جامع تحقیقی کام انگریزوں کے ہاں ملتا ہے یا پھر پچاس سال قبل عمر ابوالنصر نے تاریخِ خوارج مرتب کی۔ اسے یہ کتاب مرتب کرنے لیے مواد صرف طبری اور مسعودی میں بکھرا ہوا ملا۔ البتہ عربی اور فارسی ادب کی کتابوں میں بھی اس گروہ کا تذکرہ ملتا ہے‘ لیکن گزشتہ چند سالوں سے جب امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں مغرب زدہ مسلمان مفکرین نے اس گروہ کے بارے میں لکھنا شروع کیا اور پھر وہ اس گروہ کی علامتوں کو رسول کریمﷺ کی احادیث سے تطبیق کے بعد موجودہ دور کے گروہوں تک لے آئے تو میرے لیے حیران ہونا ضروری تھا۔ اس لیے کہ جس بُغض و عناد کے ساتھ مغربی مؤرخین نے ہماری تاریخ لکھی اور جس طرح اس امت میں اختلافات‘ خصوصاً شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دی‘ اس سے ان کے فتنہ انگیز ذہن کا پتہ چلتا ہے۔ رسول کریمﷺ کی احادیث میں آنے والے زمانوں میں گروہوں کے پیدا ہونے کے بارے میں مختلف علامات ملتی ہیں اور قرب قیامت کے دور پر تو ہر محدث نے احادیث کے ذخیرہ میں ''کتاب الفتن‘‘ کے نام سے باب ضرور باندھا ہے۔ دجّال، حضرت عیسیٰ ؑ، امام مہدی، یاجوج ماجوج اور دیگر کے بارے میں کثیر احادیث ملتی ہیں۔ ہر دور میں کچھ خود ساختہ عالموں اور روحانی سفیروں نے ان احادیث کی کسی نہ کسی شخص پر تطبیق کرنے کی کوشش کی۔ کوئی مزرا قادیانی بن گیا اور کوئی یوسف کذاب۔ اسی طرح کتنے تھے‘ جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اسی طرح خوارج اور روافض کے بارے میں ہر دور میں کسی نہ کسی گروہ کو خارجی یا رافضی کہا گیا اور رسول اللہﷺ کی حدیثوں سے استنباط کیا گیا۔ اس کا مقصد امت میں فتنہ اور فساد پھیلانے کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ جو احادیث آنے والے دنوں کے بارے میں آپﷺ نے فرمائی ہیں‘ میں ان کی صحت اور رجال پر بحث نہیں کرنا چاہتا کہ اس پر 
پہلے ہی خاصی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ حدیث کے عالموں نے ''موضوعات‘‘ یعنی گھڑی ہوئی حدیثوں کے بارے میں دفتر کے دفتر لکھے۔ یہ احادیث مختلف گروہوں نے اپنے حق میں اور دوسروں کے خلاف گھڑیں اور پھیلا دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی گروہ کو بحیثیت مجموعی کافر، ملحد اور واجب القتل قرار دینا ہو تو ایسی حدیثوں میں سے علامتیں ڈھونڈ کر ان پر منطبق کی جاتی ہیں۔ آج کل اس امت کو تقسیم کرنے والے اور قتل و غارت کو ہوا دینے والے خوارج اور روافض کے نام پر پہلے حدیث کا سہارا لیتے ہیں اور پھر تاریخ شناس بن کر حکمتِ عملی واضح کرتے ہیں۔ خوارج ان دنوں مغرب کا محبوب موضوع ہے۔ خوارج کا سب سے پہلے اطلاق افغانستان میں ملا عمر کے گروہ پر کیا گیا تھا۔ روافض کا موضوع ان دنوں مغرب نے خفیہ طور پر ان مسلمان گروہوں پر چھوڑ دیا ہے جو اس اختلاف کو ہوا دے کر اُمت کو تقسیم کرتے ہیں۔ صرف خوارج کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو فتنے اور سازش کا پتہ چل جائے گا۔ عمر ابوالنصر نے خوارج کے بارے میں سب سے مستند تحقیق کی ہے۔ وہ اس گروہ کا خلاصہ یوں بیان کرتا ہے: ''خوارج جمہوریت کے علمبردار تھے لیکن ان کی انتہا پسندی نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ان کا نظریۂ سیاست خلیفہ کے انتخاب اور معزولی میں اس نظریے سے ملتا جلتا تھا جو انقلابِ فرانس اور انقلابِ انگلستان کا محرّک بنا۔ یوں یہ کہا جائے کہ اہلِ مغرب نے انقلاب کا سبق خوارج سے سیکھا تو کچھ غلط نہ ہو گا‘‘۔ جمہوریت پسندی کا یہی نظریہ تھا کہ خوارج اسلام میں مہاجرین، انصار اور اہل بیت رسول کریمﷺ کو بھی ایک آدمی ایک ووٹ کے نظریے پر پرکھتے تھے۔ ان کا نظریہ بھی موجودہ دور میں ریاست کی طاقت کے اندھے استعمال کے حق میں اور صلح جوئی اور مذاکرات کے خلاف تھا۔ ان کا جنم جنگ صفین سے ہوا جب حضرت علی ؓ نے واضح جیت کے باوجود امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے تحکیم اور مذاکرات قبول کر لیے۔ ایسے میں وہ جو حضرت علیؓ کے ساتھی تھے یہ کہہ کر علیحدہ ہو گئے کہ اگر آپ حق پر ہیں تو پھر مذاکرات کے کیا معنی۔ یہ تھا خوارج کا آغاز۔ مذاکرات سے انکار۔ ریاست کی طاقت کا استعمال۔ اس کے بعد کی تاریخ بہت خونچکاں ہے۔ یہ لوگ بنو تمیم سے تھے اور پھر ان کے ساتھ فارس کے گروہ بھی آ ملے۔ انہوں نے نہروان کے مقام پر حضرت علیؓ سے جنگ کی، شکست کھائی، بکھر گئے اور پھر انہوں نے حضرت علیؓ کو شہید کیا، اس کے بعد امیر معاویہؓ سے تخلیہ میں جنگ کی، شکست کھائی، اس کے بعد یہ حجاج بن یوسف کے زمانے تک ہر کسی سے لڑتے رہے۔ ان کا نظریہ قائم رہا اور آج کل ان کے ایک فرقے اباضیہ کی حکومت مسقط اور عمان میں قائم ہے۔ اسی طرح روافض کا لفظ پہلی دفعہ حضرت زید بن علی نے اس وقت استعمال کیا جب وہ بنی امیہ کے خلاف خروج کے لیے کوفہ کے لوگوں کو اکٹھا کر رہے تھے۔ یہ حضرت امام علی زین العابدینؒ کے بیٹے تھے۔ ان کے خروج کے بارے میں امام ابو حنیفہؒ نے کہا تھا کہ یہ رسول کریمﷺ کی بدر میں آمد سے مشابہ ہے‘ لیکن کوفہ کے لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ کے بارے میں کیا خیال ہے تو انہوں نے کہا: ''میں نے اپنے گھر میں ان کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات سنی‘‘۔ اس پر چالیں ہزار کوفی انہیں تنہا چھوڑ گئے۔ یہاں زید بن علی نے رسول کریمﷺ کی وہ حدیث سنائی جس میں روافض کی علامتیں ہیں اور یہ لفظ استعمال کیا۔ اگلے روز زید بن علی خروج کے لیے نکلے تو ان کے ساتھ تین سو تیرہ افراد تھے، اتنے ہی جتنے رسول کریمﷺ کے ساتھ بدر میں تھے۔ اس دور سے لے کر آج تک اس امت میں جہاں کہیں بھی نفرت پھیلانی ہو‘ ان دونوں الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں جب ہزارہ قبیلے کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کرنا مقصود تھا تو ایسے ہی ان کے خلاف روافض کے فتوے جاری ہوئے اور اسی طرح احادیث کی تطبیق کی گئی۔ اسی طرح جب صفوی حکمرانوں نے ایران میں صوفیائے کرام کا بے دریغ قتل کیا تو انہیں دشمنان اہل بیت اور گمراہ سمجھ کر کیا اور اس کے لیے جواز اس دور کے علماء نے فراہم کیے۔ 
آج کے دور میں اس امت کو اسی بنیاد پر ایک منصوبہ بندی سے تقسیم کر کے لڑایا جا رہا ہے۔ جو امت اختلاف تو رکھتی تھی لیکن قتل و غارت کے چند واقعات کے سوا‘ چودہ سو سال امن و محبت کے تھے۔ ایک دوسرے کا احترام اور سب اپنے اپنے عقائد تک محدود تھے۔ آج یہ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہے اور قتل و غارت کا جواز احادیث رسولﷺ سے نکالا جاتا ہے۔ واجب القتل کے فتوے بھی اس تقدس کے ساتھ دیے جا رہے ہیں اور پھر تاریخ سے تطبیق دی جاتی ہے۔ حکمرانوں کے خلاف جنگ کرنی ہو تو پھر ظالم بادشاہ کے خلاف جہاد کی حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ بادشاہ یا حکمران کا ساتھ دینا ہو تو سارے مخالف خارجی، بدعقیدہ اور باغی بنا دیے جاتے ہیں۔ تاریخ سے مثالیں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ شام میں، مصر میں، عراق میں خارجی ہیں اور ان کے مقابلے میں بشارالاسد، حسنی مبارک اور دوسرے ٹھیک قرار دیے جاتے ہیں اور ان کے ظلم کو جائز اور ان کی حکومت کو صالح اسلامی ریاست کہا جاتا ہے۔ اگر یہی تصور مان لیا جائے تو ریاست بنو امیہ اور بنی عباس کے خلاف اٹھنے والے تمام گروہ کون تھے، کیا تھے۔ یہ وہ ساری بحثیں ہیں جو آج اس امت کے ہر دروازے پر دستک دے رہی ہیں، ان کے علمبردار دونوں جانب کے علماء ہیں۔ ایسے علماء جن کی آنکھوں میں انتقام کے شعلے ہیں اور نفرت کی چنگاریاں۔ جہاں اقتدار ان کے مسلک کا حامی ہو تو سارے باغی، شدت پسند واجب القتل اور ریاست کو انہیں کچلنے کا اختیار ہے۔ اور جہاں اقتدار ان کے مسلک کے خلاف ہو تو سارے لڑنے والے برحق۔ یہی تو اس دور کا المیہ ہے۔ امت کا وبال ہے۔ ہر ریاست کے اپنے فتوے باز ہیں اور ہر ریاست کی مخالفت میں بھی فتویٰ بازوں کی کمی نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved