تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     01-03-2014

قومی سلامتی کا ادھورا تصور

کاش صاحبانِ اختیار جان سکتے کہ قومی سلامتی کا تعلق صرف امن و امان سے نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر سے طرزِ عمل تک، فکری و عملی رویوں پر محیط ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے پس منظر میں سکیورٹی اور ویلفیئر سٹیٹ کی بحث اٹھی۔ سکیورٹی سٹیٹ کیا ہے؟ سادہ لفظوں میں ایسا نظم اجتماعی جہاں ریاست فرد پر مقدم ہوتی ہے۔ فرد کی قربانی گوارا ہوتی ہے لیکن ریاست کی نہیں۔ ایسی ریاست میں عسکری طبقے کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہ قومی مفاد کی تعریف کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اس کا دفاع کیسے ہو گا۔ اختلاف رائے رکھنے والا غدار شمار ہوتا اور ریاست کے غیظ و غضب کا ہدف بن جا تا ہے۔ یہ نعرہ صرف ایک سکیورٹی سٹیٹ ہی میں بلند ہو سکتا ہے کہ: ''گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے‘‘۔ قوم کو مسلسل خارجی دشمنوں کے خوف میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔ ریاست کے عام شہری کے مفادات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف ویلفیئر ریاست میں فرد مقدم ہوتا ہے۔ ریاست کی بقا اور سلامتی کو عام شہری کی صحت اور تعلیم سے مشروط سمجھا جا تا ہے۔ اس تصور کے مطابق ٹینکوں اور جہازوں کی بھرمار سے ریاست کا دفاع ممکن نہیں ہوتا۔ اگر عام شہری ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند ہو گا تو ریاست توانا ہو گی اور وہی ریاست کی سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت قوم کو ہیپاٹائیٹس سے بچانا، پینے کے صاف پانی اور تعلیم کی فراہمی، ایٹم بم بنانے سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
اس باب میں دوسری رائے نہیں کہ پاکستان اب تک ایک سکیورٹی ریاست بنا رہا ہے۔ ریاست عام شہری پر مقدم رہی ہے۔ میں نے اپنے پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں یہ بحث اٹھائی۔ جناب سجاد میر اور مستنصر جاوید جیسے اہلِ دانش اور جنرل (ر) امجد شعیب جیسے دفاعی ماہرین متفق تھے کہ پاکستان کو ایک تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اب ناگزیر ہے کہ پاکستان کو ایک ویلفیئر ریاست بنا دیا جائے۔ میرے نزدیک ریاست کے تشخص میں اس بنیادی تبدیلی کے بغیر، قومی سلامتی کی کوئی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی؛ تاہم صرف یہی کافی نہیں۔ جب بنیادی سوچ بدلتی ہے تو لازم ہے کہ ریاستی اور سماجی اداروں کا مزاج اور حکمت عملی بھی اس کے مطابق تبدیل ہو جائے۔ جب پاکستان سکیورٹی سٹیٹ بنا تو پھر تعبیر دین کے باب میں ایک عسکری نقطہ نظر غالب رہا۔ عسکری رویے ہی کو اساس بنا کر دین کی تمام تعلیمات کی تعبیر کی گئی۔ معلوم یہ ہوا کہ اگر کوئی تلوار اٹھا کر میدانِ جنگ میں نہیں اترتا تو اس کا ایمان ناقص ہے۔ قوم کے ہیرو ان لوگوں کو بنایا گیا جن کا تعلق جنگ و جدل سے تھا۔ اس کے نتیجے میں مسجد، مدرسہ اور میڈیا سمیت ہر سماجی ادارے کا ایک خاص مزاج وجود میں آیا۔ دشمن کی ایک خاص تعریف سامنے آئی۔ ریاستی اداروں نے سٹریٹیجک ڈیپتھ (میں اسے ڈیتھ پڑھتا ہوں) کے تصور کا تعاقب کیا اور اپنے ہی وجود کو کھونے لگے۔ اس پس منظر میں اگر کوئی جہالت کو دشمن سمجھ کر اس کے خلاف میدان میں اترا تو اسے پذیرائی نہیں ملی۔ کسی نے صحت کے ادارے بنائے تو اسے کوئی کام نہیں سمجھا گیا۔ پورا سماج ایک خاص رخ پر چل نکلا۔ آج اسی کا نتیجہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کی پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پالیسی میں اس تصور کا کہیں ذکر نہیں، جس کی شاخوں پہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پھل لگتے ہیں۔ 
