تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-03-2014

سرخیاں‘ متن‘ اشتہار اور بھارت سے شاعری

قومی سلامتی پالیسی پر حکومت میں 
کوئی کنفیوژن نہیں... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''قومی سلامتی پالیسی پر حکومت میں کوئی کنفیوژن نہیں‘‘ کیونکہ جن حصوں پر کنفیوژن ہے انہیں خفیہ خانے میں رکھ لیا گیا ہے تاکہ ان کا کنفیوژن رفتہ رفتہ خود ہی دور ہوتا رہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''اپوزیشن اور پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لیں گے‘‘ اگرچہ یہ کام بل بنانے سے پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن دیر آید ہمیشہ درست آید ہی ہوتا ہے البتہ اس بات پر تشویش ضرور لاحق ہے کہ جملہ ایجنسیاں ہماری ماتحتی میں کیسے آ جائیں گی‘ اس لیے اس کے کامیاب ہونے کا اندازہ خود ہی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے 300 گھر کرایہ پر لینے کے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں‘‘ جس میں پانچ سات سال تو لگ ہی سکتے ہیں‘ اسی لیے اس کے لیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دے سکتے‘ اگرچہ یہ بیچارے دن رات اپنا کام کرتے ہیں‘ ہمارا کیا لیتے ہیں۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔ 
9 مارچ پنجاب کے غریبوں کے
انقلاب کا دن ہوگا... الطاف حسین 
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ''9 مارچ پنجاب کے غریبوں کے انقلاب کا دن ہوگا‘‘ کیونکہ سندھ کے غریبوں کے انقلاب کا دن تو آ کر گزر چکا ہے جبکہ اب صرف پنجاب ہی اس انقلاب کے بغیر رہ گیا ہے‘ اگرچہ ہمارے ہاں ایک اور ہی انقلاب برپا ہونے جا رہا ہے جس سے کراچی میں بدامنی پھیلنے کا بھی امکان ہے اور جس سے امن قائم کرنے کی کوششوں کو زبردست دھچکا لگنے کا خطرہ ہے‘ نیز پاکستان کو دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کی کیا ضرورت ہے، جبکہ ہماری حکومت ہمیشہ سے اپنے پائوں پر کھڑی ہے اور اسے کبھی دوسروں کے سامنے تعاون کا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ آپ اگلے روز لندن سے حسبِ معمول ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ 
فوج کو ٹیک اوور کے مشورے
پر تشویش ہے... منظور وٹو 
پیپلز پارٹی پنجاب کے تاحال صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''الطاف حسین کے فوج کو ٹیک اوور کے مشورے پر تشویش ہے‘‘ اور مجھے تشویش اس لیے ہے کہ اس سے سب سے زیادہ میرے ہی متاثر ہونے کا امکان ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ کھچڑی میرے خلاف ہی پکائی جا رہی ہے حالانکہ یہ کھانے کی چیز ہے اور کھانے کا ماشاء اللہ ہم سے زیادہ شوقین اور کون ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ
''حالات کتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں‘ ان کا حل جمہوری طریقے ہی سے نکالا جا سکتا ہے‘‘ کیونکہ یہ جمہوری طریقے ہی کی برکتیں ہیں کہ ہر کوئی اپنے حصے کی کھچڑی جی بھر کے کھا سکتا ہے اور اگر ہمت ہو تو اپنے حصے سے زیادہ بھی ڈکار سکتا ہے جبکہ یہ اپنے اپنے ہاضمے پر بھی منحصر ہے کہ ہاضمہ اگر لکڑ ہضم پتھر ہضم ہو تو کوئی بھی چیز بچ کر نہیں جا سکتی۔ افسوس کہ یوتھ فیسٹیول میں طرح طرح کے ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں جبکہ کھانے کا کوئی مقابلہ ہوتا تو ہم سارے کے سارے ریکارڈ توڑ کر رکھ دیتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں اوکاڑہ کی تنظیم کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
پنکچر لگوائیں...! 
پنکچر لگوانے کے لیے ہماری خدمات سے فائدہ اٹھائیں جس
سے ٹیوب بالکل نئی نکور ہو جاتی ہے اور پتہ ہی نہیں چلتا کہ پنکچر کہاں لگایا گیا ہے، چاہے اس میں انمٹ سیاہی استعمال کی گئی ہو۔ سائیکل‘ موٹر سائیکل‘ کار‘ ٹریکٹر ‘ ٹرالی‘ حتیٰ کہ ہوائی جہاز کے ٹائروں پر پنکچر لگانے کا کام بھی نہایت تسلی بخش طور پر کیا جاتا ہے البتہ سیلوشن اپنا اپنا ہمراہ لانا ہوگا۔ نقد ادائیگی کی ضرورت نہیں بلکہ بعد میں کسی عہدہ وغیرہ سے بھی حق رسی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ادھار بالکل بند ہے کیونکہ یہ محبت کی قینچی ہے اور محبت کو کُترتی چلی جاتی ہے البتہ ہمارے ہاں قینچیاں تیز کرنے کا کام بھی بازار سے بارعایت کیا جاتا ہے‘ آزمائش شرط ہے۔ نقالوں سے ہوشیار رہیں کیونکہ ہمارے مقابلے میں پنکچر لگانے کے جو بھی دعوے کیے جائیں گے‘ غلط ہوں گے۔ سائیکل کے کُتے فیل ہو جائیں تو انہیں با رعایت پاس کرنے کا بھی انتظام موجود ہے۔ 
المشتہر: پنکچر ہائوس‘ دی مال‘ لاہور 
فلک آثار 
بھارت سے پرتپال سنگھ بیتاب کا مجموعہ کلام '' فلک آثار‘‘ کے نام سے موصول ہوا ہے۔ انہوں نے ایک بار کہیں کہا تھا کہ لوگ انہیں بھارت کا ظفر اقبال کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں پاکستان کا پرتپال سنگھ بیتاب بھی کہلا سکتا ہوں۔ اللہ معاف کرے! مصنف کے کریڈٹ پر کئی اور مجموعے بھی موجود ہیں جن میں سے کچھ کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ میں نے اس کتاب کی ابتدائی 20 غزلوں کا مطالعہ کیا ہے اور اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ وہ روٹین کی شاعری ہے جس کے خلاف ہم نے 60ء کی دہائی میں تحریک چلائی تھی۔ پوری کتاب اس لیے نہیں پڑھ سکا کہ اچھی شاعری اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے بلکہ خود پر کچھ لکھنے کے لیے اُکساتی بھی ہے کیونکہ شاعری کی کتاب کو آپ بیگار کے طور پر نہیں پڑھ سکتے۔ بھارت میں اردو غزل جن حالوں میں ہے اس میں زیادہ تر حصہ وہاں کے نقاد حضرات کا بھی ہے جو سراسر ناشاعری کو شاعری کے طور پر نہ صرف پیش کرتے ہیں بلکہ اس کی تعریف میں زمین و آسماں کے قلابے بھی ملایا کرتے ہیں جس سے ایک گڑبڑ یہ ہوئی ہے کہ قاری اسی کو شاعری سمجھ بیٹھا ہے اور لکیر کا فقیر بنا رہتا ہے۔ بھارت کا آخری ڈھنگ کا شاعر اسعد بدایونی تھا۔بمل کرشن اشک‘ زیبؔ غوری اور بانیؔ کے ساتھ عمر نے وفا نہ کی اور اب فرحت احساس رہ گئے ہیں جنہیں آپ شہد لگا کر چاٹا کریں اور نہیں تو پرتپال سنگھ بیتاب احمد مشتاق کا کلیات ہی پڑھ چھوڑیں جو شب خون کتاب گھر الہ آباد نے چھاپا ہے۔ علاوہ ازیں جس شاعری میں تازگی اور تاثیر نہ ہو وہ شاعری کہلانے کی مستحق نہیں۔ نیز اس انداز کی بدرجہا بہتر شاعری اگر پہلے ہو چکی ہے تو اس شاعری کا کیا جواز ہے اور کیا ضرورت۔
آج کا مطلع 
باقی تھا ابھی دن کہ بجی رات کی نوبت 
آنی ہی تھی اک روز تو اس بات کی نوبت 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved