80ء کی دہائی کے وسط میں اپنے دوست ببوبرال کے ساتھ لاہور آیا کرتاتھا۔ببوبرال کا اصل نام ایوب اختر تھا اور اس کا تعلق گجرانوالہ کے نواحی علاقہ گکھڑ منڈی سے تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میرے عزیز اورپورے پاکستان کے عزیزی سہیل احمد بطور اداکار قسمت آزمانے گجرانوالہ سے لاہور آچکے تھے ۔ سہیل احمد اپنے سینئر اداکارمستانہ کے ساتھ اچھرہ کے محلہ دوہٹہ کالونی میں رہائش اختیار کئے ہوئے تھے‘ جہاں میں اورببوبرال ان کے مہمان بنا کرتے اورپھر ہم سب مل کر رت جگے کا ''ورلڈ ریکارڈ ‘‘ قائم کیا کرتے ۔ان دنوں میرے بڑے بھائی طیب سرورمیر علامہ اقبال میڈیکل کالج میںاپنی گریجویشن مکمل کررہے تھے۔بھائی کا ہاسٹل علامہ اقبال ٹاون کے ہما بلاک میں تھا جس سے چند قدموں کے فاصلے پر تین عدد نگار خانے تھے: شاہ نور‘ باری اور ایورنیو سٹوڈیوز۔ یہ وہ زمانہ تھا جب متذکرہ تینوں سٹوڈیوز کے اندر اور باہر بیسیوں فلموں کی شوٹنگ ہوا کرتی تھی۔ ایک دن جب میں بھائی سے ملنے اس کے ہاسٹل آیا تو شاہ نور سٹوڈیو کے باہر سلطان راہی اورانجمن کو ایک زیرِ تکمیل فلم کی شوٹنگ کرتے دیکھا۔سلطان راہی نے کالے رنگ کا لاچہ کُرتا جبکہ انجمن نے آتشی گلابی ،جامنی اور سرخ رنگ کا لاچہ کُرتا زیب تن کررکھا تھا ۔ مجھ جیسے ''فلمیزیا‘‘ (فلموں کے شوقین) کو یہ منظر پنجاب حکومت کے یوتھ فیسٹیول سے کہیںزیادہ دلفریب دکھائی دیا ۔سلطان راہی اپنی مخصوص ایکٹنگ اور گیٹ اپ جبکہ انجمن اپنے قدوقامت، سڈول جسامت اورخوبصورتی کے باعث کسی اوردنیا کی مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔انجمن کو دیکھتے ہوئے میں مبہوت ہوگیا تھا لیکن انجمن ایک نحیف سے شخص کو بار بار کہہ رہی تھی''ملک صاحب آڈر پلیز ‘‘۔مجھے یوںلگا کہ جیسے حسین وادی پر کسی گھس بیٹھیے نے قبضہ کرلیاہو ۔ میں شدید پریشانی میں سوچ رہا تھاکہ اتنی حسین وجمیل انجمن ایک دبلے پتلے شخص کا حکم بجا لارہی ہے۔ لیکن حیرتوں کے سلسلے اس وقت ختم ہوگئے جب اس دبلے پتلے شخص نے اچانک ''ایکشن‘‘ کہا اورانجمن آڈر پاتے ہی سلطان راہی کے اردگرد چوکڑیاں بھرتے ہوئے ناچنے لگی۔ وہ شخص ہدایتکار یونس ملک تھا اوراپنی زیر تکمیل فلم ''شیر خان‘‘ کی آوٹ ڈور عکسبندی میں مصروف تھا۔
انجمن کے علاوہ بابرہ شریف، نیلی،نادرہ، گوری ،مزلہ ، امروزیہ اورنازلی سمیت دوسری فلمی اپسرائیں پہلی بار میں نے یہیں دیکھی تھیں۔ اپسرائوں کے ساتھ ،ساتھ فلمی شہزادوںکا دیدار عام بھی مجھے اسی خطے میں نصیب ہوا تھا۔ شاہ نور سٹوڈیو اور ہمابلاک کی اطراف میں عکسبندی کرتے ہوئے ہمیں بہت سے فنکار دکھائی دیاکرتے ۔ گویایہ وہ مقام تھا جو میرے لئے کسی ثقافتی خط استوا سے کم نہیں تھا۔ ثقافتی قطبین کے درمیان ہمیں چاندچہرے اورستارے یہیں دکھائی دیا کرتے تھے۔ وہ زمانہ انجمن کا تھا‘ جب کبھی انجمن دکھائی دیتی تو دن اوررات بالکل اسی طرح برابر ہوجایا کرتے تھے جیسے سورج کے خط ِاستوا پر آنے سے دن رات برابر ہوجاتے ہیں۔
فلم انڈسٹری کے افق پر ان دنوں سلطان راہی اورانجمن کی جوڑی چاند اورسورج بن کر چمک رہی تھی لیکن اس کہکشاں میںبابرہ شریف، نیلی،نادرہ،جاوید شیخ ،اسماعیل شاہ (مرحوم)، گوری، جہانزیب، فیصل، سویرا، ستارہ اور لبنی خٹک جیسے چاند چہرے شامل تھے۔ اس وقت ریما،مدیحہ شاہ، ریشم اورشان جیسے آرٹسٹ ابھی متعار ف نہیں ہوئے تھے۔ریما،مدیحہ شاہ ،نرگس ، میرا ،ثنا، اورشان 88ء، 89ء اور اس کے بعد کے پریڈمیں متعارف ہوئے تھے۔اداکارہ صائمہ ان تینوں سے پہلے فلم انڈسٹری میںآئی تھیں ۔ان سب کی آمد کاتذکرہ کسی دوسری نشست میں کروں گا۔ تھیٹر کا عروج امان اللہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ نوٹنکی اورٹکا تھیٹرتو لاہور میں بہت عرصہ سے ہورہا تھا لیکن تھیٹر کو انڈسٹری بنانے کا کریڈٹ امان اللہ اوران کے ساتھیوں کو جاتا ہے۔ 1981ء سے 1987ء تک میں گجرانوالہ سے لاہور سہیل احمد صاحب اورڈاکٹر طیب سرور میر سے ملاقات کرنے آتا رہا۔1988ء کے آغاز میں ،میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلا غیات سے وابستہ ہوگیا جہاں میرے کلاس فیلوحامدمیر تھے۔میر صاحب کی وساطت سے میںنے 88ء ہی میں باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا ۔پنجاب یونیورسٹی میں ہاسٹل نمبر 18کا کمرہ نمبر 211 یوں تو میرے نام الاٹ تھا مگر اس پر فنکاروں کا قبضہ تھا۔
88ء سے قبل جب میں ببوبرال کے ساتھ لاہور آیاکرتا تو ہم رات کو لکشمی چوک کے عین وسط میں لب سڑک واقع ریسٹورنٹ میں بیٹھا کرتے تھے۔یہاں ہونے والی چوکڑی
(محفل) کے مہمان خصوصی اداکار فخری احمد ہوا کرتے تھے جنہیں مستند اورزیر تعمیر سبھی فنکار (تایاجی ) کہاکرتے تھے۔یہاں بیٹھنے والے فنکاروں میں سہیل احمد، مستانہ ، ببوبرال ، اشرف راہی، عابد خاں(مرحوم) خالد معین بٹ، بابر جاوید، اعوان جی ، نعیم کشمیری، جگنو(ڈھولک نواز) کاجل ،عنایت لاہور ی ،ملک انوکھا اورطارق جاوید شامل تھے۔ اداکار طارق جاوید یہاں کبھی کبھار آیا کرتے تھے باقی لوگ اس ''سستا اور ادھار ریسٹورنٹ‘‘ کے مستقل کلائنٹ تھے۔یہ زمانہ امان اللہ، البیلا اور طارق جاوید کے عروج کا تھا۔البیلااورطارق جاوید بھی کبھی کبھار یہاں سنگت کرنے آجایا کرتے لیکن امان اللہ اپنی مصروفیات کے باعث کم آیا کرتے تھے۔
گرمیوںاورقدرے کھلے موسم میںچوکڑی باہر لبِ سڑک ہوا کرتی تھی۔ ایسی ہی ایک رات میں سہیل احمد،مستانہ اورببوبرال کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا جہاں برابر کی میز پر پانچ چھ ہٹے کٹے ہیجڑے بھی تناول ماحضر فرمارہے تھے۔یہ ہیجڑے عام نہیں تھے چھ،چھ ست ست فٹے تھے، یوں لگ رہاتھا کہ نیٹوفورسز کے کمانڈو ہیجڑے افغانستان کے سویلین علاقوں میں آگئے ہوں۔ یہ کمانڈو وضع قطع کے ہیجڑے‘ مردانہ شلوار قمیصیں اورچپلیں پہنے ہوئے تھے ،ان میں سے بعض نے پٹھانی چپلیں بھی پہنی ہوئی تھیںجو عام طور پر صرف قبائلی مرد پہنتے ہیں۔ اس زمانے میں دہشت گردی اورخودکش دھماکوں کا رواج نہیںتھا وگرنہ ہمیںشک ضرور ہونا تھا کہ یہ کوئی کالعدم ہیجڑے ہیں۔ چونکہ ہیجڑے اپنے
مخصوص لبا س کے بجائے مردانہ کپڑوں میں تھے‘ اس لیے میںنے اشارہ کرتے ہوئے دھیمے لہجے میںکہا ''لگتا ہے چٹ کپڑئیے ہیں‘‘۔ ببوبرال جھینپے بغیر بولا'' نہیں وردیاں ہیڈ کوارٹر میں اتار آئے ہیں‘‘۔سہیل احمد، مستانہ ،ببوبرال اورمیں ورطہ حیرت میں گُم ان غیر معمولی ہیجڑوں کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ دھیمی آوا زمیں سہیل احمد، ببوبرال اورمستانہ کے جملوں اورجگتوں کو میں بہت انجوائے کررہاتھا۔میرے اندر قہقہوںکا سونامی امڈ آیا تھا مگر اوپر سے میسنا(من گھنا) بنا ہوا تھاکہ کہیں خطرناک کھسرے مائنڈ نہ کرجائیں۔
ہم مردوں کو دیکھ کر کھسرے بھی اپنی ''کھسکراہٹ‘‘دکھانے پر اتر آئے۔ہم سوچ رہے تھے کہ ان کی شکل اوروضع قطع کے مطابق ان کے نام بوٹا، علم دین اوراشرف وغیرہ ہوں گے مگر وہ ایک دوسرے کو بوبی، بابو (بابرہ شریف کانک نیم) نیلی‘ ریٹا اور انجمن جیسے فلمی برانڈنیم سے مخاطب کررہے تھے۔ ان ٹارزن اور ہرکولیس ٹائپ کھسروں کے فلمی نسوانی جذبات سے متعلق جان کر ہماری ہنسی کے بند ٹوٹ گئے مگر ہم نے ضبط کیے رکھا کہ کہیں یہ ڈبلیوڈبلیو ای فیم کھسرے ہمارے ساتھ ڈائریکٹ نہ ہوجائیں۔ ہم سب کھانا کھاچکے تھے لیکن کھسرے بہت دیر تک کھانے میں مصروف رہے ۔ایک ہیوی ڈیوٹی کھسرے نے کھسرانہ انداز میں پلیٹ فضا میں لہرائی اور آواز دی... ویٹر گل سن... ویٹر پاس آیاتو کھسرے نے لہک کر کہا ''شیدو ! شیف نوں کہو انجمن شورامنگدی اے ( شیدو ! شیف سے کہوانجمن شوربہ مانگ رہی ہے)۔ ببوبرال اورمستانہ دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں۔ دونوںجب تک زندہ رہے ہم تینوں میں یہ جملہ ہنسی کا کوڈ رہا(شیدو !شیف نوں کہو انجمن شورامنگدی اے)۔