اس وقت ریاستی اور سماجی سطح پر ابہام بھی اسی وجہ سے ہے۔ وزیر داخلہ کا تازہ ترین بیان اس کا ایک نمونہ ہے۔ اس وقت یہ خیال مستحکم ہو چکا کہ مذاکرات کا عمل بے نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ حکومت اور قوم کا اجتماعی موقف یہ سامنے آ رہا ہے کہ طالبان کو یک طرفہ جنگ بندی کرنا ہو گی۔ اس کے باوصف وزیر داخلہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے یک طرفہ جنگ بندی کے لیے نہیں کہا۔ انکار ہمیشہ اس بات کا کیا جاتا ہے جسے آپ غلط سمجھتے ہوں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے طالبان سے یک طرفہ جنگ بندی کا مطالبہ درست نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اخلاقاً یا قانوناً یہ حق نہیں رکھتی کہ کسی مسلح گروہ سے یہ مطالبہ کرے؟ اگراس کا یہ حق ثابت ہے تو یہ معذرت خواہانہ رویہ کیوں؟ میرا احساس ہے کہ اس کی جڑیں فکری ابہام میں ہیں۔ ہم حکومتی اور سماجی سطح پر یہ طے ہی نہیں کر سکے کہ ریاست کو کس نہج پر چلانا ہے۔ اس باب میں کوئی ریاستی نقطہ نظر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ غیرریاستی اداروں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس وقت اگر کوئی ریاستی اور سماجی نقطہ نظر ہے تو وہ چوہدری شجاعت صاحب کی عطا ہے: مٹی پاؤ۔ لگتا ہے سب وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ کوڑا سمیٹ کر چارپائی کے نیچے چھپا دیاجائے۔
قومی سلامتی کو محض امن و امان کا مسئلہ سمجھنا ایک بڑی غلطی ہو گی۔ چند بنیادی سوالات کو مخاطب بنائے بغیر قومی سلامتی کی ضمانت ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے یہ طے ہونا چاہیے کہ ہم پاکستان کو ایک قومی ریاست سمجھتے ہیں یا عالمگیر ذمہ داریوں کی حامل ایک نظریاتی ریاست؟ ستانوے فی صد مسلم آبادی کا ملک اگر قومی ریاست ہو گا تو بھی اسلام اس کی نظریاتی شناخت میں بہت اہم ہو گا؛ تاہم ایک قومی ریاست کا کسی نظریاتی شناخت کا حامل ہونا، اس سے بالکل مختلف ہے کہ وہ اپنے نظریے کی عالمگیر تعبیر کی علم بردار ہو۔ معاصر مسلمان ریاستوں میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ داخلی سطح پر اسلام سعودی عرب کی قومی شناخت اور تہذیبی بُنت کا ناگزیر حصہ ہے۔ اس کے باوصف وہ ایک قومی ریاست ہے۔ ایران، مصر، امریکہ اور شام کے حوالے سے، اس کی حکمتِ عملی سے یہ اچھی طرح واضح ہے۔ بایں ہمہ ایران کا بھی ایک نظریاتی تشخص ہے‘ اس کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات کے باب میں اس نے مسئلہ کشمیر کو کبھی اہمیت نہیں دی کہ ایک قومی ریاست کے تناظر میں اسے یہی کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے۔ اگر پاکستان ایک قومی ریاست کے تصور کی آبیاری کرے گا تو پھر قومی سلامتی کا جو تصور سامنے آئے گا، وہ اس سے بہت مختلف ہو گا جس کو ضیاالحق صاحب یا جماعت اسلامی نے فروغ دیا۔ اس تبدیلی کے بعد امتِ مسلمہ ایک روحانی تصور تو ہو سکتا ہے، سیاسی نہیں۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ قومی سلامتی کا تصور اس کے علاوہ بھی گہرے غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ماہرینِ عمرانیات و معیشت، علمائے دین و الٰہیات، سیاسیات کے سکالرز، عسکری ماہرین اور ریاستی نظم و نسق کو سمجھنے والوں کی اجتماعی بصیرت کا حاصل ہو نا چاہیے۔ مجھے کسی سمت سے یہ آواز سنائی نہیں دی۔ غالب خیال یہی ہے کہ قومی سلامتی امن و امان کا ایک مسئلہ ہے جسے طالبان کے ساتھ مذاکرات یا جنگ سے حل کیا جا سکتا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم ایک خاص جغرافیے کے اندر اپنے سلامتی کے تصور کو آگے بڑھائیں۔ اس جغرافیے کا نام پاکستان ہے۔ پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست بنانے کے جوش میں ہم نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ ایک جغرافیہ بھی ہے۔ اس کو سامنے رکھے بغیر قومی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ میں عرض کر چکا کہ پاکستان کو جغرافیہ سمجھنے سے اس کے نظریاتی تشخص کی نفی نہیں ہوتی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved